جواب :مولاناامین احسن اصلاحی کے استاد جناب مولانا حمید الدین فراہی اپنے شاگردوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ ہمیشہ اعلیٰ کتابیں پڑھنی چاہییں۔ اعلیٰ کتابیں ہی مطالعے کا صحیح ذوق پیدا کرتی ہیں۔کتابوں کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں اور طالب مطالعہ کے بھی دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک وہ دور ہوتا ہے جب ایک پڑھنے لکھنے والا آدمی ہر فن کی واجبی واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس فن کے ماہرین سے پوچھ لے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب کون سی ہے۔ آدمی کو اس مرحلے میں اسی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔جب آدمی اس مرحلے سے گزر جائے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ فن اس کی دلچسپی کا ہے یا نہیں۔ اگر اس کی دلچسپی کا ہو تو اسے اس فن کی اعلی کتابوں میں سے کسی ایک جامع کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کی مشکلات کو سمجھنے کے لیے اس فن کے کسی استاد سے رابطہ رکھنا چاہیے۔ ایک مذہبی عالم کو نیچرل سائنس کی چیزوں سے اتنا واقف ضرور ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے فنون میں ان کے حوالے سے آنے والی بات کو سمجھ سکے۔ لیکن اسے معیشت، معاشرت، تاریخ،قانون، تہذیب وتمدن، فلسفہ، نفسیات وغیرہ تمام انسانی علوم سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔ بطور خاص وہ علوم جو جدید انسان کی سوچ اور طرز زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں ان کی اچھی واقفیت کے بغیر دین کی دعوت اور دین کے دفاع کا کام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔اس سلسلے میں آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیت کی سطح، اپنی طبیعت کے رجحان اور اپنے ماحول کے داعیات کو سامنے رکھ کر اپنے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ یہ سب خدا کے فیصلے ہیں اور انھی پر راضی ہونا بندے کے شایان شان ہے۔ ان کے ساتھ لڑائی ایک تو آدمی کو نتائج سے محروم کر دیتی ہے اور دوسرے خود اس کی اخلاقی شخصیت کے لیے ضرر کا باعث بنتی ہے۔باقی رہا، پڑھی ہوئی باتوں کا یاد رہنا تو اس کا تعلق یادداشت کی قوت اور اس علم سے واسطہ پڑتے رہنے سے ہے۔ اس کے لیے کسی اضافی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ جب کسی کتاب سے گزر جاتے ہیں تو اس میں بیان کردہ باتوں کا ایک تاثر آپ کو ذہن میں ضرور قائم رہتا ہے۔ جب کبھی ضرورت پڑے تو تفصیلی معلومات کو آدمی دوبارہ تازہ کر لیتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)