جواب: جنوں کے بارے میں آیت أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْاالزمر39، 71 کی نقل کردہ تفسیر سے آپ کے ذہن میں جو الجھن پیدا ہوگئی ہے، اس کو آپ خود حل کر سکتے ہیں، اگر دو باتوں پر غور کریں۔
اول یہ کہ اگر دو گروہوں کو ایک مجموعہ کی حیثیت سے خطاب کیا جا رہا ہو اور کوئی ایک چیز ان میں سے کسی ایک کے متعلق ہو، تو اس مجموعی خطاب کی صورت میں کیا اس چیز کو پورے مجموعہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہے؟ اگر کسی عبارت میں اسے مجموعے کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو تو کیا اس سے یہ استد لال کرنا صحیح ہو گا کہ یہ سرے سے دو گروہوں کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک گروہ ہے؟ فرض کیجیے کہ ایک مدرسے میں کئی کلاسیں ہیں قصور ان میں سے ایک کلاس نے کیا ہے، مگر ہیڈ ماسٹر تادیباً تمام کلاسوں کو اکٹھا کر کے ان سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اے مدرسے کے بچو! تم میں سے کچھ لڑکوں نے یہ قصور کیا ہے‘‘ تو کیا اس سے استد لال کیا جا سکتا ہے کہ اس مدرسے میں سرے سے کلاسیں ہیں ہی نہیں بلکہ ایک ہی کلاس پائی جاتی ہے؟ اگر یہ استد لال صحیح نہیں ہے تو نقل کردہ استد لال بھی صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جن اور انس کے مجموعے کو خطاب فرما رہا ہے۔ مجموعے میں سے ایک گروہ کے اندر انبیا آئے ہیں۔ لیکن انبیا نے تبلیغ دین دونوں گروہوں میں کی ہے اور ان پر ایمان لانے کے لیے دونوں گروہ مکلف ہیں۔ اس لیے دونوں گروہوں سے مجموعی خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ تم میں سے انبیا آئے ہیں۔ محض اس طرز خطاب سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں گروہ الگ الگ نہیں ہیں بلکہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب قرآن مجید متعدد مقامات پر صاف صاف یہ بتا چکا ہے کہ جن اور انس دو بالکل الگ قسم کی مخلوق ہیں، تو پھر محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ سے یہ مفہوم نکالنا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کہ جن بھی انسانوں ہی میں سے ہیں۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات کو لیجیے:
(۱) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 26 ) وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ( 27 ) (الحجر27:15۔26)
’’ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے آگ کی لپٹ سے پیدا کیا تھا‘‘۔
(۲) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ( 14 ) وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ ( 15 ) (الرحمٰن : 15:55۔14)
’’انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجتی ہوئی پختہ مٹی سے پیدا کیا اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے‘‘۔
(۳) وَجَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء الْجِنَّ (الانعام100:6)
’’اور لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے جن شریک ٹھہرالیے‘‘۔
(۴) وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (الجن6:72 )’’اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے‘‘۔
(۵) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ( الکہف 50:18)
’’اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدہ کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اور وہ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کرگیا‘‘۔
(۶) قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (الاعراف12:7)
’’اس نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے‘‘۔
(۷) يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ (الاعراف27:7)
’’اے بنی آدم ! شیطان ہر گز تمہیں اس طرح فتنے میں نہ ڈالنے پائے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا وہ اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
(۸) يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء (النساء1:4)
’’اے انسانو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں ایک متنفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیں‘‘۔
(۹) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ( 28 ) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ ( 29 ) فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ( 30 ) إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ( 31 ) (الحجر 31:15۔28)
’’اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے پختہ گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ تو جب میں اسے پورا پورا بنادوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ پس ملائکہ سب کے سب سجدہ ریز ہوگئے۔ بجز ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا‘‘۔
ان آیات سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:
اول یہ کہ انسان، بشر، الناس اور بنی آدم قرآن میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اولاد آدم کے سوا قرآن مجید کسی انسانی مخلوق کا قطعاً ذکر نہیں کرتا۔ اس کی رو سے نہ کوئی انسان آدم سے پہلے موجود تھا اور نہ آدم کی اولاد کے ما سوا دنیا میں کبھی انسان پایا گیا ہے یا اب پایا جاتا ہے۔ یہ نوع آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی ہی سے پیدا ہوئی ہے اور اس کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے۔
دوم، یہ کہ جن ایک دوسری نوع ہے جس کا مادہ تخلیق ہی نوع انسانی سے مختلف ہے۔ نوع انسانی مٹی سے بنی ہے اور نوع جن آگ سے، یا آگ کی پھونک سے۔
سوم، یہ کہ نوع جن انسان کی تخلیق سے پہلے موجود تھی۔ اس نوع کے نمائندہ فرد کو نوع انسانی کے پہلے فرد کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس نے انکار کر دیا تھا۔ اس کا استدلال یہ تھا کہ میں من حیث النوع اس سے افضل ہوں کیوں کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور یہ مٹی سے بنایا گیا ہے۔
چہارم، یہ کہ جن ایسی مخلوق ہے جو انسان کو دیکھ سکتی ہے مگر انسان اس کو نہیں دیکھ سکتا۔
پنجم، یہ کہ مشرکین اپنی جہالت کی بنا پر اس مخلوق کو خدا کا شریک ٹھہراتے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
کیا اتنی تصریحات کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ محض أَلَمْ يَأْتِكُمْ مِّنْکُمْ کا خطاب جنوں اور انسانوں کو ایک نوع قرار دینےکے لیے کافی ہے؟ آخر وہ کون سے دیہاتی یا جنگلی یا پہاڑی انسان ہیں جو اولاد آدم سے خارج ہیں اور مٹی کے بجائے آگ سے پیدا کیے گئے ہیں؟ جو آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پائے جاتے تھے جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتا اور وہ انسان کو دیکھ سکتے ہیں؟ جنہیں مشرک انسانوں نے کبھی اپنا معبود بنایا ہے اور اللہ کا شریک ٹھہرا کر ان سے تعوذ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بے تکی تاویلیں صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو قرآن مجید کی پیروی کرنے کے بجائے اس سے اپنے خیالات کی پیروی کرانا چاہتے ہیں۔
جواب: سوال کے پہلے جزو کے جواب میں یہ ذہن نشین کرلیجیے کہ عربی زبان میں تزکیہ نفس کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک پاک صاف کرنا، دوسرے بڑھانا اور نشوونما دینا۔ اس لفظ کو قرآن مجید میں بھی انہی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے پس تزکیہ کا عمل دو اجزاء سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ نفس انسانی کو انفرادی طور پر اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر ناپسندیدہ صفات اور بری رسوم و عادات سے پاک صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ پسندیدہ صفات کے ذریعہ سے اس کو نشونما دیا جائے۔
اگر آپ قرآن مجید کو اس نقطہ نظر سے دیکھیں اور حدیث میں اور کچھ نہیں تو صرف مشکوۃ ہی پر اس خیال سے نظر ڈال لیں تو آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں وہ کونسی ناپسندیدہ صفات ہیں جن کو اللہ اور رسولﷺ دور کرنا چاہتے ہیں اور وہ کونسی پسندیدہ صفات ہیں جن کو وہ افراد اور سوسائٹی میں ترقی دینا چاہتے ہیں۔ نیز قرآن و حدیث کے مطالعہ ہی سے آپ کو ان تدابیر کی بھی پوری تفصیل معلوم ہوجائے گی جو اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور اس کے رسولﷺ نے استعمال کی ہے۔
اہل تصوف میں ایک مدت سے تزکیۂ نفس کا جو مفہوم رائج ہوگیا ہے اور اس کے جو طریقے عام طور پر ان میں چل پڑے ہیں وہ قرآن وسنت کی تعلیم سے بہت ہٹے ہوئے ہیں۔
دوسرے جزو کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے تو عالم بالا کے معاملے میں صرف رسولﷺ کے اعتماد پر غیب کی ساری حقیقتوں کو مان لیا تھا اس لیے مشاہدے کی نہ ان کو طلب تھی اور نہ اس کے لیے انہوں نے کوئی سعی کی۔ وہ بجائے اس کے کہ پردہ غیب کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی ساری قوتیں اس جدوجہد میں صرف کرتے تھے کہ پہلے اپنے آپ کو اور پھر ساری دنیا کو خدائے واحد کا مطیع بنائیں اور دنیا میں عملاً وہ نظام حق قائم کردیں جو برائیوں کو دبانے اور بھلائیوں کو نشونما دینے والا ہو۔
جواب: آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ ’’ُاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْل‘‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے‘‘۔ یہ’’ہمارا ذبیحہ کھایا‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔
جواب: ان حضرات سے دریافت کیجیے کہ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَخُفْیَۃ(اپنے رب کو پکارو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے) کا اگر وہی تقاضا ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں تو یہ نماز کے لیے بلند آواز سے اذان، پھر اعلانیہ مسجدوں میں لوگوں کا مجتمع ہونا، پھر جماعت سے نماز پڑھنا، پھر نماز میں جہری قرات کرنا، یہ سب کچھ بھی تو پھر اس آیت کے خلاف قرار پائے گا۔ نماز اصل میں تو ایک دعا ہی ہے۔ اگر دعا کے لیے اخفا ایسا ہی لازمی ہے اظہار کی کوئی شکل اس میں ہونی ہی نہ چاہیے، تو ظاہر ہے کہ نماز باجماعت کی پوری صورت ہی اس کے خلاف ہے۔
پھر جو کچھ یہ حضرات فرماتے ہیں وہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔ حدیث میں ہم کو نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگی جائے تو ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے اور دعا سے فارغ ہو کر چہرے پر ہاتھ مل لیے جائیں۔ابو داؤد، ترمذی اور بیہقی میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ:
اِنَّ رَبَّکُمْ حَییٌ کَرِیْمٌ یَسْتَحْی مِنْ عَبْدِہٖ اِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَرُدَّھُمَا صِفْراً۔
تمہارا رب بڑا باحیا اور کریم ہے۔ بندہ جب اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردے۔
دوسری روایت میں حضرت عمرؓـ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب دعا مانگتے تھے تو ہاتھ اٹھا کر مانگتے تھے اور اس کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت علی کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ دعا میں ہاتھ اٹھانا اللہ کے آگے عاجزی اور مسکنت کے اظہار کے لیے ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں۔ اس بنا پر بعض علماء نے اس طریقے کو بدعت ٹھہرایا ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیاجائے، اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے اور اگر کبھی کبھی قصداً اس کو ترک بھی کر دیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ خدا سے دعا مانگنا بجائے خود تو کسی حال میں برا فعل نہیں ہوسکتا۔
جواب (1) ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے۔اور محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چاہتا ہےوہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔اپنی غلط خواہش کی وجہ سےیا تو وہ سودی قرض لے گایا کسی ہمدرد کی جیب پر ڈاکہ ڈالے گا۔اور اگر اسے قرض حسنہ مل گیا، جس کی اُمید نہیں ہے، تو ا سے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوگی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے جو محض اپنے نفس کی غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
ب: ایسے شخص کو اپنےلڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہیےجومالی حیثیت سےاسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پاؤں پھیلائیں اور نہ دوسرے کوزیادہ پاؤں پھیلانے مجبور کریں۔اپنے سے بہترمالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خوامخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
ج:یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے، لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتداء کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرام میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذلت کی بات ہوتی تو نبی کریمﷺ اس کو منع فرما دیتے۔
د۔ یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں، ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے، بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے،خدا اور رسول ﷺ کے طریقے پر لوگ آجائیں۔ تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابی بھی نہ رہیں گی۔