ج: قرآن میں قیامت کی صرف ایک نشانی بیان ہوئی ہے اور وہ نشانی بائبل اور تمام الہامی صحیفوں میں بھی بیان ہوئی ہے ۔ اور وہ ہے کہ سیدنا نوحؑ کے پوتوں یاجوج اور ماجوج کی اولاد کا دنیا پر غلبہ ہو جانا۔ قرآن مجید نے یہ کہا ہے کہ غلبہ اس درجہ تک ہو جائے گا کہ من کل حدب ینسلون معلوم ہو گا کہ ہر جگہ سے وہی نکل رہے ہیں یہ شاید ابھی باقی ہے جب ہو جائے گا تو قرآن کہتا ہے کہ قیامت آجائے گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ا س کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں نے اسلام پھیلایا ان کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ بھی قرآن کے احکام ہیں وہ فقہ کی صورت میں نکال لیے گئے ہیں باقی ثواب کمانے کی کتاب رہ گئی ہے نہ بھی سمجھا توکیا فرق پڑتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بزرگوں کے درمیان ایک معاملہ ہوا ، آپ اس کو کیوں اچھالنا چاہتے ہیں؟ڈاکٹر اسرا ر صاحب نے اس معاملے کی پوری روداد لکھ دی ہے جس میں طرفین کا موقف بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہو گیاہے۔ اس میں انہوں نے طرفین کی خط و کتابت بھی نقل کر دی ہے اس کو دیکھ کر آپ کوئی رائے قائم کر لیجیے ۔جسطرح مجھے رائے قائم کرنے کا حق ہے اس آپ کو بھی حق حاصل ہے۔ دونوں ہمارے بزرگ ہیں اس لیے دونوں کااحترام قائم رہنا چاہیے ۔اختلاف توہو ہی جاتا ہے لیکن اس سے عزت و احترام میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اصل میں بات یہ ہے کہ والدین جب اپنی بیٹی کے گھر میں جاتے ہیں تو گھر کا قوام چونکہ ایک دوسرا شخص ہوتا ہے تو ایک فطری حجاب پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس فطری حجاب کو تبدیل کرنا مشکل ہے ۔ البتہ ہمار ے ہاں یہ بات جہالت کی حد تک پہنچ جاتی ہے تو اس کو درست کرنا چاہیے۔ جس طرح والدین اپنے آپ کو بیٹے کے گھرمیں باوقار محسوس کرتے ہیں ویسے وہ بیٹی کے گھر میں محسوس نہیں کرتے ۔ یہ ایسی چیز ہے کہ انسانی تمدن میں بڑی فطری طریقے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کو جہالت کی حد تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے ۔ والدین کے لیے بیٹیاں بھی ویسی ہی اولاد ہیں اور بیٹیوں کے لیے والدین بھی اسی طرح والدین ہیں لہذا ان کی خدمت کرنا، ان سے محبت کرنا ،ان کی کسی تکلیف میں ان کا ساتھ دینا بھی فطری بات ہے اوراگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو ان کو اپنے گھر میں رکھنا بھی مستحسن اقدام ہے۔ یہ جس طرح بیٹوں کا معاملہ ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی معاملہ ہے ۔ہمارے ہاں جہالت اس امر میں آڑے آ جاتی ہے تا ہم فطری حجاب بہر حال موجود رہتا ہے ۔بیٹی بہرحال ایک دوسرے گھرمیں چلی جاتی ہے اور اس کووہاں ایک نئی زندگی شروع کرنا ہوتی ہے ، وہاں وہ والدین کے لے ویسی منفعت کا باعث نہیں بن سکتی جیسے بیٹے بن سکتے ہیں اسی وجہ سے میراث میں اس کا حصہ کم رکھا گیا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اسلام یہ بتانے کے لیے نہیں آیا کہ تفریح کیا ہوتی ہے ۔جس طرح کھانا پینا اورجبلی و جنسی تقاضے پورے کرنا انسانی فطرت ہے ،اسی طرح تفریح بھی انسانی فطرت ہے ۔ اسلام فطرت کے معاملات کی وضاحت نہیں کرتا اس لیے کہ انسان خود ہی ان سے کما حقہ آگاہ ہوتا ہے البتہ جہاں کہیں انسان فطرت سے انحراف کرتا ہے وہاں اسلام صحیح راہ واضح کر دیتا ہے ۔
اسلام تو صرف یہ بتائے گا کہ تفریح کی وجہ سے اخلاقی حدود پامال نہیں ہونے چاہییں۔ جیسے بسنت کا معاملہ ہے ، یہاں اسلام یہ نہیں بتائے گا کہ آپ بسنت منائیں یا نہ منائیں وہ یہ بتائے گا کہ جو تفریح بھی آپ کرنا چاہتے ہیں اس میں اخلاقی حدود قائم رہنی چاہییں۔ مذہب کا دائرہ اصل میں ہے ہی یہ کہ وہ آپ کی اخلاقی تربیت کرتا ہے ۔جیسے اسلام معیشت کا کوئی نظام نہیں دیتاالبتہ یہ واضح کرے گا کہ آپ کی معاشی جدوجہد سے کوئی اخلاقی اصول قربان نہیں ہونا چاہیے۔یہی معاملہ سیاست کا ہے، انسان نظام خود بناتا ہے اسلام تو یہ واضح کرتا ہے کہ اصول یہ ہے اور اخلاقیات کا پیمانہ بہر حال ملحوظ رہے ۔اس امر کونہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے کتاب لکھی ہے ‘‘ اسلام کا نظریہ جنس’’ ،‘‘ اسلام کا نظریہ تفریح’’ یہ کیا چیز ہے ؟ تفریح ایک انسانی چیز ہے اورہر جگہ اورہرمعاشرے میں وجود پذیر ہوگی۔ آپ کوصرف یہ دیکھنا ہے کہ جو کچھ بھی آپ کرنے جار ہے ہیں اس میں کوئی اخلاقی مسئلہ تو نہیں۔ بس اسلام یہاں مداخلت کرتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ ہماری روایات سے متصادم ہے۔آداب کا خیال کرنا چاہیے البتہ ممانعت کی کوئی آیت یاحدیث میر ے علم میں نہیں ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سورہ بقرۃ میں بڑی تفصیل سے اللہ نے یہ بیان کیا ہے اور اس کو مسلمانوں کا کلمہ جامع قرار دیا ہے کہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ لا نفرق بین احد من رسلہ ہم اللہ کے پیغمبروں کے مابین ہر گز کوئی تفریق روا نہیں رکھتے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پر فضیلت نہیں ہے۔ اس کا جواب بھی اللہ نے دیا ہے کہ میں نے ہر پیغمبر کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت دی ہے ، کسی کو کسی پہلو سے ، کسی کو کسی پہلو سے ۔لیکن یہ کہ کسی کوکسی پر یا سب پر مطلق فضیلت حاصل ہے اس طرح کی بات نہ قرآن نے کبھی کہی ہے نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہے۔ قرآن مجید نے مثال دے کر بتایا ہے کہ سیدنا موسیؑ کو ہم نے ان معاملات میں سب نبیوں پر فضیلت دی ہے ، سیدنا مسیحؑ کو ان ان معاملات میں سب نبیوں پر فضیلت دی ہے اور خود رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے سے جب بیان فرمایا تو یہ فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے ۔ یہی صحیح طریقہ ہے ۔اس معاملے میں ہمارے ہاں عام طور سے جہالت پائی جاتی ہے اور اس طرح کی نعتیں بن گئہیں کہ‘‘سا رے نبی تیرے در کے سوالی ’’ نہ یہ دین ہے، نہ یہ قرآن ہے، نہ یہ حدیث ہے ،نہ یہ پیغمبروں کا طریقہ ہے اور نہ مسلمانوں کا طریقہ ہے۔ہمارا جو کلمہ جامع ہے وہ یہی ہے کہ لا نفرق بین احد من رسلہ ہم اللہ کے پیغمبروں کے مابین اس طرح کی کوئی تفریق نہیں کرتے اور تلک الرسل فضلنا سے مراد بھی یہ ہی ہے کہ جو ان کی فضیلتیں اللہ نے بیان کی ہیں وہ ہر ایک کے لیے ثابت ہیں۔ہر کوئی کسی نہ پہلوسے فضیلت کاحامل ہے ۔ سب ہمارے پیغمبر ہیں اور سب ہمارے لیے یکساں قابل احترام ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جو آدمی جس کلچر میں پیدا ہوا ہے ، انگریز ہے یا امریکی ، اگروہ مسلمان ہو گیا ہے تو آپ اس سے صرف ان باتوں کا تقاضا کریں گے جن باتوں کا تعلق آپ کے دین کے احکام سے ہے ۔ لباس کی وضع قطع دین کے احکام میں سے نہیں ہاں اگر اس میں کوئی بے حیائی ہو تو یہ دین کا مسئلہ ہے ۔ اس کے بارے میں اسے توجہ دلائی جائے گی کہ وہ اس بے حیائی کو دورکرے۔اسلام اسے اس کے قومی لباس ، یا زبان یا معاشرتی طریقوں سے نہیں ہٹاتا۔وہ ان کو اختیار کرتے ہوئے بھی اچھا مسلمان بن سکتا ہے۔ ہاں اس کے اندر وہ تبدیلیاں آنی چاہییں جو تبدیلیاں واقعتا اسلامی تہذیب کا تقاضا ہیں۔مثلاانسان کی زبان پر الحمدللہ اور ماشاء اللہ جاری ہو جانا چاہیے۔ اس کی زبان پر دعائیں آجانی چاہییں۔ نماز کے لیے تیاری اور اہتمام کا جذبہ پیدا ہوجانا چاہیے۔ایسی باتوں میں اگر کوئی چیز رکاوٹ بن رہی ہے تو اسے چھوڑنا چاہیے۔ اپنے شب وروز کے اوقات کو اسے نئے سرے سے ترتیب دینا چاہیے تاکہ اس کی زندگی نمازوں کے لحاظ سے بسرہوسکے۔اسطرح کی باتیں اسے بتانی کی ہیں۔میرے نزدیک اگر اس کے نام میں کوئی خرابی نہیں ہے تو وہ بھی تبدیل کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مشرکین عرب کے نام تبدیل نہیں کروائے البتہ کسی نام میں کوئی خرابی تھی تواسے آپ نے تبدیل کروایا ہے مثلا اگر کسی کا نام عبدالعزی ہے تو وہ تبدیل ہونا چاہیے کیونکہ یہ بت کے نا م پر رکھا گیا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر غیر مسلموں کے نام بھی پیغمبروں کے نام پر ہوتے ہیں ، امریکی اور برطانوی جو عیسائی معاشر ے ہیں ان میں یہ بات عام ہے ۔اسطرح کے نام بھی تبدیل کروانے کی ضرورت نہیں۔ضرورت توصرف اس امرکی ہوتی ہے کہ اسے اسلامی شرم وحیا نصیب ہوجائے ، روح و جسم کی پاکیزگی حاصل ہو جائے اور اخلاق وکردارمیں اللہ کی رضا منتہائے مقصود بن جائے۔اخلاق و کردار تو غیرمسلموں کے ہاں بھی ہوتاہی ہے لیکن وہاں عام طورسے اللہ مقصودنہیں ہوتا بلکہ انسانیت کی فلاح یا کوئی اور اسی طرح کا مقصد ہوتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: تعلیم ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے اسی طرح اپنے مذہب کی اہم باتوں پر عمل کرنے کاحق بھی بنیادی حقوق میں سے ہے ۔ اس وجہ سے میرے نزدیک فرانس کی حکومت کا یہ فیصلہ جابرانہ ہے اور اس کا اثر صرف مسلمانوں پر نہیں سکھوں پر بھی پڑ رہا ہے ۔ اس طرح کے معاملات میں باقی قوموں نے وسعت اختیار کی ہوئی ہے ان کو بھی کرنی چاہیے ۔اس مسئلے میں جواحتجاج ہو رہا ہے میں تواس کاحامی ہوں۔البتہ اس احتجاج کو تشدد کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کلچر اور تہذیب و تمدن وہ ظرف ہیں جن میں دین سماتا ہے اوریہ وہ سٹیج ہیں جہاں دین اپناظہور کرتا ہے جب بھی کوئی دین آتا ہے تو وہ غیر جانبدار یا بے جان ہوکر نہیں پڑ رہتا بلکہ وہ انسان کے وجود سے متعلق ہو تا ہے۔انسان کی شخصیت میں اس کا ظہور ہوتاہے۔اور انسان ایک کلچرل اور معاشرتی وجود ہے وہ اپنا اظہار کرتا ہے لباس میں، زبان میں ،رہن سہن کے طریقوں میں،ملنے جلنے کے آداب میں، تہواروں میں، موسموں میں ،سماجی تقریبات میں۔ دین بھی آخرکسی چیزمیں اپناظہور کرے گا اوروہ انہی چیزوں میں اپنا ظہور کرتا ہے۔ اس وجہ سے دین کاکلچر سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے سے۔دین اپنے اخلاقی اصول اور اپنے مقاصد لے کر آتا ہے ۔ دین کا مقصد پاکیزگی حاصل کرنا ہے ، اخلاق کی پاکیزگی ، کھانے پینے کی پاکیزگی ، بدن کی پاکیزگی۔ یہ پاکیزگی کاانداز آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ کلچر اور تہذیب میں دین کا ظہور نہ ہو ، دین جب آئے گا تو لازماً ان کے اندر ظہور کرے گا۔آخر دین کا ظہور اور کہاں ہوگا؟ ایمان کی حد تک تووہ میرے دل و دماغ کے اندر رہتا ہے ۔ باہر جب نکلے گا تو وہ میرے وجود ، میری تہذیب، میرے تہواروں ، میرے ملنے جلنے کے طور طریقوں اور میرے رہن سہن ہی میں ظاہر ہو گا اور یہی کلچر ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین کا کا م ہر شخص کیوں نہیں کر سکتا ؟ دین کا کام ایک تو وہ ہوتا ہے جو ایک عالم کرتا ہے، وہ تو ہر شخص نہیں کر سکتا ۔لیکن اسکے علاوہ بھی دین کے بہت سے کا م ہیں جو عام آدمی بھی کر سکتا ہے۔ دین کی خدمت کے کتنے ہی کا م ہیں کہ جن کو عام آدمی ہی کرتے ہیں مثلاً مسجدیں بناتے ہیں ، مدارس بناتے ہیں ، لوگوں تک بات پہنچانے کا کام کرتے ہیں ، خود علما کے دست و بازو بن جاتے ہیں ۔یہ سارے کا م ایک عام آدمی ہی کرتا ہے ۔ ہر مسلمان کو اگر اللہ تعالی توفیق دے تو جہاں اس کو یہ کوشش کرنی ہے کہ دین میں جو باتیں ماننے اور کرنے کی ہیں وہ مانے اورکرے اسی طرح یہ بھی سوچے کہ کیا میں دین کی کوئی خدمت کررہا ہوں؟ دین کی خدمت ہی نے صحابہ کو صحابہ بنایا تھا ۔ دینی عقائد و اعمال میں وہ اورہم سب مشترک ہیں ۔ہم نماز پڑھتے ہیں تو وہ بھی پڑھتے تھے ، روزہ رکھتے ہیں تو وہ بھی رکھتے تھے ،حج کرتے ہیں تو وہ بھی کرتے تھے۔تو وہ کیا چیز ہے جس نے ان کو غیر معمولی امتیاز بخشا وہ اصل میں دین کی نصرت کا غیر معمولی جذبہ ہے ۔ دین کی خدمت اور نصرت کے مواقع سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی اپنے ذوق اور صلاحیت کے لحاظ سے انتخاب کر سکتاہے ۔ آپ کاروبار، ملازمت، تجارت سب کریں اور جس طرح والدین ، اعزا و اقربا کی خدمت کرتے ہیں ایسے ہی دین کی خدمت کا بھی کوئی کام ضرور کریں۔البتہ یہ فیصلہ ہر انسان کوخود کرنا ہے کہ وہ کون سا کام کرے۔محلے کی مسجد کے انتظام و انتصرام میں شرکت بھی دین کی خدمت ہے ، دین کی تعلیم و تعلم کا اہتمام کرنا بھی دین کی خدمت ہے ، کسی صاحب علم کی دینی خدمت میں اس کے ساتھ دست و بازو بن جانا، اپناوقت اورسرمایہ خرچ کرنا یہ بھی دین کی خدمت ہے۔اس طر ح دین کی خدمت ایک عامی سے لے کر خاص تک اورایک مزدورسے لے کر صدر تک سب کر سکتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آپ کے نزدیک جو دین ہے اس کا نمونہ بن کر رہیے۔ زیادہ توقع تو یہ ہی ہے کہ اسطرح کچھ کہے بغیر ہی ان پر اثر ہو گا لیکن اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ مجھے تو نماز نہیں پڑھنی ، مجھے تو جھوٹ بولنا ہے ، مجھے تو بددیانتی کرنی ہے لیکن اولادنیک ہو جائے تو پھرمحض اللہ کے کرم سے ہوجائے توہوجائے اس میں آپ کاکوئی حصہ نہیں ہوگا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کوئی اجر نہیں ملے گا۔ آپ اپنی اولاد کو جو بنانا چاہتے ہیں اسی طرح کے انسان بن کر ان کے درمیان رہیے۔ بیوی بچوں کے معاملے میں انسان کی دورخی پالیسی نہیں چل سکتی ،وہاں تو اصل میں انسان ننگا ہوتا ہے، اصل امتحان یہیں ہوتاہے ۔ میرے خیال میں والدین یا اولاد کی حد تک بہت زیادہ تبلیغ کی ضرورت نہیں ہوتی ، آپ کا وجودہی تبلیغ ہوتا ہے ، آپ کے شب وروز تبلیغ ہوتے ہیں ۔البتہ جب کبھی مناسب موقع ملے نصیحت کرنے کا تو اچھے طریقے سے نصیحت بھی کر نی چاہیے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک غیر معمولی تہذیبی یلغار کے نیچے جی رہے ہیں ۔یہ عام زمانہ نہیں ہے اس میں مغربی تہذیب کی غیر معمولی یلغار ہے اور مغربی تہذیب اپنے تہذیبی پس منظر کے لحاظ سے ہم سے مختلف تہذیب ہے۔ وہ ساری کی ساری بری نہیں البتہ ہم سے مختلف ضرورہے۔ اس کی اقدار مختلف ہیں ، اس کے تقاضے مختلف ہیں ، پھر یہ کہ میڈیا نے اس کو ہمارے گھروں تک پہنچا دیا ہے ، دنیا ایک گاؤں بنتی جا رہی ہے تو اس میں تشدد کا طریقہ کارگرنہیں ہوتا۔ نہ تو یہ طریقہ اختیار کریں کہ ہر موقع پر واعظ اور مبلغ بن کر رہیں اور نہ ہی بالکل خاموش تماشائی۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: شیعہ حضرات قرآن کی جس آیت سے متع کے لیے استدلال کرتے ہیں ہمارے نزدیک اس کا ہرگز وہ مطلب نہیں ہے ۔قرآن نے بالکل شروع ہی میں واضح کر دیا تھا کہ بیویوں کے علاوہ کسی سے جنسی تعلق نہیں رکھا جاسکتا ۔البتہ عرب میں اس طرح کا رواج موجود تھا۔ کسی بھی سوسائٹی سے اس طرح کے رواج کو ختم کرنے میں بڑا وقت لگتا ہے ، سیدنا عمرؓ نے اپنے دور میں اسی معاملے کی باقیات کوختم کرنے کے احکامات دیے ۔اصل میں لوگوں تک بات پہنچانے کا عمل وقت لیتا ہے اور اس میں وقت لگا۔متع کی البتہ قرآن میں کوئی گنجایش نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کسی کے لیے عمرہ ادا کرنے کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی خدا کا بندہ بہت خواہش رکھتا تھاکسی وجہ سے نہیں جا سکا ، اب اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تو معذور ہو گیا ہوں تو تم میری طرف سے یہ معاملہ کر لو۔ اس کی نیت کا اجر تو ا سکو ویسے ہی مل گیاتھا اگربیٹا اسکی تکمیل کر دے گا تو بہت اچھی بات ہے ۔یہی ایک صورت ہے اسکے علاوہ کسی کے لیے نیکی کا کوئی کام کیسے کیا جاسکتا ہے؟ قرآن نے اس کو واضح کر دیا ہے۔اس کو قربانی کے معاملے سے سمجھاجا سکتا ہے ۔ اسکے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ قربانی کا گوشت اورخون اللہ تک نہیں پہنچتابلکہ دلوں کا تقوی پہنچتا ہے۔ اب جب کوئی دوسرے کی طرف سے عمرہ کرے گا تواس دوسرے کے دل کا تقوی اللہ تک کیسے پہنچے گا۔ اس نے تو کوئی ارادہ، کوئی نیت بھی نہیں کی ۔قربانی کی طرح سب نیکیوں کا یہی معاملہ ہے ان کی شکل کے پیچھے جو دلوں کاحال ہوتا ہے وہ اللہ تک پہنچتاہے ۔ خدا کے ہاں جو چیز اجر کا باعث بنتی ہے وہ اندر کا احساس اور نیت ہے۔دوسرے کا اند ر کا احساس ، نیت اور اللہ سے تعلق کی نوعیت میں کیسے لے جاؤں گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نہیں ، کبھی بھی نہیں بتانا چاہیے ، آپ جو اللہ کی راہ میں دینا چاہتے ہیں اس کی نیت رکھیے اور دیجیے۔ اس کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے چاہییں کہ دوسرے کو احساس بھی نہ ہو کہ اس کے اوپر اس طرح کوئی کرم کیا جا رہا ہے ، آپ کسی کے گھر گئے ہیں ویسے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں ،کچھ چیزیں دے دیتے ہیں ، کوئی تحفے تحائف دیتے ہیں تو اس طرح دے دینا چاہیے ، بتانا ضروری نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: زکوۃ تو وہ رقم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے نماز کی طرح فرض کی گئی ہے ۔ صدقہ خیرات ایک آپشنل انفاق ہے ۔ خود زکوۃ بھی ایک طرح سے صدقہ ہی ہے ۔ صدقہ کوئی برا لفظ نہیں ہے ہمارے ہاں یہ اصل میں برے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔اجتماعی یا انفرادی بہبود کے لیے جو خر چ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جاتا ہے وہ صدقہ ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اگر والد یا والدہ جن کی جائیداد تقسیم ہونی ہے ، اولاد نے ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ گویا اولاد ہی نہیں رہی تو اسے محروم کیا جا سکتا ہے ۔اولاد کی جومنفعت والدین کوحاصل ہونا تھی وہ حاصل نہیں ہورہی تو والدین بھی اس کو وراثت کی منفعت سے محروم کر سکتے ہیں۔یہ ناجائز نہیں ،کیا جا سکتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)