سوال وجواب

مصنف : محمد رفیع مفتی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2014

ج:اس آیت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ عین حق ہے۔ یقینا انسان اسی زمین سے پیدا کیا گیا ہے، وہ مر کر اسی زمین میں لوٹتا ہے اور قیامت کے دن وہ اسی زمین سے نکالا جائے گا۔ لیکن آپ یہ فرمائیے کہ درج ذیل آیات کا کیا مطلب ہے، یہ بظاہر اس سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ شھدا کے بارے میں فرمایا
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتًا بل احیاء عند ربھم یرزقونہ فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفہم الا خوف علیھم ولا ھم یحزنون(آل عمران3: 169، 170)
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے، وہ فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل میں سے ان کو دے رکھا ہے، اور وہ ان لوگوں کے باب میں بشارت حاصل کر رہے ہیں، جو ان کے اخلاف میں سے اب تک ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
وحاق بآل فرعون سوء العذاب النار یعرضون علیھا غدوًا وعشیًا ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب (المؤمن40: 45، 46)
اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔یعنی قیامت سے پہلے اس وقت وہ صبح و شام آگ پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم سنعذبھم مرتین ثم یردون الی عذابٍ عظیمٍ (التوبہ۹: 101
تم ان (منافقوں) کو نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں۔ ہم انھیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔ پھر یہ عذاب عظیم کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔
یعنی ایک مرتبہ دنیا میں عذاب، دوسری مرتبہ عالم برزخ میں اور پھر اس کے بعد جہنم کا عذاب عظیم۔ چنانچہ ان دونوں آیات سے یہ پتا چلتا ہے کہ کم از کم رسولوں کے مخاطبین کے ساتھ اس عذاب و ثواب کا معاملہ ضرور پیش آتا ہے، یعنی وہ عالم برزخ میں بھی عذاب میں گرفتار ہوتے یا نعمتیں پاتے ہیں، جیسا کہ شہدا کا معاملہ ہے۔ عالم برزخ کیا چیز ہے؟ ارشاد باری ہے
حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحًا فیما ترکت کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا ومن وراء ھم برزخ الی یوم یبعثون فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتساء لون فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم المفلحون ومن خفت موازین فاولئک الذین خسروا انفسھم فی جھنم خالدون (المؤمنون23: 99- 103)
جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا: اے میرے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ میں دنیا میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کما لوں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے لیے ایک پردہ ہو گا، جس دن یہ اٹھائے جائیں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا، تو اس دن نہ آپس کا نسب کام آئے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔ پس جن کے پلے بھاری ہوں گے، وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلے ہلکے ہوں گے تو وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا، وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
آپ دیکھ لیجیے کہ درج بالا آیات میں بہت وضاحت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ موت کے بعد قیامت کا دن آنے تک لوگ برزخ میں رہیں گے، (جہاں شہدا اللہ سے نعمتیں پائیں گے اور فرعون والوں پر آگ کا عذاب پیش کیا جاتا ہو گا، وغیرہ) پھر جب قیامت آئے گی تو صور پھونکا جائے گا، پھر اعمال کا وزن ہو گا اور اس کے بعد لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم میں جائیں گے۔ چنانچہ قرآن سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان جب مر کر زمین میں چلا جاتا ہے، تو وہاں موت کی اس حالت میں بھی اس کو کوئی ایسے مراحل پیش آتے ہیں جن کی ہمیں یہ خبر دی گئی ہے۔ یہ قرآن کا صریح بیان ہے اور ہمیں اس کے انکار کی کیا ضرورت ہے۔ برزخ کا لفظ تو قرآن میں آیا ہے
قرآن کا یہ اسلوب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ ان کا کوئی وجود ہے جس کے آگے کوئی پردہ ہوتا ہے اور جو وجود اس پردے کے پیچھے ہوتا ہے۔ اسی ما ورائے برزخ کو جہاں یہ وجود موجود ہوتے ہیں، عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ یہ سارا کچھ تو قرآن کا بیان ہے جس سے ایک برزخ کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ جن مردوں کے بارے میں قرآن یہ بات کرتا ہے، یہ وہی مردے ہیں جنھیں ہم زمین میں قبر بنا کر دفنا دیتے ہیں۔ انسان جس وجود کو قبر میں رکھتا ہے قرآن اسی کو برزخ کے پیچھے قرار دے رہا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صاحب قبر کا برزخ سے کوئی تعلق ہوتا ہے جبھی تو خدا نے اسے برزخ کے پیچھے قرار دیا ہے۔ قبر اپنے ظاہر میں ہمارے مشاہدے کی چیز ہے، یہ ہمارے لیے متشابھات میں سے نہیں ہے، جب کہ برزخ کا لفظ من جملہ متشابھات ہے۔ متشابھات وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی حقیت سے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم واقف ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ ایسی چیزوں کے حوالے سے ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ پر ایمان رکھیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب اللہ تعالی ہمارے پریہ چیزیں کھول دے گا۔ بہرحال، اس بحث سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ برزخ کے ساتھ قبر کا کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے پاس دو ہی لفظ ہیں: ایک زندگی اور دوسرا موت۔ دنیا میں انسان زندہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اسی طرح زندہ ہو گا، قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔ دنیا اور آخرت کا درمیانی عرصہ جس میں انسان مردہ ہوتا ہے، اس عرصے کے بارے میں قرآن نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ اس میں شہدا تو اپنے رب کے پاس ہوتے ہیں اور وہاں انھیں روزی دی جاتی ہے اور آل فرعون کے حوالے سے بتایا کہ وہ اسی عرصے کے دوران میں صبح و شام آگ پر پیش کیے جا رہے ہیں، جیسا کہ درج ذیل آیات اس پر دلالت کرتی ہیں 
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے، وہ فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل میں سے ان کو دے رکھا ہے، اور وہ ان لوگوں کے باب میں بشارت حاصل کر رہے ہیں، جو ان کے اخلاف میں سے اب تک ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (آل عمران3: 169، 170)
اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔ (المؤمن40: 45، 46)
اب بتائیے قرآن کی بتائی ہوئی اس خبر کا کیا کریں؟ جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سب باتیں سچی ہیں۔ چنانچہ یہ درمیانی عرصہ جس میں انسان مردہ ہوتا ہے اس میں اس کے ساتھ کوئی معاملہ ضرور پیش آتا ہے، لیکن مردے کی وہ حالت ہماری دنیوی زندگی سے کچھ ایسی مختلف ہوتی ہے کہ ہم اس کا کوئی شعور ہی نہیں رکھتے، یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید نے شہدا کے حوالے سے ہمیں بتائی ہے، لہذا، ہم مردے پر گزرنے والے احوال کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ مرنے کے بعد قیامت سے پہلے تک کی حالت کوئی ایسی حالت ہو سکتی جس کا ہمیں شعور نہ ہو تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موت کے زندگی کی ضد ہونے کی حقیقت بھی ہمارے شعور سے بالا ہو۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں۔اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ قبرستان، چونکہ عام طور پر آبادیوں سے ہٹ کر نسبتاً ویران جگہوں پر ہوتے ہیں، اس لیے خواتین کا وہاں تنہا جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے ضرور احتیاط کرنی چاہیے۔عورت طہر اور حیض دونوں زمانوں میں قبرستان میں جا سکتی ہے۔ قبرستان کا معاملہ مسجد کی طرح کا نہیں ہے۔ وہ کسی قبر پر کھڑے ہو کر دعائے مغفرت بھی کر سکتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: حرام رزق کے ساتھ جو نماز پڑھی جاتی ہے، وہ اللہ کے ہاں مقبولیت نہیں پاتی، لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے جس عمل کے ساتھ بھی دل کی گہرائی کے ساتھ چپکا ہوتا ہے، وہی عمل بالآخر دوسرے اعمال پر غلبہ پا لیتا ہے۔یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس وقت اس شخص کی نماز سچے عابد کی نماز نہیں ہے، کیونکہ خدا کا سچا بندہ اپنے دل سے خدا کا فرماں بردار بھی ہوتا ہے، لیکن اگر یہ شخص اپنے جرائم کو آج یا آیندہ کسی وقت دل سے ناگوار جانتا، خود کو غلط قرار دیتا اور اللہ کے سامنے شرمندہ ہوتا رہتا ہے، گو یہ ابھی ان سے باز نہیں بھی آ رہا تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کی نماز اس کی بد اعمالیوں پر غلبہ پا لے، یہ توبہ کر لے اور اپنے اچھے انجام کو پہنچے۔ البتہ، اگر معاملہ برعکس ہوا تو پھر توقع بھی برعکس ہی کی ہے،کیونکہ ارشاد باری ہے:''البتہ جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیاتو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔'' (بقرہ2: 81)
یعنی انسان خواہ کیسا ہی نمازی یا روزے رکھنے اور حج کرنے والا کیوں نہ ہو، اگر اس نے کسی ایک برائی کو سچے دل کے ساتھ اس طرح سے چمٹ کر اختیار کر لیا کہ وہ برائی اس پر چھا گئی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تو اب اس کی سب نیکیاں برباد ہو جائیں گی اور وہ جہنم میں جائے گا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اگر آپ کے شوہر کا یہ بیان کہ "میں نے طلاق کے الفاظ ارادۃً ادا نہیں کیے تھے، بلکہ صرف تمھیں ڈرانے کے لیے بولے تھے" بالکل درست اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے، یعنی وہ حلفاً ایسا کہہ سکتے ہیں تو پھر صحیح بات یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔ چنانچہ آپ تسلی سے ان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔البتہ اگر دوسروں کی باتوں یا کسی اور وجہ سے آپ خود کسی تردد میں مبتلا ہیں تو پھر آپ کے لیے یہ بات شاید بہتر ہو گی کہ آپ ایک طلاق واقع ہونے والا فتوی تسلیم کرتے ہوئے احتیاطاً اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ تاہم یہ واضح رہے کہ یہ کوئی فقہی و شرعی حل نہیں ہے، بلکہ اس تجویز کا مقصد محض آپ کے تردد کو دور کرنا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:موسیقی میں سے ہر اس چیز کی نفی کی ضرورت ہے جو اخلاقی اور دینی اعتبار سے ممنوع ہے۔ مثلاًموسیقی کی وہ دھنیں جو سفلی جذبات کو ابھارتی ہیں، ان سب کی نفی ہونی چاہیے۔موسیقی کے ساتھ جو کلام پیش کیا جاتا ہے، اس میں سے شرکیہ، فحش اور انسان میں فتنہ یا کوئی دینی و اخلاقی خرابی پیدا کرنے والے سب مضامین کی نفی ہونی چاہیے۔محافل موسیقی میں ہر اس مغنی یا مغنیہ کی نفی ہونی چاہیے جو اپنے چہرے، جسم یا انداز و ادا ہی سے فتنے کا باعث ہو۔بعض محافل موسیقی میں شراب و کباب کا وجود بھی پایا جاتا ہے، چنانچہ ظاہر ہے ایسی سب حرام چیزوں کی نفی ہونی چاہیے۔سننے والا اگر محسوس کرے کہ موسیقی اس کے تزکیہ نفس کے راستے میں رکاوٹ ہے تو اس کے لیے جائز موسیقی بھی ممنوع ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:مغربی جمہوریت کو اگر اس کے پورے تصور کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ انسان کو خدا سے ہٹ کر قانون سازی کا اختیار دیتی ہے۔ اس کے نزدیک انسان کثرت رائے سے اپنے لیے جس چیز کو چاہے حلال کر لے اور جس چیز کو چاہے حرام کر لے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ اختیار انسان کو حاصل نہیں ہے، چنانچہ جو فلسفہ و فکر انسان کو یہ اختیار دیتا ہے وہ سراسر باطل ہے۔ البتہ مغربی جمہوریت کا ایک پہلو جو " امرھم شوری بینھم" سے مماثل ہے اور وہ جائز ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسول کی فرماں برداری میں " امرھم شوری بینھم" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جب اپنے معاملات طے کر رہے ہوں اور اس میں نزاع کا کوئی موقع پیدا ہو جائے تو کیا ہمارے لیے اسی طرح کثرت رائے سے کسی نتیجے تک پہنچنا جائز نہیں ہے جیسے اہل جمہوریت اپنے نزاعات کو ووٹنگ کے ذریعے سے حل کرتے ہیں؟ ہمارے خیال میں یہ بالکل جائز ہے۔ مثلاً قرآن و سنت کے احکام کے مطابق ذیلی قانون سازی کرتے ہوئے باہمی اختلاف کی صورت میں ووٹنگ وغیرہ کے طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے یا خلیفہ اور صدر کے انتخاب میں اسی طریقے کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:تقدیر،مقدر اور قسمت یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ ان سے مراد انسان کے بارے میں خدا کے فیصلے ہیں۔ خدا کے بعض فیصلوں میں انسان مجبور ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ کہاں پیدا ہو گا، اس کے ماں باپ کون ہوں گے، اسے کتنی عمر ملے گی وغیرہ، وغیرہ۔ البتہ خدا کے بعض فیصلوں میں وہ اپنے افعال و اعمال کا ارادہ کرنے کی حد تک آزاد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور اسے ان پر نیکی یا بدی ملتی ہے۔تقدیر کو اس طرح بیان کرنا کہ ''ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے مقدر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے'' یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ شاید ہم مجبور محض ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہم بے جان پتلیاں ہیں جنھیں خدا جس طرح چاہتا ہے، نچاتا ہے۔ وہی ہم میں سے کسی کو جبراً قاتل بناتا ہے اور کسی کو جبراً مقتول، وہی کسی کو جبراً نیک بناتا ہے اور کسی کو جبراً بد۔ چنانچہ پھر اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہونے والے جرائم اور اچھے اعمال کا ذمہ دار صرف خدا ہے، انسان تو معصوم ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ ہم جو اعمال بھی سر انجام دیتے ہیں، خدا کی اجازت کے ساتھ اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس لیے صالح کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے مطابق استعمال کرتے ہوئے، نیک کام کیا ہوتا ہے اور اس لیے مجرم کہلاتے ہیں کہ ہم نے خدا کی اجازت کو اپنی مرضی سے اس کی پسند کے خلاف استعمال کرکے برا کام کیا ہوتا ہے۔البتہ، اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا خدا مستقبل کو جانتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہاں بالکل اسے آیندہ ہونے والے سارے واقعات اور حالات کا پتا ہے، کیونکہ وہ عالم الغیب ہے، وہ زمانے کے وجود میں آنے سے پہلے اسے پوری تفصیلات کے ساتھ جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آیندہ ہونے والے واقعات خدا کے جبر سے بالکل اسی طرح وجود پذیر ہوتے ہیں، جیسے اس کا علم ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب ہو گا کہ نہیں، بلکہ جن چیزوں کو وہ جبراً ایک خاص طریقے پر کرنا چاہتا ہے، صرف انھیں وہ جبراً کرتا ہے اور جنھیں اختیار و ارادہ کی آزادی دیتا ہے، وہ اسی کے اذن سے، اپنے اختیار و ارادہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔البتہ خدا کا علم دونوں کے بارے میں غلطی سے پاک ہوتا ہے۔جن مواقع کے حوالے سے خدا نے یہ فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے جس چیز کو طلب کرے گا، وہ اسے دے دی جائے گی، ان مواقع پر انسان کی تدبیر ہی سے اس کی تقدیر بنتی ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:عورتوں کا اپنی زیب و زینت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا خالصتاً معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیں دوسری تہذیب سے غیر شرعی رسوم لینے سے منع کرتا ہے اور جو رسوم غیر شرعی نہیں ہیں، ان کو اپنا لینے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ناک میں سوراخ کرا کر لونگ پہننا مسلمانوں نے خواہ ہندووں ہی سے لیا ہو، لیکن اب یہ خود بعض علاقوں کے مسلمانوں میں رائج ہو گیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی اسے اختیار کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:علم نجوم کوئی سائنس نہیں ہے۔ اگر نجوم کا علم واقعی ایک سائنس قرار پا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو براہ راست مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سے یہ یقینی خبر مل گئی ہے کہ آیندہ ہونے والے واقعات ستاروں کی مختلف گردشوں کے ذریعے سے ظاہر کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ہم براہ راست تجربے اور مشاہدے سے یہ جانتے ہیں کہ غلے کے اگنے میں بارش یا پانی ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ پھر اس صورت میں علم نجوم کو ایک سائنس قرار دیا جائے گا۔
ابھی تک اس علم کا سائنس ہونا اپنے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا اورروایات میں بھی اس علم کے حق ہونے کے بارے میں کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ چنانچہ یہ محض اندازہ اور خیال آرائی ہی ہے۔ اس کے اندر یا تو کوئی اصول اور قانون نہیں پایا جاتا یا پھر انسان ابھی تک اسے دریافت نہیں کر سکا۔ چنانچہ اس وقت انسان اسے نہ سائنس کے طور پرقبول کر سکتا ہے اور نہ کسی مذہبی خبر کی بنا پر،لہٰذا اس علم سے بچنا ہی چاہیے، کیونکہ یہ انسان کو شدید قسم کے وہموں میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ ستاروں کو موثربالذات سمجھنے لگتا اور شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے یا ان کے بارے میں غیر مذہبی اور غیر سائنسی (غیر علمی) بنیادوں، یعنی اوہام کی بنا پر کچھ صفات کا قائل ہو جاتا ہے اور یوں وہ 'افتراء علی اللّہ' (خدا پر جھوٹ باندھنے) کا مجرم بنتا ہے۔ جہاں تک موسم کے بارے میں پیش گوئیوں کا تعلق ہے تو وہ خالصتاً مادی حالات کے سائنسی مشاہدہ کی بنا پر کی جاتی ہیں، جبکہ علم نجوم کا معاملہ یہ نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'ان العین حق'،''بے شک نظر کا لگ جانا سچ ہے۔'' (بخاری، رقم 5740، 5944؛ مسلم، رقم 2187، 2188)نظرِ بد کیا چیز ہے؟  یہ غالباً بعض کیفیتوں میں انسان کی آنکھ سے نکلنے والے وہ اثرات ہیں جو دوسرے شخص پر خدا کے اذن سے اثر انداز ہوتے اور اسے بیمار وغیرہ کر دیتے ہیں۔ ان اثرات کا معاملہ بالکل وہی ہے جو عام انسانی اقدامات کا معاملہ ہوتا ہے، جیسا کہ ایک آدمی (خدا کے قانون کے تحت) دوسرے کو پتھر مار کر زخمی کر سکتا ہے، اسی طرح بعض لوگوں کی نظر بھی خدا ہی کے اذن سے دوسرے پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ نظر مؤثر بالذات ہرگز نہیں ہوتی جو کچھ ہوتا ہے،خدا کے قانون ہی کے تحت ہوتا ہے۔
نظر اگر لگ گئی ہو تو اس کو اتارنے کے لیے لوگوں نے مختلف حل تلاش کیے ہیں، سرخ مرچوں کو جلا کر سنگھانا، انھی میں سے ایک ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر اتارنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جس آدمی کی نظر لگی تھی، اس کے وضو کا مستعمل پانی نظر کے مریض پر ڈالا۔ہمارا خیال ہے کہ نظر بد کے اثرات جو کہ شاید نفسیاتی ہوتے ہیں یا کسی اور طرح کے غیر مادی اثرات ہوتے ہیں، انھیں دور کرنے کے لیے یہ طریقے لوگوں نے اپنے تجربات سے ایجاد کیے ہیں، ان میں اگر کوئی مشرکانہ بات نہ ہو تو انھیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔جس طرح عام بیماری میں ہم خدا سے شفا کے طالب ہوتے ہیں، کیونکہ شفا اسی کی طرف سے ملتی ہے، اسی طرح نظر بد سے شفا کے معاملے میں بھی دوا کے ساتھ اللہ ہی کی پناہ پکڑی جائے گی اور اسی سے دعا کی جائے گی۔

(محمد رفیع مفتی)

ج:آپ نے نکاح کے حوالے سے خدا کی گواہی کی جو بات سنی ہے، وہ درست نہیں ہے اور اس پرآپ کا تردد بالکل صحیح ہے.
شریعت نے نکاح کیلیے جن باتوں کو لازم قرار دیا ہے. وہ درج ذیل ہیں:
1.    حق مہر
2.    پاک دامنی
3.    علانیہ ایجاب و قبول(کم از کم دوگواہوں کا موجود ہونا)
4.    مستقل رفاقت کی نیت

 

(محمد رفیع مفتی)