جواب: شفاعت کے عقیدے کی بنیاد بعض روایات پر ہے۔ قرآن مجید نے شفاعت کے بارے میں بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی شفاعت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہو گی اور دوسرے یہ کہ وہاں جو بھی کوئی بات کہے گا وہ صحیح بات کہے گا۔ اسی طرح قرآن مجید نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ قیامت کامل عدل کا دن ہے وہاں نہ کوئی فدیہ کام آنے والا ہے اور نہ کوئی مدد وسفارش۔ ان ساری باتوں سے واضح ہے کہ شفاعت ان ہستیوں کے لیے ایک اعزاز ہے جنھیں اللہ تعالی کے ہاں تقرب حاصل ہوگا۔ یہ انھی لوگوں کے کرنے کی اجازت دی جائے گی جو اللہ تعالی کے نزدیک گناہوں کے باوجود رعایت کے مستحق ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر یہ بیان بھی کیا ہے کہ جہنم میں وہی لوگ رہ جائیں گے جنھیں قرآن نے روک رکھا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
ج: شفاعت اصل میں خدا کے حضور عفوو درگزر کی درخواست ہے ۔ روز ہم اپنے والدین کے لیے یہ کام کرتے ہیں، صالحین کے لیے کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں بیان ہوا ہے یجادلون فی قوم لوط یعنی قوم لوط کے بارے میں اس نے ہمارے ساتھ مجادلہ شروع کر دیا ۔ بڑی تحسین کے موقع پر کہا ہے کوئی مذمت نہیں کی ۔ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پروردگار آپ کے بندے ہیں ، اگر ان میں سے پچاس راست باز ہونگے ، آپ تب بھی ان کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ وہ چیز ہے جو نبیﷺ کے ذریعے سے بھی ہو گی جس شفاعت کی قرآن نفی کرتا ہے وہ شفاعت باطل ہے۔ عربی زبان میں ا لفاظ مطلقا نہیں استعمال ہوتے بلکہ دنیا کی کسی بھی زبان میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس چیز کی نفی کی گئی ہے کہ وہاں خدا کی بات پر ، خدا کے فیصلے پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہو سکے گی ، کوئی ناانصافی نہیں ہوگی ، خدا کے قانون کو باطل کرنے والی کوئی چیز نہیں ہو گی ۔کوئی حق کو باطل نہیں بنا سکے گا ، باطل کو حق نہیں بنا سکے گا ، اس کی قرآن نفی کرتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)