سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : فروری 2008

ج: یہ بات قرآن کے خلاف ہے۔اللہ کہتے ہیں کہ یہ میرا فیصلہ تھا اور اسی کے تحت وہ لڑنے کے لیے نکلے تھے او ریہ ایک یوم الفرقان تھا ۔دراصل پوری بات کو قرآن کی روشنی میں نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہانی بن گئی ہے ۔اس پر بہت اچھی بحث مولانا شبلیؒ نے اپنی سیرت اور مولانا اصلاحیؒ نے اپنی تفسیر میں کر دی ہے ، اس کو آپ دیکھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بعض چیزیں صرف حکمرانوں تک محدود رہتی ہیں۔ جس طرح علما اجتہاد کر کے لوگوں کو سزائیں (مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا ، قاتل کو قتل کرناوغیرہ)نہیں دے سکتے اسی طرح جہاد بھی نہیں کرسکتے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہرزبان ایک خاص معاشرے میں جنم لیتی ہے اور جس معاشرے میں وہ پروان چڑھتی ہے اس میں اس کی معاشرتی روایات کا پایا جانا اور بیان ہونا ناگزیر ہے ۔ اس لیے ان لوگوں کا کہنا ٹھیک ہے ۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریزی کو چھوڑ دیا جائے ۔دنیا میں کوئی بھی زبان جب اس درجہ اہمیت اختیار کر جائے کہ عالمی ابلاغ کا ذریعہ بن جائے تو پھر اس سے تعلق ناگزیر ہو جاتا ہے۔انگریزی کی آج یہی صورت حال ہے ۔ اس لیے اس میں مہارت پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے ساتھ جو روایات در آتی ہیں ان کے بد اثرات سے آپ اپنے دین اور اپنی روایات سے مستحکم تعلق پیدا کر کے بچ سکتے ہیں۔ہمارے ملک میں اصل زیر بحث مسئلہ یہ نہیں کہ انگریزی زبان پڑھی جائے یا نہیں ۔ اصل سوال یہ ہے کہ سرکاری اور قومی زبان کیا ہونی چاہیے ۔ اس میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اردو زبان کو ہی یہ حیثیت ملنی چاہیے ۔ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے لیکن اگر حکمران اس کے لیے تیار نہیں تو پھر انہیں چاہیے کہ وہ اس confusion کو ہمیشہ کے لیے دور کر دیں۔ یعنی اگر تواردو کو اختیار کرنا ہے تومکمل طور پر اختیار کیا جائے ورنہ بالکل چھوڑ دیا جائے ،کم از کم کوئی تو فیصلہ کن صورتحال ہو ۔ یہ تذبذب کی کیفیت قومی سطح پر اثر انداز ہو رہی ہے ، اس معاملے میں حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے تاکہ ہماری نسلیں تذبذب کا شکار نہ ہوں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات واضح ہے کہ ابو سفیان اسلام کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔اس موقع پر بھی اور بعد میں بھی وہ اپنے دل میں ایمان کی رمق کو پاتے تھے اللہ نے ایسے سب لوگوں کی حفاظت کی ہے جن کے دل میں ایمان کی کوئی بھی رمق تھی۔ یہ بات سورہ فتح میں بیان ہو گئی ہے ۔ جب حضورﷺ کو حدیبیہ سے لوٹنے کے لیے حکم دیا گیا تو اس کی وجہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ جن کے دلوں میں ایمان اتر چکا تھا ہم ان کو موقع دینا چاہتے تھے ۔چنانچہ یہ واقعہ ہوااور ابو سفیان ایمان لے آئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی نے مشرکین پر پابندی لگائی تھی ، لوگوں نے اس کو بڑھا کر تمام غیر مسلموں تک پھیلا دیا ۔ یہ بعد کا اجتہاد ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شرک کی وہ ساری اقسام ان میں پائی جاتی تھیں جو دنیا کی مشرک اقوام میں موجودرہی ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے آپ مولانا امین احسن اصلاحی کی کتاب ‘‘حقیقت شرک’’ کو پڑھ لیجیے۔ اس میں انہوں نے مشرکین کے شرک کی تمام اقسام کو بیان کر دیا ہے ۔ قرآن سے بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کے شرک اور ان کے شرک میں فرق یہ ہے کہ وہ شرک کو دین سمجھتے تھے اور اس کا اقرار کرتے تھے کہ شرک ہی صحیح دین ہے جبکہ اس وقت دنیا میں یہود ہوں یانصاری ہوں کوئی بھی شرک کا اقرار نہیں کرتا۔ مسلمان بھی اگرچہ شرکیہ عمل کرتے ہیں لیکن وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ ہم شرک کر رہے ہیں جبکہ مشرکین مکہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ شرک ہی صحیح مذہب ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر وہ چیز جو آپ کے علم کی دسترس میں نہیں ہے وہ آپ کے لیے غیب ہے۔ علم غیب ہرایک کے لیے مختلف ہوتا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز میری دسترس سے باہر ہو لیکن وہ آپ کی دسترس سے باہر نہ ہو تو وہ میرے لیے غیب ہے ،آپ کے لیے نہیں۔ یہ بات کہ سارے کے سارے غیب کون جانتاہے تو وہ اللہ ہی ہے ۔ انسانوں کا علم اس معاملے میں متفاوت ہوتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:کوئی فرق نہیں۔ تمام جلیل القدر اہل علم حدیث کو اسی حیثیت سے مانتے رہے ہیں جس حیثیت سے میں مانتا ہوں ۔میرے اور ان کے موقف میں اصول کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔ پیغمبر کا اسوہ جاننے کے لیے وہ بھی اسی جانب رجوع کرتے تھے اور میں بھی ۔ وہ بھی تحقیق کر کے اس کو قبول کرتے تھے میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں ۔ وہ بھی کسی روایت کو محض اس لیے قبول نہیں کرتے تھے کہ فلاں صاحب نے کتاب میں لکھی ہے ، میں بھی ایسے ہی کرتا ہوں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی حقیقت سے ہم واقف نہیں ، جس طرح عرش پر متمکن ہونے کی حیثیت ہم نہیں بتا سکتے اس طرح اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے ۔ یہ امور متشابہات میں سے ہے ۔بعض علما کہتے ہیں کہ اللہ اپنی رحمت کی تجلی آسمان دنیا پر فرماتے ہیں۔ واللہ اعلم

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بالکل ٹھیک ہے کہ کوئی ایک بات ہی درست ہو گی ، دو باتیں تو بیک وقت درست نہیں ہو سکتیں لیکن آپ اس کے مکلف نہیں کہ ضرور صحیح بات تک پہنچ جائیں ۔ہم صرف اس بات کے مکلف ہیں کہ دیانتداری سے صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کریں، اگر جان لی تو جس طرح حضورﷺ نے فرمایا کہ دہرا ثواب ہے لیکن اگر جاننے میں غلطی لگ گئی تو اکہرا ثواب ہے ، مواخذہ نہیں ہو گا

(جاوید احمد غامدی)

ج: انبیا سے گناہ صادر نہیں ہوتا اور ان کی لغزش بھی نفس کی جانب سے نہیں ہوتی۔ان کی جو بات لغزش محسوس ہوتی ہے وہ بھی اصل میں حق کی حمایت مگر حدود سے زیادہ ہوتی ہے ۔یعنی اللہ کی خوشنودی پانے میں وہ بعض اوقات کسی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے حد سے بڑھ جاتے ہیں تو انکے ہاں نفس کے داعیات کے تحت لغزش نہیں ہوتی بلکہ جانب حق ہی ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میں کسی ریاست کا داعی نہیں ہوں ۔ ایک محقق ہوں، اپنی تحقیق کے مطابق جس طرح دین کو سمجھتا ہوں، اس کو بیان کر دیتا ہوں۔ جب میں اپنی تحقیق کے مطابق کسی بات پر مطمئن ہوجاتا ہوں خواہ وہ کسی دیوبندی کی ہو، اہلحدیث کی یابریلوی کی ، اسے قبول کر لیتا ہوں۔ یہی طریقہ اختیار کیجیے ۔ اس مصیبت میں پڑنے کے بجائے کہ لوگ کیا کہتے ہیں سیدھا سیدھا اپنے رب کی کتاب پڑھیے ۔ آپ دیکھیں گے کہ لوگ جتنی الجھنوں میں مبتلا کرتے ہیں وہ آپ کو کہیں نہیں ملیں گی۔البتہ کوئی مشکل پیش آئے تو کسی صاحب علم سے جس پر آپ کو اعتماد ہو پوچھ لیجیے ۔ اللہ نے آپ کو اس سے زیادہ کا مکلف نہیں کیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وہ ایک جید فقیہہ تھے ۔ہم ان کی عزت کرتے ہیں البتہ ان کی بعض آرا سے ہم کو اختلاف ہے ، وہ ہم احترام کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کسی قومی رہنما یا عالم میں واقعی کوئی خرابی ہوتو اس کا بیان کرنا واجب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی رہنماؤں اور عالم دین کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے عیب پر پردہ ڈالا جائے کیونکہ ان سے لوگ رہنمائی لیتے ہیں دین سیکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کے اندر واقعی کوئی خرابی ہو تو اسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے تاکہ لوگ اپنے دین کے بارے میں محتاط رہیں ، یہ غیبت نہیں ہے۔ لیکن ہمیشہ صحیح بات بیان کرنی چاہیے، جس کے صحیح ہونے کے بارے میں مکمل تحقیق ہو۔ سنی سنائی باتیں کرنا معصیت ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمانوں کی موجودہ رسوائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دینی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کیا اور دنیاوی علوم کے معاملے میں بھی بے احتیاطی کی ۔ اللہ کے قانون میں یہ دونوں چیزیں ایک تواز ن میں لازم ہیں ۔ جتنا ہم دین پر عمل کریں گے اتنی ہی اللہ کی نصرت زیادہ اترے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انبیانے ان کتابوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ بعد میں لوگوں نے کیا ۔ انبیا نے اپنی زندگی میں ان کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ بعد کے لوگوں نے اس کو محفوظ نہیں رکھا۔حضورﷺ نے بھی یہ قرآن پوری حفاظت سے امت کو دیا ۔ یہ امت بھی اگراس کو ضائع کرنے پر تل جاتی اور اللہ کی طرف سے بھی اس کی حفاظت کا وعدہ نہ ہوتا،تو یہ بھی ضائع ہو جاتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ لوگوں میں رائج ہو گیا ہے ، ایسی کوئی بات نہیں ۔ قرآن کی اصطلاح میں ہرحج کوحج اکبر کہتے ہیں اورعمرے کو حج اصغر کہتے ہیں۔ جمعے کے دن کے حج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وفات کے بعد انسان عالم برزخ میں ہوتا ہے اور کس حالت میں ہوتا ہے اس کے بارے میں ہمیں علم نہیں۔قرآن سے بس اتنی بات معلوم ہے کہ اچھے لوگوں سے اچھا معاملہ ہوتا ہے اور برے لوگوں سے برا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حقوق و فرائض عقل عام پر مبنی ہیں۔ قران وحدیث میں ان کے حقوق و فرائض کی کوئی فہرست نہیں دی گئی۔ اللہ کا دین صرف ان امور میں مداخلت کرتا ہے جن میں کوئی غلطی کی گنجائش ہوتی ہے ۔ البتہ یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ آدمی کے لیے جو حیثیت اس کے والدین کی ہوتی ہے وہی ساس سسر کی ہوتی ہے۔ یعنی اصول یہ ہے کہ ان کو والدین جیسا احترام دینا چاہیے اور والدین کے کیا حقوق اور آداب ہیں یہ ہر شخص جانتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اپنے والدین کے ساتھ جو رویہ اختیار کرنا چاہیے وہی ساس سسر کے ساتھ کرنا چاہیے ۔ نہ ان کی ہر بات ماننا ضروری ہے نہ ان کی ہر بات سے انکار ضروری ہے ۔ معقول بات ماننی چاہیے اور نامعقول بات سے معذرت کر دینی چاہیے مگر احترام کے ساتھ ۔بد تمیزی اور بے ادبی کی ہر گز اجازت نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسی کوئی بات حضورﷺ نے نہیں فرمائی ۔ نماز کا معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ معذور ہیں تو جتنا کچھ کر سکتے ہیں کیجیے ، آخری حد یہ ہے کہ اشارے کے ساتھ پڑھتے رہیے ، اس سے بھی آدمی معذور ہو گیا ہے تو پھر اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دوسروں کے بارے میں آپ بہت زیادہ متنبہ نہ ہوں ۔ اپنے آپ کوالبتہ اس کے لیے تیار کریں کہ آپ ہر حال میں حق سننے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔دوسروں کا رویہ اگر ایسا ہے کہ بات کرنے میں دشواری ہوتی ہے تو آپ نہ کریں ، البتہ نصیحت کرتے رہیے اور یہ بتاتے رہیے کہ آدمی کو سچی بات سننے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جادو بھی ایک علم ہے اور دوسرے علوم کی طرح جادو بھی اپنا اثر رکھتا ہے ۔ جن چیزوں کی ہم تدبیر کر سکتے ہیں ان میں اللہ کی مدد مانگتے ہوئے تدبیر کرنی چاہیے اور جن چیزوں کی تدبیر کا کوئی راستہ نہیں وہاں اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے اور اللہ سے پناہ مانگنے کے لیے قرآن اور حدیث میں بہت سی معوذات موجود ہیں ، ان کے ذریعے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ تو ایسے ہی ہے جیسے آپ پیشاب کے چھینٹوں کو شراب سے پاک کرنے کی کوشش کریں ایک حرام کام سے دوسرے حرام کام سے دور کرنے کی کوشش کو ئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جادوکودور کرنے کا صحیح ذریعہ اختیار کریں اوروہ ذریعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر تو یہ کسی خیر کے موقع پر ہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے قرآن کا مدعا بالکل الٹ جاتا ہے تو اس سے احترازکرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلے ذبح نہیں کیا جاسکتا ۔ اس معاملے میں رسالت مآب ﷺ نے بہت سختی فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جس نے ہماری نماز سے پہلی قربانی کر لی ، اس کی قربانی کوئی قربانی نہیں ہے ، وہ تو بس ایک جانور تھا جو اس نے ذبح کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب کسی قوم کو کوئی منصب دیا جائے گا تو اسے بار بار چانس بھی دیا جائے گا ورنہ ظلم ہو جائے گا ۔ ایک منتخب قوم کی حیثیت سے بنی اسرائیل کو ذمہ داری دی گئی ، جب وہ اس پرپورے اترے تو اللہ کی عنایتیں ان کے شامل حال رہیں ، جب انہوں نے اس سے گریز کیا تو اللہ تعالی نے انہیں اس سے معزول کر دیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا تعلق معروف سے ہے ، جو چیز معروف کے مطابق باہمی رضا مندی سے طے ہو جائے ، وہ ٹھیک ہے ۔ اسی کے مطابق دوسرے کونفع دے دیجیے ۔اخراجات کا منہا کرنا بھی باہمی رضا مندی پرہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی اصل رقم کے مطابق منہا کیے جائیں اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کم یا زیادہ اخراجات برداشت کر لے ۔کوئی چیزایسی نہیں ہونی چاہیے جو انصاف کے خلاف ہو انسان کا ضمیر اسے بتا دیتا ہے کہ کیا انصاف کے خلاف ہے ۔ شریعت اگر ایسے معاملات میں مداخلت کرتی تو بڑی تنگی ہو جاتی ، ایسے معاملات کو انسانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے میں نبیﷺ نے کوئی چیز بطور اسوہ قائم نہیں کی ۔ اس کا تعلق تمدن اور حالات سے ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کو الگ رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کو ٹھیک طریقے سے منظم کر سکیں البتہ ماں باپ کو اگر خدمت کی ضرورت ہے تو وہ انہیں اپنے پاس رکھیں ۔ عربوں کے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی تصور نہیں تھا ، یہ ہندستان کا تصور ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:یہ بات قرآن کے ایک بنیادی اصول پر مبنی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ قرآن نے جو احکام اقتدار قائم ہونے کے بعد دیے ہیں ، ان کے بارے میں اہل علم یہ جانتے ہیں کہ وہ اقتدار کے ساتھ مشروط ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں یہ بیان ہوا ہے کہ بدکاری کرنے والوں کو سو کوڑے مارو ، وہاں یہ نہیں لکھا ہوا کہ یہ کام حکومت کرے گی لیکن چونکہ یہ حکم حضور کو اقتدار حاصل ہونے کے بعد ملا ہے ،اس لیے اس کاتعلق اہل اقتدار سے ہو گا۔ قرآن کا فہم رکھنے والے جانتے ہیں کہ کون سی بات کس سے متعلق ہے ۔ قرآن میں باقاعدہ اصرار ہے کہ جب تک اللہ کی طرف سے اذن نہیں ہوا ، جہاد کی اجازت نہیں دی گئی اور اس کا اذن نبیﷺ کو ایک باقاعدہ حکومت حاصل ہونے کے بعدملا ہے۔ پچھلی چود ہ صدیوں میں یہ بات بالکل واضح بات تھی اور کسی صاحب علم نے اس سے اختلاف نہیں کیا ، اس پر اختلاف اسی صدی کی بات ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: منکر ایک جامع تعبیر ہے بری اور ناپسندیدہ باتوں کے لیے ۔لیکن بری باتوں کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ ان درجات میں وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو گناہ ہوتی ہیں ، وہ بھی آ جاتی ہیں جوگناہ کبیرہ ہوتی ہیں اور وہ بھی جو ناشائستہ ہوتی ہیں مثلاً سڑک پر جاتے ہوئے آدمی نے تھوک دیا تو یہ ناپسندیدہ بات ہے لیکن اس پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس سے بچنا چاہیے۔ جب آپ ناشائستہ باتوں سے بچتے ہیں تو یہ آپ کو رفعت اور بلندی دیتی ہیں اور نیک باتوں کی طرف بڑھنے میں معاون ہوتی ہیں۔منکرات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کبیرہ گناہوں تک لے جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبیﷺ نے ایسی چیزوں کو پسند نہیں کیا ،البتہ یہ حرام حلال کا مسلہ نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہیکل اصل میں ایک بڑی عمارت کو کہتے ہیں ۔ ہیکل سلیمانی یعنی وہ معبد بنی اسرائیل نے بنایا تھا وہ بڑی غیر معمولی عمارت تھی ، اس وجہ سے اس کو ہیکل کہتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز میں جو لازمی اذکار ہیں وہ اللہ کے پیغمبر نے واضح کر دیے ہیں ، باقی معاملات کو انسانوں کی عقل پر چھوڑ دیا ہے اور عقل عام وہی کہتی ہے جو امام مالک کا مذہب ہے کہ امام پڑھے گا تو سنیں گے ، خاموش ہو گا تو پڑھیں گے۔ نبیﷺ نے اس کو متعین نہیں کیا اور جن لوگوں نے اس کو حدیثوں سے متعین کرنا چاہا ہے انہوں نے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں ، اس معاملے میں آزاد چھوڑا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہم ان کتب کو قرآن کی روشنی میں ریفر کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ساری کی ساری کتاب ہی بدل گئی ہے ۔ان میں اللہ کا کلام بہر حال موجود ہے لوگ تحریف وہیں کرتے رہے ہیں جہاں انہیں ضرورت ہوتی تھی ۔ ان کتب کے اندربڑی حکمت اوربڑی روحانیت موجود ہے ، اگر آپ انہیں قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو پھر ان کاحوالہ مضر نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ضروری تو بالکل بھی نہیں بلکہ اگر وہ نہ پہنیں توزیادہ بہتر ہے۔ ان کو صرف اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر چاہیں تو سونے چاندی کے زیورات پہن سکتی ہیں کیونکہ آرائش عورت کے لیے ایک فطری چیز ہے ۔ نہ پہنیں توکوئی مضائقہ نہیں بلکہ بہترہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں۔ نماز روزے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔روزے سال میں ایک بار آتے ہیں اور نماز پڑھنے میں پانچ دس منٹ لگتے ہیں ۔ باقی سارا وقت معاشی جدوجہد کے لیے ہے۔معاش کی جدوجہد فطرت کا تقاضا ہے اور اس کے لیے اللہ نے انسان کو پوری صلاحیت دی ہے ، اسے اپنے رب سے مایوس ہونے کے بجائے اس پربھروسہ رکھنا چاہیے اور نئے نئے راستے نکالنے چاہیےں ۔ نماز روزہ اسے اللہ سے جوڑتا ہے اور اللہ سے جڑنا معاشی جدوجہد میں بھی معاون و مددگار ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ان کی یہ رائے قرآن کے بالکل خلاف ہے ۔ اجتہاد ان معاملات میں ہوتا ہے جہاں قرآن وسنت بالکل خاموش ہوتے ہیں ۔جہاں خدا نے قانون بیان کر دیا ہے وہاں سرتسلیم خم کرنا چاہیے۔ وراثت کاقانون ہی صحیح قانون ہے۔ اور صحیح معاشرت کے اندرایک فطر ی چیز بھی۔ لڑکی نے بہرحال دوسرے گھر میں جاناہوتا ہے اور ادھر سے بھی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اسے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ مردوں پر معاش کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس لیے ان کا حصہ بھی زیادہ رکھا گیا ہے ۔یہ حصہ بھی بیٹی کے معاملے میں ہے ، اس میں عورت اور مرد کی کوئی تفریق نہیں کیونکہ ماں اور باپ کا حصہ برابر ہے۔ یعنی جہاں معاش کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس حساب سے اس کاحصہ بھی زیادہ رکھا گیاہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک صاحب علم کے لیے یہ بات معلوم کرنا مشکل نہیں ہوتا ۔ قرآن مجید ، رسول اللہﷺ کا اسوہ اور مختلف مواقع اور چیزوں کے بارے میں آپ کی تاکید کی روشنی میں یہ بات بآسانی معلوم ہوجاتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ خالصتاً اجتہادی مسئلہ ہے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ بچے کی پیدائش میں چونکہ انسان واسطہ بنتا ہے ۔ اس لیے اس کو عقل سے کام لینا چاہیے اور ان تمام چیزوں کا لحاظ کرنا چاہیے جن کا لحاظ کوئی بھی عاقل آدمی کوئی کام کرتے ہوئے کرتا ہے ۔ کھیتی اللہ اگاتے ہیں لیکن ہر کسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی کھیتی اگانے کے بارے میں عقل سے کام لے ۔اگر وہ بے احتیاطی سے بیج پھینک آئے گا اور ضروری احتیاطوں اور تدابیر اور زمین کی صلاحیت کا لحاظ نہیں کرے گا تو وہ اپنے لیے اللہ کے قانون کے مطابق بہت سے مسائل پیدا کر لے گا۔ بچوں کی پیدائش میں بھی یہ ضروری ہے۔ پیدائش کے بارے میں یہ خیال بالکل غلط ہے کہ بچہ تو اللہ نے دینا ہے انسان کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ انسان چونکہ واسطہ ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ بیوی کی صحت ، بچے کی تربیت اور اپنی ذمہ داری کا لحاظ کرے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جسمانی اور روحانی دونوں طہارتیں مقصود ہیں لیکن اگر پانی میسر نہیں ہوتا تو پھر اس کا علامتی اظہار کیا جاتا ہے ۔جب جسمانی طہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا تو پھر روحانی حاصل کی جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: معلم کی صحبت کا کوئی بدل نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اگر محض کتاب سے سیکھے تو اس کے اندر بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ معلم کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر کسی علم میں معلم میسر نہیں ہے تو پھر آدمی بہت محنت کر کے اس کی کچھ کمی پوری کر لیتا ہے لیکن استاد استاد ہی ہوتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صحابہؓ نے ان جگہوں کواپنا مستقر بنالیا ۔ وہ کسی تبلیغی سفر پر نہیں گئے تھے۔ جہاں گئے سراپا تبلیغ تھے اور یہ کام مسلمانوں کو اس وقت بھی کرنا چاہیے مسلمان اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں ، انکے اس جذبے کو بیدار کیجیے کہ وہ گردو پیش میں اللہ کادین پہنچائیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بہنوں کی شادی اس کی ذمہ داری ہے۔لیکن بہرحال ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنا چاہیے بیوی کو سمجھائیے کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے نہ سمجھے تو مناسب تادیب کی جا سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ انتہائی ناپسندیدہ بات ہے ۔ طب جیسے مقدس پیشے سے وابستہ افراد کا یہ کردار نہیں ہونا چاہیے ۔ ان کو میرٹ کی بنیاد پر ہر بات بتانی چاہیے ۔ نہ علم کا معاملہ کمیشن پر ہو سکتا ہے نہ صحت کا معاملہ ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی عذر ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عذر کے بغیر اس کو اپنا معمول نہیں بنایا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نہیں ،کہیں نہیں کہا اور یہ کہا بھی نہیں جا سکتا یعنی ایک گروہ اگر شرک کا اقرار نہیں کرتا تو اس کو بہرحال اہل توحید میں سے سمجھا جائے گااور اس کے شرک پر اسے متنبہ کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ یہ شرک ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ چیز قرآن کا براہ راست موضوع نہیں کہ وہ اس پر گفتگو کرے البتہ قرآن کے اشارات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تخلیق کے دو ادوار رہے ہیں۔ایک دور وہ ہے جس میں تمام جانداروں کی تخلیق کا عمل براہ راست زمین کے پیٹ میں ہوتا تھااور تناسل کا سلسلہ اللہ تعالی نے جاری نہیں کیا تھا۔ اس مرحلے میں بڑی بڑی مخلوقات پیداہوئی ہیں اور انسان سے ملتی جلتی مخلوقات بھی۔ ایک حیوانی وجود جس طرح ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے اسی طرح زمین کے پیٹ میں مختلف مراحل سے گزرتا تھا اور پھر زمین کے پیٹ کو شق کر کے باہر آجاتا تھا ۔ ایک لمبے عرصے تک تخلیق کا یہ طریقہ رہا ہے ۔ اصل میں اسی کے مطالعے نے ڈارون کو بعض ایسے مقامات میں سرگرداں کیا اور موجودہ زمانے کا علم بھی سرگرداں ہے کہ جس میں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسری مخلوق زمین کے اندر سے پھوٹ رہی ہے ۔دوسرا دور وہ ہے جس میں تناسل کا سلسلہ کر دیا گیا ۔یعنی جو پراسس زمین میں ہوتا تھا اس کو condense کر کے انسان کے ا پنے وجود میں رکھ دیا گیا ۔ پہلے مرحلے میں جو مخلوقات وجود پذیر ہوئی ہیں وہ ایک تدریجی ارتقا کے ساتھ وجود پذیر ہوئی ہیں۔ تناسل کے بعد معاملے کی نوعیت اس سے ذرا مختلف لیکن دوسرے طریقے کے ارتقا پر آگئی کہ جس میں ایک قطر ہ آب مختلف مراحل سے گزر کر ایک جیتا جاگتا انسان بن جاتا ہے ۔ میرے نزدیک یہ مراحل قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتے ہیں اور اگر اس بات کو صحیح طرح سمجھ لیا جائے تو علم جدید کی بہت سی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ اگر محسوس کرتے ہیں کہ پاکیزگی حاصل ہو گئی ہے اور منہ صاف ہو گیا ہے تو اتارنے کی ضرورت نہیں ۔ اگر محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تو اتار لیجیے ۔اس میں شریعت کا کوئی واضح حکم نہیں ہے ، آپ کی اپنی کامن سینس پر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)