جواب: قرآن مجید نے لونڈیوں اور غلاموں کے نظام کو واضح مصالح کے پیش نظر یک قلم ختم نہیں کیا۔ ایسے معاشرے جہاں غلام ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں اور ہر گھر میں ان کے معاشی سیٹ اپ کا حصے بنے ہوئے ہوں۔ غلامی کو یک قلم ختم کرنا انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بے سہارا اور بے گھر کر دینے کے مترادف تھا۔ اللہ تعالی نے جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کو غلام بنانے کا آپشن ختم کر دیا اور یہ کہا کہ انھیں فدیہ لے کر یا احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ موجود غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دے کر ان کے لیے آزادی حاصل کرنے کی راہ پیدا کر دی۔خلافت راشدہ میں انھی دونوں ضوابط پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ مشکل یہ پیش آئی کہ اسلام سے باہر کی سوسائٹی میں غلام بنانے کا عمل جاری رہا اور مکاتبت کی راہ سے فائدہ اٹھانے کا عمل بھی بہت محدود پیمانے پر ہوا چنانچہ آئندہ کئی صدیوں تک غلامی کا رواج قائم رہا۔غلام بنانا ایک کریہہ عمل ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے جائز رکھتے۔ سورہ محمد (۴۷:۴) کی محولہ آیت نے واضح طور پر غلام بنانے سے روک دیا ہے۔ جاری غلامی کو ختم کرنے کی جو کوشش امویوں اور عباسیوں کو کرنی چاہیے تھی وہ انھوں نے نہیں کی اور اس کا اعزاز امریکیوں کو حاصل ہوا کہ انھوں نے اس مکروہ کاروبار کو بالکلیہ ختم کر دیا۔ کسی کو غلام بنانا ایک ناپسندیدہ فعل ہے اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)