جواب: انسان اپنی شخصیت کے تمام داعیات کی تکمیل کرنے میں آزاد ہے۔ البتہ خود اس کا اپنا اخلاقی وجود اس پر کچھ قدغنیں لگا دیتا ہے۔ یہی قدغنیں ہیں جو دین میں بھی بیان ہوئی ہیں اور وہاں انسان کی رہنمائی کرتی ہیں جہاں وہ خود فیصلہ کرنے میں ٹھوکر کھا سکتا ہے یا عملی صورت کی تعیین میں ناکام رہ سکتا ہے۔ تفریح انسانی شخصیت کا داعیہ ہے۔ اس پر اخلاقی قدغنیں ہیں جیسے بے حیائی، اسراف ، ضیاع وقت یا دینی یا سماجی ذمہ داریوں سے بے پراوائی وغیرہ۔تفریح کیا ہے ، یہ بات دین کا موضوع نہیں ہے ۔ البتہ یہ بات دین کے مطالعے اور مطالبات سے سمجھ میں آتی ہے کہ تفریح کے مواقع پر بھی خدا سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
ج: اسلام یہ بتانے کے لیے نہیں آیا کہ تفریح کیا ہوتی ہے ۔جس طرح کھانا پینا اورجبلی و جنسی تقاضے پورے کرنا انسانی فطرت ہے ،اسی طرح تفریح بھی انسانی فطرت ہے ۔ اسلام فطرت کے معاملات کی وضاحت نہیں کرتا اس لیے کہ انسان خود ہی ان سے کما حقہ آگاہ ہوتا ہے البتہ جہاں کہیں انسان فطرت سے انحراف کرتا ہے وہاں اسلام صحیح راہ واضح کر دیتا ہے ۔
اسلام تو صرف یہ بتائے گا کہ تفریح کی وجہ سے اخلاقی حدود پامال نہیں ہونے چاہییں۔ جیسے بسنت کا معاملہ ہے ، یہاں اسلام یہ نہیں بتائے گا کہ آپ بسنت منائیں یا نہ منائیں وہ یہ بتائے گا کہ جو تفریح بھی آپ کرنا چاہتے ہیں اس میں اخلاقی حدود قائم رہنی چاہییں۔ مذہب کا دائرہ اصل میں ہے ہی یہ کہ وہ آپ کی اخلاقی تربیت کرتا ہے ۔جیسے اسلام معیشت کا کوئی نظام نہیں دیتاالبتہ یہ واضح کرے گا کہ آپ کی معاشی جدوجہد سے کوئی اخلاقی اصول قربان نہیں ہونا چاہیے۔یہی معاملہ سیاست کا ہے، انسان نظام خود بناتا ہے اسلام تو یہ واضح کرتا ہے کہ اصول یہ ہے اور اخلاقیات کا پیمانہ بہر حال ملحوظ رہے ۔اس امر کونہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے کتاب لکھی ہے ‘‘ اسلام کا نظریہ جنس’’ ،‘‘ اسلام کا نظریہ تفریح’’ یہ کیا چیز ہے ؟ تفریح ایک انسانی چیز ہے اورہر جگہ اورہرمعاشرے میں وجود پذیر ہوگی۔ آپ کوصرف یہ دیکھنا ہے کہ جو کچھ بھی آپ کرنے جار ہے ہیں اس میں کوئی اخلاقی مسئلہ تو نہیں۔ بس اسلام یہاں مداخلت کرتا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)