جواب : حضور اکرم ﷺ کو قیامت کے وقت کا قطعی او ر حتمی علم تھا یا نہیں یہ مجھے معلوم نہیں لیکن مشہور حدیث جبرائیل میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا مالمسؤل عنھا باعلم من السائل ؛یعنی میرا علم قیامت کے بارے میں جبرئیل کے علم سے زیادہ نہیں۔ یہ بات بہرحال واضح ہے کہ اس سے زیادہ قیامت کے بارہ میں حضورﷺ نے بتایا نہیں اگر کسی نے پو چھا کہ قیامت کب آئے گی مثلاً صحابی نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ ﷺ نے جواب میں قیامت کا وقت نہیں بتایا بلکہ سائل سے پوچھا کہ تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ ان صاحب نے کہا کہ میں نے نماز روزہ زیادہ نہیں کیا لیکن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم اس کے ساتھ ہو گے جس کے ساتھ تم محبت رکھتے ہو حضورﷺ نے قیامت کے دن یا وقت کا تعین نہیں کیا کیونکہ یہ اللہ کی حکمت اور سنت کے خلاف تھا ۔
ج:اس آیت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ عین حق ہے۔ یقینا انسان اسی زمین سے پیدا کیا گیا ہے، وہ مر کر اسی زمین میں لوٹتا ہے اور قیامت کے دن وہ اسی زمین سے نکالا جائے گا۔ لیکن آپ یہ فرمائیے کہ درج ذیل آیات کا کیا مطلب ہے، یہ بظاہر اس سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ شھدا کے بارے میں فرمایا
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتًا بل احیاء عند ربھم یرزقونہ فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفہم الا خوف علیھم ولا ھم یحزنون(آل عمران3: 169، 170)
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے، وہ فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل میں سے ان کو دے رکھا ہے، اور وہ ان لوگوں کے باب میں بشارت حاصل کر رہے ہیں، جو ان کے اخلاف میں سے اب تک ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
وحاق بآل فرعون سوء العذاب النار یعرضون علیھا غدوًا وعشیًا ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب (المؤمن40: 45، 46)
اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔یعنی قیامت سے پہلے اس وقت وہ صبح و شام آگ پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم سنعذبھم مرتین ثم یردون الی عذابٍ عظیمٍ (التوبہ۹: 101
تم ان (منافقوں) کو نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں۔ ہم انھیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔ پھر یہ عذاب عظیم کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔
یعنی ایک مرتبہ دنیا میں عذاب، دوسری مرتبہ عالم برزخ میں اور پھر اس کے بعد جہنم کا عذاب عظیم۔ چنانچہ ان دونوں آیات سے یہ پتا چلتا ہے کہ کم از کم رسولوں کے مخاطبین کے ساتھ اس عذاب و ثواب کا معاملہ ضرور پیش آتا ہے، یعنی وہ عالم برزخ میں بھی عذاب میں گرفتار ہوتے یا نعمتیں پاتے ہیں، جیسا کہ شہدا کا معاملہ ہے۔ عالم برزخ کیا چیز ہے؟ ارشاد باری ہے
حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحًا فیما ترکت کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا ومن وراء ھم برزخ الی یوم یبعثون فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتساء لون فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم المفلحون ومن خفت موازین فاولئک الذین خسروا انفسھم فی جھنم خالدون (المؤمنون23: 99- 103)
جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا: اے میرے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ میں دنیا میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کما لوں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے لیے ایک پردہ ہو گا، جس دن یہ اٹھائے جائیں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا، تو اس دن نہ آپس کا نسب کام آئے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔ پس جن کے پلے بھاری ہوں گے، وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلے ہلکے ہوں گے تو وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا، وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
آپ دیکھ لیجیے کہ درج بالا آیات میں بہت وضاحت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ موت کے بعد قیامت کا دن آنے تک لوگ برزخ میں رہیں گے، (جہاں شہدا اللہ سے نعمتیں پائیں گے اور فرعون والوں پر آگ کا عذاب پیش کیا جاتا ہو گا، وغیرہ) پھر جب قیامت آئے گی تو صور پھونکا جائے گا، پھر اعمال کا وزن ہو گا اور اس کے بعد لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم میں جائیں گے۔ چنانچہ قرآن سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان جب مر کر زمین میں چلا جاتا ہے، تو وہاں موت کی اس حالت میں بھی اس کو کوئی ایسے مراحل پیش آتے ہیں جن کی ہمیں یہ خبر دی گئی ہے۔ یہ قرآن کا صریح بیان ہے اور ہمیں اس کے انکار کی کیا ضرورت ہے۔ برزخ کا لفظ تو قرآن میں آیا ہے
قرآن کا یہ اسلوب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ ان کا کوئی وجود ہے جس کے آگے کوئی پردہ ہوتا ہے اور جو وجود اس پردے کے پیچھے ہوتا ہے۔ اسی ما ورائے برزخ کو جہاں یہ وجود موجود ہوتے ہیں، عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ یہ سارا کچھ تو قرآن کا بیان ہے جس سے ایک برزخ کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ جن مردوں کے بارے میں قرآن یہ بات کرتا ہے، یہ وہی مردے ہیں جنھیں ہم زمین میں قبر بنا کر دفنا دیتے ہیں۔ انسان جس وجود کو قبر میں رکھتا ہے قرآن اسی کو برزخ کے پیچھے قرار دے رہا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صاحب قبر کا برزخ سے کوئی تعلق ہوتا ہے جبھی تو خدا نے اسے برزخ کے پیچھے قرار دیا ہے۔ قبر اپنے ظاہر میں ہمارے مشاہدے کی چیز ہے، یہ ہمارے لیے متشابھات میں سے نہیں ہے، جب کہ برزخ کا لفظ من جملہ متشابھات ہے۔ متشابھات وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی حقیت سے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہم واقف ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ ایسی چیزوں کے حوالے سے ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ پر ایمان رکھیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب اللہ تعالی ہمارے پریہ چیزیں کھول دے گا۔ بہرحال، اس بحث سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ برزخ کے ساتھ قبر کا کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے پاس دو ہی لفظ ہیں: ایک زندگی اور دوسرا موت۔ دنیا میں انسان زندہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اسی طرح زندہ ہو گا، قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔ دنیا اور آخرت کا درمیانی عرصہ جس میں انسان مردہ ہوتا ہے، اس عرصے کے بارے میں قرآن نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ اس میں شہدا تو اپنے رب کے پاس ہوتے ہیں اور وہاں انھیں روزی دی جاتی ہے اور آل فرعون کے حوالے سے بتایا کہ وہ اسی عرصے کے دوران میں صبح و شام آگ پر پیش کیے جا رہے ہیں، جیسا کہ درج ذیل آیات اس پر دلالت کرتی ہیں
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے، وہ فرحاں و شاداں ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل میں سے ان کو دے رکھا ہے، اور وہ ان لوگوں کے باب میں بشارت حاصل کر رہے ہیں، جو ان کے اخلاف میں سے اب تک ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (آل عمران3: 169، 170)
اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔ (المؤمن40: 45، 46)
اب بتائیے قرآن کی بتائی ہوئی اس خبر کا کیا کریں؟ جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سب باتیں سچی ہیں۔ چنانچہ یہ درمیانی عرصہ جس میں انسان مردہ ہوتا ہے اس میں اس کے ساتھ کوئی معاملہ ضرور پیش آتا ہے، لیکن مردے کی وہ حالت ہماری دنیوی زندگی سے کچھ ایسی مختلف ہوتی ہے کہ ہم اس کا کوئی شعور ہی نہیں رکھتے، یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید نے شہدا کے حوالے سے ہمیں بتائی ہے، لہذا، ہم مردے پر گزرنے والے احوال کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ مرنے کے بعد قیامت سے پہلے تک کی حالت کوئی ایسی حالت ہو سکتی جس کا ہمیں شعور نہ ہو تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موت کے زندگی کی ضد ہونے کی حقیقت بھی ہمارے شعور سے بالا ہو۔
ج: قرآن میں ایک ہی نشانی بیان ہوئی ہے اور وہ یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔یاجو ج و ماجوج سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد ہے ۔ یہ دنیا کے اوپر غلبہ پا لیں گے اور پوری دنیا کے اندر گویا ایک فساد بن کر نکل کھڑے ہوں گے۔ اس کو قیامت کی نشانی بتایا گیا ہے۔ مستند حدیثوں میں جو نشانی بیان ہوئی ہے ،میرے نزدیک سب سے زیادہ قوی وہی ہے جو حدیثِ جبرئیل میں بیان ہوئی ہے کہ غلامی اپنے institution کے طور پر ختم ہو جائے گی اور یہ عرب کے چرواہے اتنی اتنی بڑی عمارتیں بنائیں گے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ تینوں نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)