جواب: انشورنس کے نظام میں اصولاً کوئی غلطی نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی ادارہ لوگوں سے پیسے لے کر ان کو اس وقت ادا کردے جب پہلے سے طے کردہ ضرورت سامنے آجائے۔ یہ ادارہ کوئی کاروبار کرکے اس سرمائے میں اضافہ کرے اور اس اضافے کی ایک شرح لوگوں کی رقوم میں شامل کرتا رہے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں انشورنس کے ادارے ممکن ہے کہ سرمایہ کاری سودی طریقے پر کرتے ہوں۔ اس صورت میں صرف یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے ادارے سے انشورنس نہ کروائی جائے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی آنکھ ہی اس وقت کھلی ہے جب سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ یہ نماز ‘‘ادا نماز’’ قرار پائے گی ۔ دوسری یہ کہ نماز سستی اور غفلت کی وجہ سے رہ گئی ۔ اس صورت میں یہ نماز قضا ہوگی۔ مکمل نماز سے غالباًآپ کی مراددو سنت اوردوفرض یعنی چار رکعت پڑھنا ہے۔ دو سنت اصل میں نفل نماز ہے اور احناف اسے سنت اس لیے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مداومت کے ساتھ پڑھے ہیں۔ بہرحال ان کا پڑھنا دونوں صورتوں میں لازم نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ادائی کا اجر بہت زیادہ ہے اس لیے دونوں صورتوں ہی میں اسے پڑھنا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: اس معاملے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قضا نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ دوسری یہ کہ اس کوتاہی پر خدا سے توبہ کرنی چاہیے۔آئندہ نمازوں میں پابندی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا فورا ازالہ کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ایک اندازہ قائم کرکے قضا نمازیں پڑھ لینی چاہئیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشورہ یہ ہے کہ سنن کی جگہ اگر یہ نمازیں پڑھ لی جائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالی دونوں کا اجر ادا کر دیں گے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: آپ کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قرآن مجید کی ایک آیت کی مراد سے متعلق ہے اور دوسرا مولوی صاحب کی رائے پر مشتمل۔ جہاں تک آیت کریمہ کا تعلق ہے تو اس میں نجات اخروی کا اصل الاصول بیان کیا گیا ہے۔ ہماری ایمانیات کی اصل صرف یہ ہے کہ ہم اس کائنات کے خالق ومالک کے وجود اور اس کے حضور جواب دہی پر ایمان رکھتے ہوں۔ کتابوں، فرشتوں اور نبیوں پر ایمان اس ایمان کے ایک تقاضے کی حیثیت سے سامنے آتاہے۔(ان تین چیزوں میں بھی اصل کی حیثیت انبیا کی ہے۔ کتابوں اور فرشتوں پر ایمان اس کے لواحق میں سے ہے) لیکن یہ تقاضا ایک ایسا تقاضا ہے جس کے پورا نہ کرنے کا نتیجہ جہنم کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اگر کسی شخص کو یہ واضح ہے کہ فلاں شخص خدا کا پیغمبر ہے تو اس کی نیکیاں اورخدا اور آخرت پر ایمان اکارت چلا جائے گا اگر وہ اس شخص کا خدا کا پیغمبر نہیں مانتا اور اس کی لائے ہوئے دین کو اختیار نہیں کر لیتا۔اس وضاحت سے آپ یہ بات سمجھ گئے ہوں گے کہ مولوی صاحب کی بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ہر وہ نیک غیر مسلم جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیغمبر ہونے کا یقین ہے وہ اگر مسلمان نہیں ہوتا تو وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اس کی ساری نیکیاں رد کر دی جائیں اور عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: تفصیلی معلومات کے لیے آپ مولانا فہیم عثمانی صاحب کی کتاب حفاظت وحجیت حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔ مختصراً عرض ہے کہ تاریخ میں متعدد صحابہ کے نام آتے ہیں جن کے پاس لکھی ہوئی احادیث کا ذخیرہ موجود تھا۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو لکھنے کی اجازت دی اور بعض لوگوں کی لکھ کر دینے کی فرمایش بھی پوری کی۔بہر حال دور اول کی جو تصنیف اب بھی دستیاب ہے وہ موطا امام مالک رحمہ اللہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: دور اول کی تصنیفات میں سے موطا امام مالک رحمہ اللہ ہی دستیاب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا سال وفات۱۷۹ھ ہے۔ غرض یہ کہ یہ دوسری صدی ہجری کی تصنیف ہے۔ کتب حدیث کا ماخذ مختلف راوی ہوتے ہیں۔ بعض راوی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس احادیث لکھی ہوئی صورت میں بھی ہوتی تھیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن اس امت کواجماع وتواتر سے منتقل ہوا ہے اور حدیث خبر واحد ہے۔ قرآن قطعی ہے اور حدیث ظنی ہے۔ حدیث سے قرآن کے لفظ ومعنی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی جبکہ قرآن کی روشنی میں حدیث کو سمجھا جائے گا اور تطبیق کی کوئی صورت پیدا نہ ہو تو اسے مخالف قرآن قرار دیا جائے گا اور اس سے دین میں استشہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ کوئی حدیث قرآن کی کسی آیت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔سوال: امام بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کتنے سال بعد بخاری لکھی اور اس کا ماخذ کیا تھا؟جواب:امام بخاری کا سال وفات۲۵۶ھ ہے۔ اس طرح یہ تیسری صدی ہجری کے نصف اول کی تصنیف معلوم ہوتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہ کتاب رواۃ سے احادیث لے کر مرتب کی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:بخاری کی حدیثوں کی گنتی میں فرق ہے ۔ ابن حجررحمہ اللہ کی گنتی کے مطابق بخاری میں ۵۷۵۶روایات ہیں۔ چند روایات کو چھوڑ کر بخاری کی روایات صحیح کے محدثانہ معیار پر پوری اترتی ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیشتر مثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید برآں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو وہ قبول نہیں کی جا سکتی۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: کتب حدیث میں کچھ روایات کو چھوڑ کر تمام روایات روایت بالمعنیٰ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو راوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ حدیث کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محدث کے نزدیک وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کوئی فن مرتب ہو جاتا ہے تو اس کے بنیادی الفاظ اصطلاح کے طور استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لغوی مفہوم پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: روایت کا لفظ راوی کی نسبت سے بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔ یعنی موقع استعمال کے پہلو سے یہ دو لفظ ہیں۔یہ اطلاق کے پہلو سے انھیں مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ انھی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت پر عمل کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً یاایہا الذین آمنوا اطیعواللہ واطیعواالرسول……(النساء۴:۵۹) وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ جب کسی ہستی کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کرتے ہیں تو وہ دین میں ان پر ایمان لانے والوں کے مقتدا ہوتے ہیں۔یہ بات آپ سے آپ واضح ہے اس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (النساء۴:۶۴) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دین پر عمل کرتے تھے۔ دین کے ساتھ وابستگی کے تقاضے کو پورا کرتے تھے تو اس میں کمال بندگی اور حسن تعمیل کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی پہلو سے ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ظاہر ہے جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنت قرار نہ دیں اسے کوئی اور کیسے سنت قرار دے سکتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ایک مسلمان کا مؤاخذہ صرف انھی امور پر ہو گا جو اخلاق کی رو سے اس پر لازم آتے ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین قرار دیا ہو۔ کسی دوسرے کے کسی عمل کو کوئی دینی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ جوشخص خود سے کسی عمل کو دین قرار دیتا ہے وہ بدعتی ہے۔ جو اس پر عمل نہیں کرتا اس نے اپنا دین محفوظ رکھا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: یہ سوال ایک اصولی حقیقت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنی بات کو مثال سے واضح کرتا ہوں۔ اخبارات میں آئے دن مقدمات کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آپ انتظامیہ سے متعلق ہیں اور آپ قانونی پروسیجر ،دفعات اور اخبارات کی خبروـں میں فرق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان خبروں سے قانونی ضوابط کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمات کے فیصلوں سے متعلق روایات واقعات کا محض جزوی بیان ہیں۔ راوی نے معلوم نہیں واقعے کے کن اہم پہلوؤں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ زنا کی سزا قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حرابہ کی سزا بھی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ہم ذرہ برابر شبے کے بغیر یہ کہتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون اور انصاف کے سب تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مجرموں کو سزائیں دی ہیں۔جس مجرم کو حرابہ کی سزا دی گئی ہے وہ یقینا اسی سزا کا مستحق تھا۔ کسی راوی کے بیان سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔ اصولی بات یہ ہے کہ واقعات سے قانون اخذ کرنا درست نہیں۔ قانون کی روشنی میں واقعات کو سمجھا جائے گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: میں نے ریاض السنہ کا متعلقہ حصہ دیکھا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر اور فجر کی نماز کی طرف خصوصی توجہ دلانا مقصود ہے۔ اگر روایات کو اسی معنی میں سمجھا جائے تو یہ بات درست ہے اس لیے کہ یہ دونوں نمازیں زیادہ غفلت کا شکار ہو تی ہیں۔ آپ نے روایات سے جو معنی اخذ کیے ہیں الفاظ کی حد تک ان کی نفی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن پانچ نمازیں جس قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں اور ان کی فرضیت جس طرح ہر شک وشبے سے بالا ہے ’روایت کے یہ معنی قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم راوی کو قصور وار ٹھہرائیں کہ اس نے بات صحیح طریقے سے بیان نہیں کی۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہے لیکن ایک اشتراک کے باعث لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔‘ صلی’ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالی کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک اللہ تعالی خالق اور بے نیاز ہیں۔ لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماوی بھی ہیں۔ لہذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورہ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں ‘ہواللہ احد’ وہ یکتا ہے یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ‘اللہ الصمد’ اللہ سب کا سہارا ہے۔ یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت میں کوئی قطعی چیز نہیں ہے جو اس میں مانع ہو۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ غیر مسلم کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ہر مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ صرف اسی بات کو دین سمجھے اور اسی کو دین کی حیثیت سے اختیار کرے جس کے بارے میں اس کی رائے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتائی ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس کی یہ رائے براہ راست مطالعے سے بنی ہے یا اس نے یہ بات کسی عالم دین سے جانی ہے۔ یہ رائے اگر غلط بھی ہو تو امید ہے اجر ملے گا۔ بشرطیکہ یہ آدمی اپنی غلطی واضح ہونے کی صورت میں اپنی رائے اور اپنے عمل کو تبدیل کرنے کے لیے ہمہ وقت تیارر ہے اور اسے صرف صحیح دین پر عمل کرنے پر اصرار ہو۔ دین میں گمان اور تمنا پر عمل خطرناک راستہ ہے۔ دین کے ساتھ خلوص بنیادی شرط ہے اس کے ساتھ اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ کئی غلطیاں نظر انداز کر دی جائیں گی۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن مجید میں اہل جہنم کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے۔ اس میں اتباع کرنے والے اپنے بڑوں سے کہتے ہیں ہم تمھارے پیرو تھے کیا تم ہمارے عذاب میں سے ہمارا کچھ بوجھ ہلکا کرو گے۔ وہ جواب میں کہیں گے کہ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو ہم تمھیں بھی راہ ہدایت دکھاتے۔ اب ہمارے لیے یکساں ہیں ہم چیخیں چلائیں یا صبر کریں ۔ فرار کی کوئی راہ نہیں۔ (ابراہیم۱۴:۴۱) اس مکالمے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر آدمی اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے ۔ اللہ تعالی نے ہر آدمی کو جو سوجھ بوجھ دی ہے وہ اسے استعمال کرتاہے اور اسی بات کو اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک درست ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے کیے کا انجام بھی خود ہی دیکھے گا۔ اگر کسی کو علمی غلطی لگی ہے اور وہ حق کا سچا طالب ہے تو اس کا عذر اللہ کی رحمت سے ہو گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ایک ملک جہاں مجرموں سے نمٹنے کا نظام قائم ہو وہاں خود بدلہ لینا انارکی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ ہمارے جیسے معاشروں میں عام ہے۔ یہ اس بات کا عذر نہیں بنانی چاہیے کہ ہم خود ہی کسی کو مجرم ٹھہرائیں اور خود ہی اسے سزا دے ڈالیں۔ بہتر یہی ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیاجائے۔ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ حالات کو بدل دے اور مجرم اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں۔ اگر اس کی مصلحت یہی تھی کہ اس دنیا میں ایسا نہ ہو توآخرت میں مجرم بھی اپنے انجام کو پہنچے گا اور مظلوم بھی وہ کچھ پالے گا جس کے بعد کوئی شکایت باقی نہ رہے گی۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن مجید نے لونڈیوں اور غلاموں کے نظام کو واضح مصالح کے پیش نظر یک قلم ختم نہیں کیا۔ ایسے معاشرے جہاں غلام ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں اور ہر گھر میں ان کے معاشی سیٹ اپ کا حصے بنے ہوئے ہوں۔ غلامی کو یک قلم ختم کرنا انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بے سہارا اور بے گھر کر دینے کے مترادف تھا۔ اللہ تعالی نے جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کو غلام بنانے کا آپشن ختم کر دیا اور یہ کہا کہ انھیں فدیہ لے کر یا احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ موجود غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دے کر ان کے لیے آزادی حاصل کرنے کی راہ پیدا کر دی۔خلافت راشدہ میں انھی دونوں ضوابط پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ مشکل یہ پیش آئی کہ اسلام سے باہر کی سوسائٹی میں غلام بنانے کا عمل جاری رہا اور مکاتبت کی راہ سے فائدہ اٹھانے کا عمل بھی بہت محدود پیمانے پر ہوا چنانچہ آئندہ کئی صدیوں تک غلامی کا رواج قائم رہا۔غلام بنانا ایک کریہہ عمل ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے جائز رکھتے۔ سورہ محمد (۴۷:۴) کی محولہ آیت نے واضح طور پر غلام بنانے سے روک دیا ہے۔ جاری غلامی کو ختم کرنے کی جو کوشش امویوں اور عباسیوں کو کرنی چاہیے تھی وہ انھوں نے نہیں کی اور اس کا اعزاز امریکیوں کو حاصل ہوا کہ انھوں نے اس مکروہ کاروبار کو بالکلیہ ختم کر دیا۔ کسی کو غلام بنانا ایک ناپسندیدہ فعل ہے اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے تو اس کی تخصیص کی طرف نہیں ہے۔ جہاد سے یہاں ان کے نزدیک وہ مشقتیں اور تکالیف ہیں جو دین کی خاطر اٹھائی جارہی تھیں۔سبل سے مراد دنیا اورآخرت کی کامیابی کی راہوں کا کھلنا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معاملہ صحابہ ہی کا زیر بحث ہے۔ لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ عام ہے۔ یہ توفیق ایزدی کا مژدہ ہے جس کا خدا کی رضا کا ہر طالب مستحق ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:اگر بڑی آزمایش یا سخت آزمایش کا مصداق صرف جسمانی تعذیب کو قرار دیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعواے ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی۔ معاشی بھی ہوتی اور معاشرتی بھی۔ مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوطائف کے سفرمیں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہر ادی اور وہ دوزخ میں چلا گیا آخرت کے نقطہ نظر سے دیکھیں دونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالی ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعوی ہے۔ ظاہر ہے انبیاء جس سطح پر اللہ تعالی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخرو نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں انھیں یقینا اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماً بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: آزمایش کے دو پہلو ہیں۔ ایک آزمایش یہ کہ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں اس کی حقیقت اچھی طرح متعین ہو جائے۔دوسرا یہ کہ دین پر عمل کرتے ہوئے تزکیہ نفس کا جو سفر ہم نے شروع کیا ہے وہ بھی تکمیل کو پہنچے۔ ہمارے اخلاق اور دین وایمان پر استقامت ہر لمحے معرض امتحان میں رہتے ہیں۔جب جب آزمایش آتی ہے اور یہ صبر اور شکر دونوں پہلوؤں سے ہوتی ہے اور ہم اس میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں تو یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا زینہ بنتی چلی جاتی ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات درست ہے کہ موـمن کے لیے بلند درجے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ بعض تکلیفیں غفلت سے بیداری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا اظہار بھی ہیں کہ انھوں نے گرتے ہوئے شخص کو سنبھلنے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن آزمایش کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جن میں ایک دو امور کی طرف اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کے واقعات میں بھی ہوا ہے۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ اس میں امتحان اور اس کے لوازم کی حیثیت سے ترغیب وترہیب کے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ لیکن ہر واقعے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہمارے ادراک کے لیے ممکن نہیں ہے حضرت موسی علیہ السلام کے اس سفر سے ایک یہ بات بھی واضح ہوتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: لاہوت غیر مادی عالم کے لیے بولا جاتا ہے۔ فرشتے، عرش ، لوح محفوظ اور امور تکوینی سب کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ ملکوت خدا کی بادشاہی کے معنی میں آتا ہے۔ جبروت قہر وقوت کے معنی میں ہے۔
خدا کی نسبت سے اس میں بھی کامل اقتدار ہی کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اہل تصوف کے ہاں ممکن ہے ان کا کوئی دوسرا مفہوم رائج ہو۔
(مولانا طالب محسن)