جواب :سید اور غیر سید کی باہم شادی ہو سکتی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی کوئی ممانعت نہیں۔پچھلی صدیوں میں اس خاندان کی ہر شاخ میں یہ کام ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ شادی نہ کرنے کا تصور برصغیر میں جاگیردارانہ کلچر کی پیداوار ہے۔ میرے علم کی حد تک عربوں میں اس طرح کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ شاید اب پایا جاتا ہے۔ اسلام کسی ہستی کے ساتھ وابستگی کی بنا پر کسی فضیلت کو روا نہیں رکھتاصرف تقوی اور اعمال کی بنا پر فضیلت کو روا رکھتا ہے ۔ جہاں تک سید ہونے کے مدعی شخص کی عزت کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا مظہر ہے۔ اس سے عزت کرنے والے مسلمانوں کو توان شاء اللہ فائدہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا اس سید کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ باقی رہا آپ کا یہ اشکال کہ سید زکوۃ نہیں لے سکتاچنانچہ یہ بچے زکوۃ لے سکیں گے یا نہیں؟ عرض ہے کہ ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو زکوٰۃ لینے سے روکنے کا ایک خاص سبب تھا جو اب موجود نہیں اس لیے ان کے زکوۃ لینے میں کوئی حرج نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لینے کی ممانعت فرمائی تو اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ تھی کہ اموال فے میں سے ایک حصہ آپ کی اور آپ کے اعزہ واقربا کی ضرورتوں کے مقرر کر دیا گیا تھا۔ یہ حصہ بعد میں بھی ایک عرصے تک باقی رہا۔ لیکن اس طرح کا اہتمام، اب موجو د نہیں لہذا بنی ہاشم کے فقراومساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰۃ کے اموال سے اب بغیر کسی تردد کے پوریی کی جا سکتی ہیں۔قیامت کے روز ماں کے نام سے پکارے جانے کا معاملہ اگر یہ خبر درست ہے تو ہر انسان سے متعلق ہے اور قیامت کے ساتھ خاص ہے۔ اس سے دنیا کے معاملات میں استنباط کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ محققین کے نزدیک یہ بات درست نہیں۔
آپ کا یہ خیال درست ہے کہ ہمارے ہاں خاندان باپ کی نسبت سے طے ہوتا ہے۔ یہ ایک کلچرل مسئلہ ہے۔ اسلام نہ اسے درست قرار دیتا ہے اور نہ غلط ۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : عقیقے کے بارے میں یہ اختلاف ہمیشہ سے ہے کہ یہ کوئی مستقل دینی حکم ہے یا نہیں۔فقہ کی مشہور کتاب ‘بدایۃ المجتہدونہایۃ المقتصد’ میں فقہی آراء کا خلاصہ ان الفاظ میں منقول ہے:‘‘ایک گروہ نے جس میں ظاہری علما شامل ہیں، عقیقہ کو واجب قرار دیا ہے۔ جمہور نے اسے سنت کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ اسے فرض مانتے ہیں نہ سنت۔ ان کی بات کا ماحصل یہ ہے کہ یہ نفل ہے۔ ’’موسیقی کے حوالے سے آپ کا اشکال یہ ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موسیقی کی رائج صورتوں میں تو قباحت ہی قباحت نظر آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گانوں کی شکل میں جو موسیقی ہر جگہ سنی اور سنائی جا رہی ہے اسے قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک بھی اس طرح کی موسیقی سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔ لیکن دین کے ایک عالم کو اصولی بات بھی بتانا پڑتی ہے۔ اصولاً موسیقی کو ناجائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ موسیقی کے عمومی استعمال میں جو قباحت موجود ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر استعمال درست نہ ہو تو یہ گناہ ہے۔ جائز موسیقی کی بعض صورتیں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ جیسے جنگی اور ملی ترانے، حمدیہ اور نعتیہ کلام، اچھے مضامین کی حامل غزلیں اور نظمیں جنھیں آلات موسیقی کے ساتھ اور فن موسیقی کے مطابق گایا جاتا ہے موسیقی کے صحیح استعمال کی مثالیں ہیں۔ موسیقی کی طرح شاعری بھی ایک فن لطیف ہے۔ جس طرح شاعری میں اعلی اورادنی ، علمی، عاشقانہ اور سماجی معاملات نظم کیے جاتے ہیں اسی طرح موسیقی بھی عمدہ اور کم تر مظاہر رکھتی ہے۔ جس طرح شاعری کی بعض صورتیں گناہ ہیں۔ اسی طرح موسیقی کی بعض صورتیں بھی گناہ ہیں۔ غرض یہ فنون لطیفہ تلوار کی طرح ہیں۔ استعمال کرنے والا چاہے تو اسے جہاد میں استعمال کرکے جنت خرید لے اور چاہے تو اسے کسی بے گناہ کو قتل کر جہنم واصل ہو۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو مساوات کے بجائے عدل کا لفظ زیادہ صحیح ہے۔ مساوات سے بھی وہی مساوات مراد ہے جو عدل کے مقصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی جن دوتعلیمات پر اشکال ظاہر کیا ہے ان کا تعلق اسلام کے پیش نظر خاندانی نظام سے ہے۔جس طرح کسی بھی نظام میں مناصب اہلیت کی بنا پر دیے جاتے ہیں اسی طرح خاندان میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو اللہ تعالی نے عورت اور مرد کی شخصیت میں کچھ فرق رکھا ہے ۔ دوسرے اسلام میں کفالت کا ذمہ دار مرد کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان دو اسباب کے تحت مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ہر نظام میں سربراہ کو تادیب کے اختیار حاصل ہوتے ہیں اسی طرح گھر کے اس باس کوبھی تادیب کا اختیار حاصل ہے۔قرآن مجید میں یہ ساری بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضہم علی بعض وبما انفقوا باموالہم (النساء۴:۳۴)
‘‘مرد عورتوں پر قوام ہیں اس وجہ سے اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔’’شوہر کو بیوی کا باس قرار دینے کی وجہ بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اچھی بیوی کی دو صفات بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ فرماں بردار ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ گھر کے بھیدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید نے اگر بیوی شوہر کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردے تو اصلاح کے لیے نصیحت، بستر سے علیحدگی اور بدرجہ آخر مارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔اگر اللہ کے دین میں دیا گیا خاندانی نظام پیش نظر ہو تو اس میں یہ ساری باتیں معقول ہیں۔ البتہ اگر خاندانی نظام کے بجائے معاشرے کو کسی دوسرے طریقے پر استوار کرنا پیش نظر ہے تو پھر نہ ان ہدایات کی ضرورت ہے اور نہ کسی خصوصی اختیار اور حیثیت کی۔قانون وراثت کے ضمن میں عرض ہے کہ اس کی اساس خود اللہ تعالی نے بیان کردی ہے۔ اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ وارثت کے یہ احکام اس لیے دیے گیے ہیں کہ تم خود سے بالعموم ٹھیک ٹھیک متعین نہیں کر سکتے کہ مرنے والے سے منفعت میں سب سے زیادہ کون قریب ہے۔ اس لیے ہم نے خود سے حصے مقرر کر دیے ہیں۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ مرد کو کفیل ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ مردوں پر آئندہ کفالت کی ذمہ داری ہے لہذا انھیں زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ اسی قانون میں ماں باپ کا حصہ برابر ہے۔ حالانکہ ان میں بھی ایک مرد اور ایک عورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس پر معاش کی ذمہ داری کی وہ صورت نہیں ہے۔ہر قانون اور ضابطہ کچھ مصالح اور مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ قانون پر تنقید کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس مصلحت اور مقصد کو سمجھا جائے۔ دو صورتیں ہوں گی۔ ہمیں اس مقصد اور مصلحت ہی سے اتفاق نہ ہو۔ پھر بحث اس موضوع پر ہو گی ۔ دوسری یہ کہ اس مصلحت اور مقصد کو یہ قانون پورا نہ کرتا ہو۔اس صورت میں گفتگو اس دوسرے پہلو سے ہو گی۔ قرآن مجید کا معاملہ یہ ہے کہ یہ علیم و خبیر خدا وند عالم کی کتاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے اس کی کوئی بات انسانی فطرت اورعقل وفہم کے موافق نہ ہو۔ ہم اپنی کوتاہی دور کر لیں ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : فقہا کے نزدیک بحث کا انحصار ستر کے تعین پر ہے۔ نماز میں نمازی کے لیے ستر ڈھانپنا واجب ہے۔ عورت اور مرد کے ستر میں فرق ہے۔ عام فقہا کے نزدیک عورت کا ستر ہاتھ اور چہرا چھوڑ کر باقی سارا جسم ہے۔وہ قرآن مجید کی آیت ‘ولا یبدین زینتہن الا ما ظہر’(عورتیں اپنی زینتیں ظاہر نہ کریں سوائے ان کے جو آپ سے آپ ظاہر ہوں)سے استدلال کرتے ہیں ۔‘الا ما ظہر’ کا اطلاق ان کے نزدیک ہاتھوں اور چہرے پر ہوتا ہے۔عورتوں کے ضمن میں آپ ؐنے فرمایا:
عن عائشۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال:لا یقبل اللہ صلوٰۃ حائض الا بخمار۰(ابوداؤد، رقم۵۱۶)
‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی دوپٹے کے بغیر بالغ عورت کی نماز قبول نہیں کرتے۔’’اسی طرح آپؐ کا ارشاد ہے:
عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا انہا سألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم أتصلی المرأۃ فی درع وخمار لیس علیہا أزار؟ قال: إذا کان الدرع سابغا یغطی ظہور قدمیہا۰(ابوداؤد، رقم۶۴۰)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت قمیص اور دوپٹے کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا: صرف اس صورت میں جب لمبی قمیص نے پاؤں کی پشت کو ڈھانپا ہوا ہو۔’’ان روایات سے وہ کم از کم اہتمام معلوم ہوتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔غرض یہ کہ عورت شایستہ اور مناسب لباس پہن کر نماز پڑھے۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ آپ کی اہلیہ کی نماز کے ادا ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے فقہا کا رجحان یہ ہے کہ جس لباس اور جس اخفائے زینت کا تقاضا اللہ تعالی نے مردوں کے سامنے آنے پر کیا ہے وہی اہتمام نماز میں بھی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ۔یہ بات لازم تو نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس کا اہتمام کیا جائے تو یقینا پسندیدہ ہو گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا۔لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے۔قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
صوموا لرؤیتہ وافطرو لرؤیتہ فان غمی علیکم فأکملوا العدد (مسلم، رقم۱۰۸۱)
‘‘چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگر مطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔’’
اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ درآنحالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحری اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے۔ لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔جس طرح یہاں سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بتمام وکمال پورا ہوتا ہے۔قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری رائے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو رائے قائم ہو اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری رائے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس رائے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ روئیت ہلال اس کا ذریعہ ہے اس کی شرط نہیں ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالی نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔ ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے۔ وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں۔ لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صوابدید پر ہے وہ جسے بھی اختیار کرے گا امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :مولاناامین احسن اصلاحی کے استاد جناب مولانا حمید الدین فراہی اپنے شاگردوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ ہمیشہ اعلیٰ کتابیں پڑھنی چاہییں۔ اعلیٰ کتابیں ہی مطالعے کا صحیح ذوق پیدا کرتی ہیں۔کتابوں کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں اور طالب مطالعہ کے بھی دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک وہ دور ہوتا ہے جب ایک پڑھنے لکھنے والا آدمی ہر فن کی واجبی واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس فن کے ماہرین سے پوچھ لے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب کون سی ہے۔ آدمی کو اس مرحلے میں اسی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔جب آدمی اس مرحلے سے گزر جائے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ فن اس کی دلچسپی کا ہے یا نہیں۔ اگر اس کی دلچسپی کا ہو تو اسے اس فن کی اعلی کتابوں میں سے کسی ایک جامع کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کی مشکلات کو سمجھنے کے لیے اس فن کے کسی استاد سے رابطہ رکھنا چاہیے۔ ایک مذہبی عالم کو نیچرل سائنس کی چیزوں سے اتنا واقف ضرور ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے فنون میں ان کے حوالے سے آنے والی بات کو سمجھ سکے۔ لیکن اسے معیشت، معاشرت، تاریخ،قانون، تہذیب وتمدن، فلسفہ، نفسیات وغیرہ تمام انسانی علوم سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔ بطور خاص وہ علوم جو جدید انسان کی سوچ اور طرز زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں ان کی اچھی واقفیت کے بغیر دین کی دعوت اور دین کے دفاع کا کام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔اس سلسلے میں آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیت کی سطح، اپنی طبیعت کے رجحان اور اپنے ماحول کے داعیات کو سامنے رکھ کر اپنے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ یہ سب خدا کے فیصلے ہیں اور انھی پر راضی ہونا بندے کے شایان شان ہے۔ ان کے ساتھ لڑائی ایک تو آدمی کو نتائج سے محروم کر دیتی ہے اور دوسرے خود اس کی اخلاقی شخصیت کے لیے ضرر کا باعث بنتی ہے۔باقی رہا، پڑھی ہوئی باتوں کا یاد رہنا تو اس کا تعلق یادداشت کی قوت اور اس علم سے واسطہ پڑتے رہنے سے ہے۔ اس کے لیے کسی اضافی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ جب کسی کتاب سے گزر جاتے ہیں تو اس میں بیان کردہ باتوں کا ایک تاثر آپ کو ذہن میں ضرور قائم رہتا ہے۔ جب کبھی ضرورت پڑے تو تفصیلی معلومات کو آدمی دوبارہ تازہ کر لیتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :نماز کی اصل ہیئت کے جس قدر قریب ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ بیماری اور تکلیف میں رخصت کا مطلب صرف یہ ہے کہ نماز کے وقت پر ہر حال میں نماز پڑھی جائے اور کسی مجبوری کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔ ہیئت میں رخصت کتنی ہے یہ بات طے نہیں کی گئی۔ نمازی کی معذوری، حالات اور مزاج کے فرق کی وجہ سے یہ اسی پر چھوڑنا بہتر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ آپ والی مثال لے لیں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا کہاں ہے: گھر میں ہے؟ مسجد میں ہے؟ سفر میں ہے؟ کسی کا ہاں مہمان ہے؟ کتنا جھک سکتا ہے؟ کرسی کون سی دستیاب ہے؟ مراد یہ ہے کہ ہر ہیئت اور حالات میں نماز کی اصل ہیئت سے قربت کی صورت بدل جائے گی۔ چنانچہ نمازی ، اس کی بیماری اور دستیاب حالات تینوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ ہو گا کہ نماز ادا کرنے کی بہتر صورت کیا ہوگی۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :اس روایت کے حوالے سے دو رائیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس واقعے ہی کو سرے سے نہ مانا جائے۔ اس کے قرائن بھی اس روایت میں موجود ہیں۔ سب سے قوی قرینہ یہ ہے کہ کاغذ اور قلم نہ لانے کی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جارہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مطعون کرنا ایک زمانے میں باقاعدہ مسئلہ رہا ہے۔ ممکن ہے یہ واقعہ بھی اسی جذبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہو۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وفات سے تین چار دن پہلے پیش آیا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعۃ کوئی چیز لکھوانا چاہتے تھے تو آپ وہ چیز دوبارہ کہہ کر لکھوا سکتے تھے۔ تیسرا قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں میں ابن شہاب بھی ہیں۔ حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں وہ روایات جن میں ان کی کوئی نہ کوئی خرابی سامنے آتی ہو ان کی سند میں بالعموم یہ موجود ہوتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس واقعے کو درست مان لیا جائے۔شارحین نے اس واقعے کو درست مانتے ہوئے اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ نے یہ رائے قائم کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ان کی طرف سے جاری کردہ کوئی امر نہیں تھا بلکہ محض ایک مشورہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو افاقہ بھی ہوا تو آپ نے یہ خواہش دوبارہ نہیں کی۔میں ذاتی طور پر یہی محسوس کرتا ہوں کہ یہ واقعہ قابل قبول نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے حتمی طور پر معلوم ہوکہ جہنم کہاں ہو گی۔ البتہ قرآن مجید سے ہمیں احوال قیامت کے ضمن میں جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کی روشنی میں ہم ایک اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین وآسمان زبردست تباہی سے گزریں گے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اسی طرح لپیٹ دیا جائے گا جیسے کاغذ رول کیا جاتا ہے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان زمین وآسمان کو نئے زمین و آسمان سے بدل دیا جائے گا۔اس تفصیل سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جہنم اور جنت کسی نئی دنیا میں ہوں گے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :آپ کا جذبہ بہت اعلی ہے۔ اس ہدف کے درست ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان کا ایمان اس کی اپنی دریافت ہو۔یہ بات بھی صحیح ہے کہ کسی مسلمان کو اندھا مقلد اور اپنے افکار پر جامد نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوچ اتنی اچھی ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔لیکن میرے خیال میں بچوں کے حوالے سے آپ کی بات میں کچھ تبدیلیاں ضروری ہیں۔ بچے ہمارے بتانے سے کم اور ہمارے عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ لہذا بنیادی اصول تو یہ ہے کہ جو آپ اپنے بچوں کو بنانا چاہتی ہیں وہ خود بنیں۔ اگر بچے آپ کو دیکھیں گے کہ آپ باتیں تو آزادی فکر کی کرتی ہیں لیکن خود اس پر عامل نہیں ہیں تو آپ کی باتیں تاثیر سے محروم رہیں گی۔ دوسرا انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ تمام بچے یکساں فکری صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہذا بچوں کی تربیت اور اٹھان میں ان کی صلاحیت اور طبعی رجحانات ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ممکن ہے آپ کے سارے بچے آپ کی فکری نہج کو اپنا لیں۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہونا چاہیے جب آپ یہ دیکھیں کہ وہ اس کے لیے مناسب اہلیت رکھتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے اور اسے بھی ایک اصول ہی کی حیثیت حاصل ہے کہ انسانی نفسیات خلا میں نہیں جیتی۔ انسانی طبیعت کچھ تصورات اور شخصیات کے ساتھ وابستگی ہی سے اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اگر آپ اس کی رعایت نہیں کریں گی اور بچوں کو شروع ہی میں ان کی ہمت سے باہر کے دائرے میں رد وقبول کی راہ دکھائیں گی تو وہ فکری انتشار اور عملی انحطاط کا شکار ہو جائیں گے۔تعلیم کا اصول یہ ہے کہ بچوں کو نیچرل سائنسز ہوں یا انسان سے متعلق علوم باتیں اسی طرح سکھائی جاتی ہیں جیسے کہ وہ ہر شک وشبے سے پاک ہوں۔پھر ان کی معلومات کے دائرے کو بڑھاتے بڑھاتے اس پوزیشن میں لے آتے ہیں کہ وہ دلائل کی کمزروی اور قوت کو سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ان میں اہلیت ہو تو وہ خود دریافت کرنے یا ترجیح دینے کے عمل میں کارکردگی دکھانے لگ جاتے ہیں۔ ورنہ ان کا سفر معلوم کے معلوم ہونے تک محدود رہتا ہے۔مذہب میں بھی یہی صورت ہوگی۔ بچوں کو آپ اپنے دینی خیالات اسی طرح سکھائیں گی جیسے کہ وہ ایک حقیقت ہیں۔ پھر انھیں مختلف افکارو نظریات سے آگاہی کا موقع ملے گا۔ یہ وہ وقت ہے جب آپ کو انھیں یہ سکھانا بھی ہے اور اس کا نمونہ بھی بننا ہے کہ ہر بات دلیل کی بنیاد پر مانی اور رد کی جاتی ہے۔مذہب کے حوالے سے یہ حقیقت بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ مذہبی استدلال اور تجرباتی علوم کے استدلال میں فرق ہے۔ لہذا اس فرق کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو فکری نتائج بڑے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ نیچرل سائنسز کے غلبے کے اس زمانے میں بعض ذہین لوگ اسی فکری تضاد میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور انھیں اس سے نکالنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ذہن کا خاصا یہ ہے کہ اسے نئی بات میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ مذہب اللہ تعالی کی سکھائی ہوئی باتوں کو ماننے کا نام ہے۔دین کی تعلیم کا کام کرنے والوں کو اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر معاملہ کرنا چاہیے۔
بچے اپنے والدین اور اساتذہ کو آئیڈیالائز کرتے ہیں۔ آپ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیے گا۔ بلکہ اسی کو استعمال کرتے ہوئے ان کی تربیت کا کام کیجیے گا۔ اللہ تعالی آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائیں(آمین)
(مولانا طالب محسن)
جواب :آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ مغرب میں قانونی طور پر کسی فرد کے کسی عمل کو ممنوع ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہے جب تک وہ فعل دوسروں کے جسم وجان کے لیے ضرر رساں یاان کے کسی حق کو تلف کرنے کا باعث نہ ہو۔اس کے برعکس اسلام میں وہ تمام چیزیں بھی ممنوع ہیں جو انسان کے اخلاقی وجود کے منافی ہیں۔ شراب کوسورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹میں اثم یعنی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ‘اثم’ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘اثم کا لفظ…………اخلاقی مفاسد اور گناہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ج۱، ص۵۱۴)اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۹۰میں اسے ‘رجس’ گندگی اور عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔ یہ آیت بھی شراب کی اخلاقی قباحت ہی کو واضح کرتی ہے۔سورہ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت کا اصل باعث اس کا نشہ آور ہونا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ جب تم نشے میں ہو تو نماز نہ پڑھو۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شراب کی حرمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس آیت میں نشے اور جنابت دونوں کو نماز کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے اشتراک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘نشہ اور جنابت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرکے اور دونوں کو یکساں مفسد نماز قرار دے کر قرآن نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں، بس فرق یہ ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ شراب کو قران نے جو ‘رجس’ کہا ہے یہ اس کی وضاحت ہو گئی۔’’ (تدبر قرآن، ج۲، ص۳۰۲)میں نے قرآن کا منشا بیان کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے آگیا ہو گا۔ لیکن مغرب میں پہلے اس اصول کو منوانا ضروری ہے کہ انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی قرآن کا یہ موقف ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :اصلاً یہ دنیا تدبیر پر چل رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت تدبیر کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی تدبیر کی کامیابی اور ناکامی میں ایک حصہ تدبیر کے حسن وقبح کا ہے اور اصل چیز خدا کی تائید یا عدم تائید ہے۔ کھیتی کی مثال دیکھیے۔ اگر کسان ہل نہیں جوتے گا، بیج نہیں ڈالے گااور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرے گا تو کوئی پیداوار نہیں آئے گی۔ لیکن جب وہ یہ سب کچھ کرتا ہے تو اس کھیتی کی کامیابی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔کسان کی تدبیر کے دائرے سے باہر کے امکانات کی موافقت بھی ضروری ہے۔مثلاً موسم اور دوسری آفات کا نہ ہونا۔ چنانچہ صحیح تدبیر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی توفیق ہی سے کامیابی کی راہ کھلتی ہے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ناکامی پیش آئے تو دونوں چیزوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک یہ کہ تدبیر میں کیا کمی رہ گئی تھی اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کو کیا آزمایش کرنا پیش نظر تھی۔ ہم اگرچہ پوری طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی عمل کے جو نتائج نکلے ہیں ان میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم مایوسی اور بے ہمتی کا شکار ہونے کے بجائے نئے عزم سے اور بہتر تدبیر کے ساتھ نئی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔باقی رہا تقدیر کا معاملہ تو رزق کے معاملے میں قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی کسی کو کم اور کسی کو بے حساب رزق دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالی یہ فیصلہ کسی حکمت ہی کے پیش نظر کرتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صحیح تدبیر کریں اللہ تعالی کے ساتھ بندگی اور توکل کے تعلق کو قائم رکھیں اور جو کچھ نتائج نکلیں کامیابی کی صورت میں اسے شکر کی آزمایش سمجھیں اور ناکامی کی صورت میں اسے صبر کی آزمایش کے طور پر دیکھیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:پردے کا لفظ قرآن مجید کے احکام کو پوری طرح بیان نہیں کرتا۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سورہ نور میں مرد وعورت دونوں کو گھر ہو یا کوئی دوسری جگہ جب یہ ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو کچھ آداب واحکام کا پابند کیا ہے۔
دو حکموں میں مردوعورت مشترک ہیں اور دو حکم عورت کے لیے اضافی ہیں۔
۱۔ دونوں اپنی نظریں بچا کر رکھیں۔
۲۔ دونوں شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
۳۔ عورتیں اپنی زیب وزینت اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔
۴۔ عورتیں اپنے سینے کو ڈھانپ کر رکھیں۔
نظریں بچانے سے مراد یہ ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے کے حسن وجمال سے آنکھیں سینکنے، خط وخال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔
شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ مرد وعورت ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام سے چھپائیں۔ اس میں ظاہر ہے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ لباس با قرینہ ہو۔ عورتیں اور مرد دونوں ایسا لباس پہنیں جو زینت کے ساتھ ساتھ صنفی اعضا کو بھی پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے۔
لباس کے حوالے سے عورتوں کو مزید ہدایت سینے سے متعلق ہے کہ وہ اسے اپنے دوپٹوں سے ڈھانپ کر رکھیں۔اس ہدایت پر عمل کرنے میں تشدد اور نرمی دونوں طرح کے رویے پیدا ہوئے ہیں۔ جو خواتین زیادہ سے زیادہ ڈھانپنے کی طرف مائل ہیں وہ بھی اور جو احکام کے تقاضا پورا کر دیتی ہیں دونوں ہمیشہ سے معاشرے میں موجود رہی ہیں۔ اس کا انحصار ذوق اور حالات پر ہوتا ہے کہ کوئی عورت کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ہم کسی رویے کو اس وقت ہی غلط قرار دے سکتے جب وہ حکم کے الفاظ ہی سے متجاوز ہو۔سورہ احزاب میں بڑی چادر لینے کا حکم فتنہ پردازوں سے بچنے کے لیے ایک تدبیر تھا۔ یہ کوئی مستقل حکم نہیں تھا۔ لیکن ہمارے فقہا نے اسے ایک ابدی حکم سمجھا ہے۔ لہذا وہ اسے اب بھی لازم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اصل اور ابدی حکم سورہ نور کا ہے اور باحیا اور باوقار لباس جو عورت کی زیب و زینت اور جسم کو نمایاں کرنے والا نہ ہوحکم کا تقاضا پورا کر دیتا ہے۔سر ڈھانپنے کے حوالے سے کوئی حکم قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بھی نہیں ہے جس میں آپ نے سر ڈھانکنے کی ہدایت کی ہو۔یہ بات معلوم ہے کہ عرب میں سر ڈھانکنے کا رواج تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں اور اصحاب کی ازواج نے اس کو جاری رکھا۔ اس اعتبار سے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تائید حاصل ہے اور قرآن مجید کے احکام بھی اس طرز معاشرت کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں۔ ایک روایت سے یہ تائید مزید محکم ہوتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے بالغ عورتیں اگر اوڑھنی لیے بغیر نماز پڑھیں تو اللہ اسے قبول نہیں کرتے۔معلوم ہے کہ نماز میں قاعدے کا لباس پہننا چاہیے۔ عورت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے قاعدے کے لباس میں اوڑھنی شامل ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :بطور انسان سب برابر ہیں۔ جس طرح معاشرے میں صلاحیت ، تعلیم اور حیثیت سے حقوق وفرائض میں فرق واقع ہو جاتا ہے اسی طرح خاندان میں بھی یہ فرق واقع ہوتا ہے۔ بطور انسان اولاد اور والدین بھی برابر ہیں لیکن حیثیت اور مرتبے میں اولاد پر والدین کو فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔بطور انسان عوام اور حکمران بھی برابر ہیں لیکن حکمرانوں کو عوام پر ایک فوقیت حاصل ہے اور دین میں بھی یہ فوقیت قائم رکھی گئی ہے۔ اسی طرح جب دو مرد وعورت میاں بیوی بن کر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان میں سے مرد کو برتر حیثیت حاصل ہے۔ دین میں بھی یہ حیثیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی وجہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ ایک انتظامی حیثیت ہے۔ اس کو سمجھنے اور ماننے میں گھر کی زندگی کی ترقی اور سکون کا راز مضمر ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جربین پر مسح کا ذکر ہوا ہے اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متأخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفع زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالی نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت یعنی رفع زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :اہل حدیث حضرات کا نقطہ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے فہم پر مبنی ہے۔ بعض روایات میں اوتر بواحدۃ (ایک سے طاق کر لو)کے الفاظ آئے ہیں۔اگر اس کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ایک رکعت پڑھ لوجیسا کہ اہل حدیث حضرات نے سمجھا ہے تو ایک وتر پڑھنا حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کو طاق پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ کسی نماز کو طاق کرنے کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ دو کو تین کیا جائے۔ امام مالک نے یہی رائے دی ہے کہ یہ نماز کم از کم تین رکعت ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے ہے۔ عام مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت دینے کی وجہ سے اسے عشا کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ہمارے نزدیک ایک رکعت پڑھنا درست نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاوہ نہیں ہے جسے بعض لوگ نے اس جملے سے اخذ کیا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :یہ علوم کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکے کہ انھیں سائنس قرار دیا جا سکے۔ یہ محض اندازوں اور اٹکل پر مبنی ہیں اور ان کے پیچھے مشرک معاشروں کی مائتھالوجی کے اثرات کار فرما ہیں۔ کسی شے میں ماورائے اسباب تاثیر ماننا جبت ہے۔ غیب کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اس طرح کے علوم غیب دانی کے مدعی ہوتے ہیں۔ یہ بات قرآن مجید کی نصوص کے خلاف ہے۔ اصلاً یہ لوگ شیاطین کا آلہ کار بنتے ہیں۔ اس طرح کے علوم سے احتراز کرنا ہی محفوظ راستہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :تعویز اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے۔ یعنی قرآن وحدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانبدارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔ مزید دیکھیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں۔ ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالی سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویز یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرکے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے تعویز کا تصور نہیں نکالا جا سکتا اس لیے کہ تعویز کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری نماز کے اجر کو بڑھانے والی چیز ہیں۔ اس میں کوتاہی نماز کے اجر کو کم کرنے والی چیز ہے۔ جس طرح کی مصروفیات آپ کو نماز باجماعت سے محروم کر دیتی ہیں انھی سے پیچھا چھڑا کر جماعت میں شریک ہونا وہ مجاہدہ ہے جو ازدیاد اجر کا باعث ہے۔ اس لیے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انفرادی نماز قبول نہیں ہوتی۔ البتہ آدمی اجر کے ایک بڑے حصے سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز سے غفلت جو وبال کا باعث بنے گی یا نماز کی عدم قبولیت کی وجہ بن سکتی ہے وہ نماز کو بے وقت پڑھنا۔ نماز میں اہتمام اور خوبی کے پہلو کا نہ ہونا اور ان اخلاق کی عدم موجودگی ہے جو ایک نمازی میں ہونے چاہئیں۔سورہ ماعون میں یہی غفلت مراد ہے۔
(مولانا طالب محسن)
سوال :کسی نجومی سے مشورہ کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ اسی طرح کی پیشین گوئی ہے جیسے طوفان ، زلزلے اور بارش وغیرہ کی پیشین گوئی کی جاتی ہے۔میرا ایک ذاتی تجربہ ہے مجھے کسی نجومی نے بتایا تھا کہ فلاں وقت ملک سے باہر جانے کا امکان ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ مجھے فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اس کے لیے مناسب تیاری کر رکھی تھی۔ اگر نجومیوں سے اس نوع کا فائدہ اٹھایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔
(مولانا طالب محسن)