جواب :قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا۔لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے۔قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
صوموا لرؤیتہ وافطرو لرؤیتہ فان غمی علیکم فأکملوا العدد (مسلم، رقم۱۰۸۱)
‘‘چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگر مطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔’’
اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ درآنحالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحری اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے۔ لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔جس طرح یہاں سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بتمام وکمال پورا ہوتا ہے۔قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری رائے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو رائے قائم ہو اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری رائے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس رائے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ روئیت ہلال اس کا ذریعہ ہے اس کی شرط نہیں ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالی نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔ ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے۔ وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں۔ لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صوابدید پر ہے وہ جسے بھی اختیار کرے گا امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :چانداورستارہ مسلمانوں کی علامت بنانے کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اصل نہیں اور نہ ہی یہ دورنبوی اورخلفائے راشدین کے دور میں معروف تھا ، بلکہ بنو امیہ کے دورمیں بھی موجود نہیں تھا ، یہ توان ادوار کے بعدکی پیدوار ہے ، مؤرخین اس بارہ میں اختلاف کرتے ہیں کہ اس کی ابتدا کب اورکیسے ہوئی اورکس نے اسے شروع کیا۔ ایک قول تو یہ ہے کہ یہ فارسیوں نے شروع کیا ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے شروع کرنے والے اغریق تھے اوربعد میں یہ کچھ حادثات میں مسلمانوں میں منتقل ہوا۔ دیکھیں : الترتیب الاداریہ للکتانی ( 1 / 320 )۔ اوراس کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب مسلمانوں نے مغربی ممالک کوفتح کیا توان کے کنیسوں میں صلیب لٹک رہی تھی تومسلمانوں نے اس صلیب کے بدلہ میں ہلال رکھ دیا تواس بنا پریہ لوگوں میں منتشر ہوگیا۔ سبب جوبھی ہو معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے جھنڈے اورشعار سب کے سب شریعت اسلامیہ کے موافق ہونے ضروری ہیں ، اورجب کہ ہلا ل کے شعار ہونے پرکوئی شرعی دلیل نہیں ملتی۔اگرچہ مسلمانوں نے اسے اپنا رکھا ہے۔ اوررہا مسئلہ چاند ستاروں میں اعتقاد کا تومسلمانوں کا یہ اعتقاد ہے کہ یہ اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ذاتی طور پرنہ توکسی کونفع دے سکتے اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں اورنہ ہی زمینی احداث میں ان کی کوئی تاثیر ہی ہے ، یہ تو صرف اللہ تعالی نے بشروانسان کے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ، اسی کو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے : ‘‘آپ سے ہلا ل کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجیے یہ تولوگوں کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہیں ۔ البقرۃ( 189 )۔’’ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ہم نے رات اوردن کواپنی قدرت کی نشانیاں بنایا ، رات کی نشانی کوتوہم نے بے نور کردیا اوردن کی نشانی کوروشن بنایا ہے تا کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور اس لیے بھی کہ سالوں کا شمار اورحساب معلوم کرسکو ۔ الاسرا( 12 )۔’’
اورستاروں کے بارہ میں علما نے کہا ہے کہ اللہ تعالی نے ستاروں کوتین مقاصد کے لیے پیدا فرمایا ہے ، انہیں آسمان کی زینت بنایا ، اورشیاطین کورجم کرنے کے لیے ، اور ایسی علامتیں بنایا جن سے راستہ معلوم کیا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری کتاب بد الخلق میں کہا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ‘‘اوروہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کوپیدا کیا تا کہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں اورخشکی میں اورسمندر میں راستہ معلوم کرسکو ۔ الانعام ( 97 )۔’’ اوراللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
‘‘ بلاشبہ ہم نے آسمان دنیا کوچراغوں ( ستاروں ) سے مزین کیا ہے اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنادیا اورشیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا عذاب تیار کیا ہے۔ الملک ( 5 )۔’’
(عبداللہ صالح المنجد)
جواب :قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم، یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا،لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے؟ قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے:''چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگرمطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔''اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ دراں حالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحر اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے، لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں،حالاں کہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔ جس طرح سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے، اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بہ تمام وکمال پورا ہوتا ہے۔قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آرا ہیں: ایک رائے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری رائے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو رائے قائم ہو، اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری رائے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس رائے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ رؤیت ہلال اس کا ذریعہ ہے، اس کی شرط نہیں ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں، اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔ جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے، ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔
ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے، وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں، لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو، اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صواب دید پر ہے، وہ جسے بھی اختیار کرے گا، امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
(مولانا طالب محسن)