جواب : عقیقے کے بارے میں یہ اختلاف ہمیشہ سے ہے کہ یہ کوئی مستقل دینی حکم ہے یا نہیں۔فقہ کی مشہور کتاب ‘بدایۃ المجتہدونہایۃ المقتصد’ میں فقہی آراء کا خلاصہ ان الفاظ میں منقول ہے:‘‘ایک گروہ نے جس میں ظاہری علما شامل ہیں، عقیقہ کو واجب قرار دیا ہے۔ جمہور نے اسے سنت کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ اسے فرض مانتے ہیں نہ سنت۔ ان کی بات کا ماحصل یہ ہے کہ یہ نفل ہے۔ ’’موسیقی کے حوالے سے آپ کا اشکال یہ ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موسیقی کی رائج صورتوں میں تو قباحت ہی قباحت نظر آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گانوں کی شکل میں جو موسیقی ہر جگہ سنی اور سنائی جا رہی ہے اسے قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک بھی اس طرح کی موسیقی سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔ لیکن دین کے ایک عالم کو اصولی بات بھی بتانا پڑتی ہے۔ اصولاً موسیقی کو ناجائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ موسیقی کے عمومی استعمال میں جو قباحت موجود ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر استعمال درست نہ ہو تو یہ گناہ ہے۔ جائز موسیقی کی بعض صورتیں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ جیسے جنگی اور ملی ترانے، حمدیہ اور نعتیہ کلام، اچھے مضامین کی حامل غزلیں اور نظمیں جنھیں آلات موسیقی کے ساتھ اور فن موسیقی کے مطابق گایا جاتا ہے موسیقی کے صحیح استعمال کی مثالیں ہیں۔ موسیقی کی طرح شاعری بھی ایک فن لطیف ہے۔ جس طرح شاعری میں اعلی اورادنی ، علمی، عاشقانہ اور سماجی معاملات نظم کیے جاتے ہیں اسی طرح موسیقی بھی عمدہ اور کم تر مظاہر رکھتی ہے۔ جس طرح شاعری کی بعض صورتیں گناہ ہیں۔ اسی طرح موسیقی کی بعض صورتیں بھی گناہ ہیں۔ غرض یہ فنون لطیفہ تلوار کی طرح ہیں۔ استعمال کرنے والا چاہے تو اسے جہاد میں استعمال کرکے جنت خرید لے اور چاہے تو اسے کسی بے گناہ کو قتل کر جہنم واصل ہو۔
(مولانا طالب محسن)
ج: میرے نزدیک عقیقے کے معاملے میں فیصلہ کن بات وہ ہے جو خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہو گئی ہے۔ آپ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا ۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ عقیقے وغیرہ کا لفظ تو پسند نہیں ہے، البتہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتو وہ اپنے بچے کے لیے قربانی کر لے۔ یہ ایک نفل قربانی ہے جو بچے کے شکرانے میں کی جاتی ہے۔ اس چیز کی کوئی پابندی نہیں ہے کہ آپ ایک قربانی کریں یا دو کریں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے حسن و حسین کی پیدایش کے موقع پر ایک بکرے کی قربانی کی۔ بعد کے فقہا نے اس میں لڑکے کے لیے دو اور لڑکی کے لیے ایک قربانی کرنے کا فرق قائم کیا ہے۔ یہ فرق لڑکے اور لڑکی کے معاملے میں جو تمدنی روایات ہیں، اس سے پیدا ہوا ہے، دین میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: میری تحقیق یہ ہے کہ یہ شکرانے کی قربانی ہے کوئی کرنا چاہے تو ضرورکرے ۔نفل عبادت ہے اور نفل نماز اور نفل روزے کی طرح ،یہ بھی جو چاہے کر سکتا ہے۔ اولاد کی پیدائش کا شکر ہے جس کا اظہار ہم قربانی جیسی عبادت کے ذریعے سے کرتے ہیں۔یہ کوئی الگ سے عباد ت نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)