ج: دین کا مقصود ہمارے نفس کی تطہیر اور اس کا تزکیہ ہے یعنی اس کو پاک کرنا اور اسے صحیح سمت میں نشوونما دینا ۔ قیامت میں نفس کی بالیدگی اور پاکیزگی ہی جنت یاجہنم کا باعث بنے گی ۔دنیا کی زندگی میں انسان کو اس امتحان میں اسی لیے ڈالا گیا ہے کہ پرکھا جائے کہ کون نفس کو آلودہ کرتا ہے اور کو ن اس کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ نفس کو پاکیزہ رکھنے اور اس کو صحیح سمت میں نشوو نما دینے کے لیے انسان کیا کرے ؟ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے اللہ نے اپنا دین نازل کیا ہے اگرانسان دین پرصحیح فہم کے ساتھ عمل پیرا ہو تو اس کے نفس کوپاکیزگی بھی حاصل ہو گی اور بالیدگی بھی۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دین پر عمل کے لیے کس طرح تیار کرے۔ یعنی یہ تو بتا دیا گیا کہ آپ مدرسہ میں جا کر انجینئرنگ سیکھ لیں لیکن سوال یہ ہے کہ مدرسہ جانے کے لیے بستر سے اٹھنا پڑے گا ، اس عمل کے لیے نفس کو کس طرح آمادہ کیا جائے ؟ یہ چیزدین کا موضوع نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو بہت سی صلاحیتیں اور علوم و فنون دے رکھے ہیں۔ اسکو مثال سے سمجھیے ۔ ایک آدمی قرآن سے دین اخذ کرتا ہے اور پیغمبر کی ہدایت اس کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو دین پہنچائے۔ تو اس کے لیے دین نے اسے کوئی خاص طریقہ نہیں بتایا۔تعلیم، تقریر، تحریر کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔اگر وہ چاہے کہ تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کرنا ہے تو اسے یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ انبیا یہ چیز بتانے کے لیے نہیں آئے ۔ یہ چیز انسان اپنے تجربے اور مشاہدے سے سیکھتا ہے ۔تصنیف و تالیف میں بڑے بڑے صاحبان فن پیدا ہو ئے ہیں۔وہ انسان ان کی تحریروں سے سیکھے گا یا پھر کسی صاحب فن کی صحبت میں رہ کر سیکھے گا۔اسی طرح ایک آدمی دین کو سمجھ لیتا ہے ، اب وہ اس کی تعلیم دینا چاہتا ہے ۔تعلیم و تدریس خود ایک فن ہے یعنی ایک آدمی خود بہت دیندار ہے لیکن اس کے دین دار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس فن سے واقف بھی ہو۔ تعلیم و تدریس کے فن میں مسلم دنیا نے بھی اور جدید مغربی دنیا نے بھی بہت سے تجربات کیے ہیں اور ہو رہے ہیں۔چنانچہ اس انسان کو یہ فن سیکھنا پڑے گا۔ یہ وہ چیز نہیں جو قرآن و سنت میں بیان ہوئی ہے۔یہی صورت حال تزکیے کی ہے ۔کہ تزکیہ حاصل تو دین سے کرنا ہے مگر اس پر خود کو آمادہ کیسے کیا جائے۔ یہ بجائے خودانسانی تجربات پر مبنی ایک فن ہے ۔یعنی یہ بات کہ انسانی نفسیات کیا ہے ، وہ کسل مندی کا شکار کیسے ہوتی ہے ، اس کے اوپر پردے کیسے پڑتے ہیں ، ان کو کیسے اتارا جاتاہے ، یہ ایک مکمل علم ہے۔اور اس بارے میں صوفیا کے علم کلام اور فلسفے سے ہزاراختلاف کے باوجود مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ صرف صوفی ہیں جو اس فن سے واقف ہیں۔ یعنی ایک بندے کو دین پر کیسے عمل پیرا کیا جائے ۔اس کے لیے انہوں نے جو ادارہ بنایا وہ خانقاہ کہلاتا ہے ۔ اسی لیے میں بھی اس پر بہت زور دیتا ہوں کہ کچھ لوگ آگے آئیں اور خانقا ہ بنائیں۔صوفیا نے دین کی جو تعبیرکی وہ سرتا سر غلط ہے مگر انہوں نے عمل کے لیے جو طریقے ایجاد کیے ا ن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اہل علم کو خدا توفیق دے کہ وہ بھی اس کو سیکھیں اوراس کو باقاعدہ موضوع بنا کر ادارہ وجود میں لائیں۔یعنی ایسا ادارہ جس میں لوگ کچھ وقت گزاریں اور سیکھیں۔اس کی بہترین مثال آج کے دور میں تبلیغی جماعت بھی ہے۔ ان کی دینی تعبیر سے اختلاف کے باوجود اس فن میں بعض چیزیں ان سے بھی سیکھی جا سکتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ایک ماہر فن چند چیزوں کی مشق کرا کے ، چند چیزوں کی تربیت دے کے ، آپ کو اٹھا دیتا ہے ، کسل مندی دور کر دیتا ہے ، طبیعت میں نشاط پیدا کر دیتا ہے۔ تو یہ باقاعدہ ایک کام ہے جو کرنا چاہیے۔ جب تک صوفیا کا ادارہ قائم رہا ہے ، اس وقت تک ہمارے معاشرے کو کبھی ماہرین نفسیات کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ ان کا ایک خاص انداز ہوتا تھا جس سے وہ آدمی کی تربیت کر کے آہستہ آہستہ اسے دین کے قریب لے آتے تھے ۔اس معاملے میں، میں ان کابہت قائل ہوں ۔ میرا احساس یہ ہے کہ اس کام کے لیے سوچنا بھی چاہیے اور اس کا اہتمام بھی کرنا چاہیے یہ کام مجرد دین بتانے سے نہیں ہوتا ۔ یہ ایک مخصوص تربیتی عمل اور فن ہے اور فن کا ماہر آدمی آپ کو دنوں میں تبدیل کردیتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کوئی عبادت اور نیکی کبھی اسراف نہیں ہوتی البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں اعتدال یا توازن قائم رکھنا چاہیے۔ بعض اوقات آدمی پر کسی ایک چیز کا غلبہ ہو جاتا ہے اور وہ اس میں اعتدال اور توازن قائم نہیں رکھ پاتا تو اسے اس کی طرف متوجہ کرنا چاہیے نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ اسراف کر رہا ہے۔مسلمان کی زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں اعتدال اور توازن پر رہتا ہے۔ یعنی معاشرتی تقاضوں کو بھی بخوبی پورا کرتاہے اور عبادات کے معاملے میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح نہج پر قائم رہتا ہے۔ اس چیز کا ضرور لحاظ رکھنا چاہیے ، باقی نیکی اسراف نہیں ہوتی ، اعتدال او رتوازن بسا اوقات مجروح ہو جاتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ بڑی غلط تعبیر ہے جو ہمارے بعض آئمہ کرتے ہیں ۔ دو صورتیں ہیں ، ایک صورت یہ کہ آپ نے کوئی وقت commit نہیں کیا یعنی یہ نہیں بتایا ہوا کہ ڈیڑھ بجے جمعہ ہو گا تو امام صاحب کی مرضی ہے کہ جب چاہیں پڑھا دیں ۔ لیکن اگر اس نے پہلے سے کوئی commitment کی ہوئی ہے کہ ڈیڑھ بجے جمعہ ہو گا تو پھر ایک سیکنڈ کی خلاف ورزی بھی حرام ہے ۔ مسلمان کی زندگی کے اندر جو بنیادی نیکیاں ہیں ان میں اللہ تعالی نے والموفون بعھدھمکو بھی شامل کیا ہے ۔ وقت کی پابندی دوسری قوموں کے لیے بہتر عمل ہو گا مگر ہمارے لیے دینی فریضہ ہے ۔ اگر وقت طے کیا گیا ہے تو کسی امام کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ایک منٹ کی بھی تاخیر کرے اور اگر غلطی ہو جائے تو سامعین سے معافی مانگے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: میں آپ کا سوال الٹ کیوں نہ دوں ، مجھے احناف کے بہت سے مسائل قرآن وسنت کے مطابق لگتے ہیں ۔یعنی مثبت بات کیوں نہ کی جائے ، لوگوں کو منفی بات جاننے سے بہت دلچسپی ہوتی ہے ۔بہت تھوڑی باتیں ہیں جن میں احناف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ بات درست نہیں یعنی اللہ تعالی نے خود یہ بیان نہیں کیا کہ اس کانام اللہ ہے ۔ عربی بولنے والوں نے یہ نام رکھ دیا اور اللہ تعالی نے قبول فرما لیا ۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنا کوئی نام رکھا ہوا ہے ۔ عبرانی بولنے والے ایل کہتے تھے تو اس نے وہ قبول فرما لیا۔ عربی بولنے والوں نے اللہ کہنا شروع کر دیا تو وہ قبول فرما لیا ۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات والا صفات کوئی تمہاری طرح نہیں کہ اسے اپنا کوئی نام رکھ کے تمیز کرانے کی ضرورت محسوس ہو ۔ البتہ جس نام سے بھی تم اس کی ذات و صفات کے لحاظ سے پکارتے ہووہ اسی کا نام ہے ۔ وللہ الاسماء الحسنی ، سارے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں۔ اللہ خود بھی ایک صفاتی نام ہی ہے لیکن یہ عربوں کے ہاں معروف ہو چکا تھا تو اللہ تعالی نے اسی کو قرآن میں اختیار کر لیا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس کی وجہ خود قرآن نے بیان کی ہے کہ اس سے آزمائش مقصود تھی۔ یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی تو مشرکین میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے تھے ان کی آزمائش ہو گئی اور بعد میں جب رخ بدلا گیا تو یہود کی آزمائش ہو گئی ، قرآن نے اس کو بیان کیا ہے کہ ہم نے یہ اس لیے کیا تھا کہ ہم دیکھیں کہ لوگ اپنے تعصبات کی پیروی کرتے ہیں یا رسول کی پیروی کرتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر صلوۃ سے مراد نماز ہی ہے ۔ بعض جگہوں پر دعا اوررحمت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔ لیکن جہاں الصلوۃ آیا ہے وہاں بالعموم نماز ہی کے لیے آیا ہے ۔ نماز میں اگر آپ نے فرض رکعات پڑھ لیں تو آپ کی نماز ہو گئی ۔ آپ مواخذے سے بچ گئے لیکن یہ کم سے کم عبادت ہے جو آپ نے کی ۔ اس سے آگے جو نفل پڑھتے ہیں وہ بڑے اجر کا باعث ہیں لیکن اگر آپ کسی وجہ سے نہیں پڑھتے تو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا ۔ جو نفل حضورﷺ بالعموم پڑھا کرتے تھے ان کو سنت کہہ دیا جاتا ہے ۔ نماز بالکل ایسے ہی فرض کی گئی رکعات کی تعداد کے ساتھ۔ ساری امتوں میں ہمیشہ ایسے ہی رہی ہے ،رکعات اور اوقات کے ساتھ حدیثوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین میں مرد و خواتین کے اختلاط کے جو آداب بیان ہوئے ہیں ، اگر ان کو ملحوظ رکھا جائے تو خاتون درس دے سکتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین میں سب سے بڑا درجہ سابقون کا ہے ، سابقون کا مطلب ہے سبقت کرنے والا۔یعنی انسان کے سامنے دین کا کوئی معاملہ آیا اور اس نے اس معاملے میں سب سے آگے بڑھ کر اس کو پورا کرنے کی سعی کی ۔ جس کو ہم شہید کہتے ہیں وہ بھی یہی کرتا ہے ۔ خدا کی راہ میں جان دینے کی نوبت آگئی تو اس نے دریغ نہیں کیا ، وہ بڑھا اور اس نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ یہ بھی سبقت کا ظہور ہے ۔ شہادت اور سبقت کوئی الگ درجے نہیں ۔ سبقت ایک جامع بات ہے اور شہید بھی اصل میں السابقون ہی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ قیامت تک کے مسلمان وہ اس درجے تک پہنچ سکتے ہیں ۔قرآن کا اپنا ارشاد ہے کہ سنت من الاولین وقلیل من الآخرین ، اگرچہ تعداد میں کم ہونگے لیکن آخری زمانے میں بھی ہونگے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ خدا کی رحمت کا ظہور ہے یعنی اس نے ایسی مخلوق پیدا کی جس کو اس نے ابدی زندگی دینے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کی صفت رحمت کا ظہور ہے۔ قرآن سے یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایک سرکاری نسخہ تیار کرا کے رکھ دیا گیا ۔ حضورﷺ کے زمانے میں قرآن جمع ہو چکا تھا اور سارے کا سارا لکھا ہوا موجود تھا ۔اور صحابہ کی پوری جماعت اس کو اپنے سینوں میں لیے ہوئے تھی ۔ اس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو کوئی نیا کام نہیں کرنا تھا تو انہوں نے ایک سرکاری نسخہ ایک انتہائی اہتمام کے ساتھ رکھوا دیا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ملائکہ اللہ کی مخلوق ہیں اور قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک طرف ان کا امتحان کیا اور دوسری طرف انسانوں کے اوپر خود ان کے بارے میں کچھ حقائق واضح کیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آدمی کے اندر کسی بھی سعادت کو حاصل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ اس کو غلط طریقے سے حاصل کرنا شروع کر دے ۔ آپ کی نیت آپ کا جذبہ یہی آپ کے لیے اجر کا باعث بن جائے گا ۔ جب کبھی اس کا موقع شریعت کی حدود اور قیود کے مطابق پیدا ہو جائے تو ضرور جہاد کے لیے جائیے ۔ ایسا موقع نہ آئے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ چھڑی پکڑ کر دوسروں کو مارنے نکل کھڑے ہوں ۔ شہادت کی آرزو رکھیے اور اس جذبے کے ساتھ زندگی بسر کیجیے ، امید ہے اللہ تعالی اس کو جذبے کی حد تک قبول فرما لے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: شفاعت اصل میں خدا کے حضور عفوو درگزر کی درخواست ہے ۔ روز ہم اپنے والدین کے لیے یہ کام کرتے ہیں، صالحین کے لیے کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں بیان ہوا ہے یجادلون فی قوم لوط یعنی قوم لوط کے بارے میں اس نے ہمارے ساتھ مجادلہ شروع کر دیا ۔ بڑی تحسین کے موقع پر کہا ہے کوئی مذمت نہیں کی ۔ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پروردگار آپ کے بندے ہیں ، اگر ان میں سے پچاس راست باز ہونگے ، آپ تب بھی ان کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ وہ چیز ہے جو نبیﷺ کے ذریعے سے بھی ہو گی جس شفاعت کی قرآن نفی کرتا ہے وہ شفاعت باطل ہے۔ عربی زبان میں ا لفاظ مطلقا نہیں استعمال ہوتے بلکہ دنیا کی کسی بھی زبان میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس چیز کی نفی کی گئی ہے کہ وہاں خدا کی بات پر ، خدا کے فیصلے پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہو سکے گی ، کوئی ناانصافی نہیں ہوگی ، خدا کے قانون کو باطل کرنے والی کوئی چیز نہیں ہو گی ۔کوئی حق کو باطل نہیں بنا سکے گا ، باطل کو حق نہیں بنا سکے گا ، اس کی قرآن نفی کرتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین میں مسجد کی دو صورتیں ہیں ، ایک وہ مسجد ہے جو کسی محلے میں باقاعدہ قائم کر دی جاتی ہے اور ایک مسجد وہ ہے جس کو مسجدالدار کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو مسجد بنائی گئی ہے اس سے آپ فاصلے پر ہیں اس لیے آپ نے محلے میں کہیں کوئی جگہ باقاعدہ نماز کے لیے مقرر کر دی ہے کہ یہاں نماز ہوا کرے گی ، یہ مسجد الدار ہے ۔ ایسے ہی کاروباری لوگ ہیں جن کے لیے دکانیں بند کر کے دور جانا مشکل ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بڑے بڑے پلازوں میں ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے تو جب آپ نے باقاعدہ نماز کے لیے ایک جگہ مقرر کر دی ہے اور اس میں نماز کا وقت مقرر کر دیا ہے اور اس وقت کے لحاظ سے وہاں جماعت کھڑی ہوتی ہے تو یہ مسجد الدار ہے ۔ اس میں اور محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا ایک ہی جیسا ہے ۔ اس میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن یہ بات کہ آپ اپنے دفتر میں یا کاروبار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دوچار لوگ مل کر جماعت کرالیتے ہیں تو یہ اس کے قائم مقام نہیں ہے۔ جب آپ نے نماز کی جگہ مقرر کر دی ، نماز کا وقت مقرر کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ یہاں اب باقاعدگی کے ساتھ نماز ہوا کرے گی تو یہ چیز مسجدالدار بنا دیتی ہے ، یہ آپ کر سکتے ہیں ، اس میں اور مسجد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بائبل تو اس کے ذکر سے بھری پڑی ہے ۔ نماز عبادت ہے، دعا ہے۔ الفاظ تبدیل ہو جاتے ہیں ، ایساتو نہیں ہے کہ بائبل میں نماز ہی کا لفظ لکھا ہو ۔ نماز تو فارسی زبان کا لفظ ہے ، لیکن دعا ، عبادت تو تمام انبیا کے پاس اسی طریقے سے موجود رہی ہے ۔ قرآن مجید نے اس کوبڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں بتایا ہے کہ انہوں نے نماز ہی کی تلقین کی ۔حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں بتایا ہے کہ جب انہوں نے کعبہ کو آباد کیا تو اسی مقصد کے لیے قائم کیا کہ یہاں نماز کی روایت قائم کی جائے حضرت موسیؑ کے بارے میں قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جیسے ہی ان کی قوم نے ان کو مانا تو گھروں کو قبلہ بنا کر ان کے ہاں باقاعدہ باجماعت نماز کا اہتمام کر دیا گیا ۔نماز کوئی رسول اللہﷺ سے شروع نہیں ہوئی ، تمام انبیا کی امت میں رہی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہماری طر ح اس زمانے میں گھڑیاں نہیں تھیں اورنہ نماز کے وقت کے بارے میں مسجد میں لکھا ہوتا تھا کہ اتنے بج کر اتنے منٹ پر کھڑی ہو جائے گی ۔ایک عام قیاس تھا کہ وقت ہو گیا ہے ۔ امام باہر نکل آیا تو نماز ہو جاتی تھی تو کبھی ذرا جلدی ہو گئی کبھی ذرا بعد میں ہو گئی تو ایسے ہی ہوتا تھا ۔ جس آدمی نے جو دیکھا اس نے اسی کو بیان کر دیا۔ دونوں چیزیں رہی ہیں ، تاخیر سے بھی ہوتی رہی ہے اور جلدی بھی ۔ جیسے عشا کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ عام طریقہ کیا تھا ، کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپﷺ نے کم و بیش نصف رات کے قریب نماز پڑھائی ، ایسا بھی ہوا کہ کم و بیش ثلث لیل کے قریب نماز پڑھائی ۔نمازکے لیے ایک شروع کا وقت ہے ، ایک خاتمے کا وقت ہے ۔ اس دوران میں جب آپ چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اصل میں حج اور غیر حج کا کوئی مسلہ نہیں ہے ، حضورﷺ نے یہ بات بیان فرمائی کہ خواتین جب بھی لمبے سفر پر جائیں تو ان کو ایک محفوظ ماحول کے اندر رہنا چاہیے اور وہ اپنے کسی محرم ، عزیز کو ساتھ لے لیں تاکہ ان کے بارے میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے ۔ اسلام چونکہ خاندانی معاشرت کا داعی ہے اور خاندانی معاشرت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک عفت و عصمت کے بارے میں سوسائٹی حساس نہ ہو ۔ اس وجہ سے یہ تاکید آپ نے فرمائی ۔ قدیم زمانے میں تو سفر اونٹوں پر ہوتا تھا ، جنگلوں میں ہوتا تھا ، صحراؤں میں ہوتا تھا ، رات کو اکیلے لیٹنا بھی ہے ، موجودہ زمانے میں سفر کی نوعیت بدل گئی ہے تو ظاہر ہے احکام کی نوعیت بھی تبدیل ہو جائے گی ۔آپ محسوس کرتے ہیں کہ ایک محفوظ صورتحال ہے ، اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں توجایا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی قانونی چیز نہیں ہے بلکہ فتنے سے بچانے کے لیے ایک ہدایت اور ایک نصیحت ہے ، جس کا جس حد تک ممکن ہو خیال رکھنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ بسا اوقات غیر معمولی طریقے سے اللہ کی نصرت نمودارہو جاتی ہے اور اپنے بندوں کی و ہ مدد کرتا رہتا ہے ۔لیکن عام طورپر ایسی بہت سی کہانیاں مبالغے پر مشتمل ہوتی ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)