جواب:یقینا آدم علیہ السلام ہی دنیا کے پہلے انسان تھے۔ارشاد باری ہے:
خَلَقَہ، مِن تْرَابٍ ثْمَّ قَالَ لَہ، کْن فَیَکْونْ.(آل عمران)
''خدا نے اس (آدم) کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ تو ہو جا تو وہ ہو گیا۔''
یعنی آدم کے ماں باپ نہ تھے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے آدم کو مٹی سے کیسے بنایا تو یہ اْن امور میں سے ہے، جن کا اللہ نے ہمیں مشاہدہ نہیں کرایا۔لہٰذا، ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، بس جتنے الفاظ قرآن میں آئے ہیں، انھی کو بیان کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہ مٹی جس سے آدم کو بنایا گیا تھا،وہ پہلے گارا تھی پھر سوکھ کر کھنکھنانے لگی، پھر ایک مرحلے پر اس میں روح پھونکنے کا عمل ہوا تھا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس عمل کی حقیقت کیا تھی۔
یقیناآدم علیہ السلام ہی پہلے نبی تھے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ اصطَفٰی اٰدَمَ وَ نْوحًا وَّاٰلَ اِبرٰہِیمَ.(آل عمران)
'' بے شک اللہ نے منتخب فرمایا (نبوت کے لیے) آدم، نوح اور آل ابراہیم کو۔''
اس آیت میں آدم علیہ السلام کی نبوت کا ذکر ہے۔
فرشتوں کے سجدہ کرنے کا واقعہ تمثیلی نہیں،بلکہ حقیقی ہے۔ اس کا حکم اللہ نے تخلیق آدم سے پہلے ہی فرشتوں کو دے دیا تھا۔ ارشادباری ہے:
وَاِذ قَالَ رَبّْکَ لِلمَلٰءِکَۃِ اِنِّی خَالِق بَشَرًا مِّن صَلصَالٍ مِّن حَمَاٍ مَّسنْونٍ فَاِذَا سَوَّیتْہ، وَنَفَختْ فِیہِ مِن رّْوحِی فَقَعْوا لَہ، سٰجِدِینَ.(الحجر)
'' اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو تخلیق آدم سے پہلے ہی سجدے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ یہ بات تمثیلی نہیں ہو سکتی۔
ج: یہ خدا کی رحمت کا ظہور ہے یعنی اس نے ایسی مخلوق پیدا کی جس کو اس نے ابدی زندگی دینے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کی صفت رحمت کا ظہور ہے۔ قرآن سے یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)