ج: اصل میں بات یہ ہے کہ والدین جب اپنی بیٹی کے گھر میں جاتے ہیں تو گھر کا قوام چونکہ ایک دوسرا شخص ہوتا ہے تو ایک فطری حجاب پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس فطری حجاب کو تبدیل کرنا مشکل ہے ۔ البتہ ہمار ے ہاں یہ بات جہالت کی حد تک پہنچ جاتی ہے تو اس کو درست کرنا چاہیے۔ جس طرح والدین اپنے آپ کو بیٹے کے گھرمیں باوقار محسوس کرتے ہیں ویسے وہ بیٹی کے گھر میں محسوس نہیں کرتے ۔ یہ ایسی چیز ہے کہ انسانی تمدن میں بڑی فطری طریقے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کو جہالت کی حد تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے ۔ والدین کے لیے بیٹیاں بھی ویسی ہی اولاد ہیں اور بیٹیوں کے لیے والدین بھی اسی طرح والدین ہیں لہذا ان کی خدمت کرنا، ان سے محبت کرنا ،ان کی کسی تکلیف میں ان کا ساتھ دینا بھی فطری بات ہے اوراگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو ان کو اپنے گھر میں رکھنا بھی مستحسن اقدام ہے۔ یہ جس طرح بیٹوں کا معاملہ ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی معاملہ ہے ۔ہمارے ہاں جہالت اس امر میں آڑے آ جاتی ہے تا ہم فطری حجاب بہر حال موجود رہتا ہے ۔بیٹی بہرحال ایک دوسرے گھرمیں چلی جاتی ہے اور اس کووہاں ایک نئی زندگی شروع کرنا ہوتی ہے ، وہاں وہ والدین کے لے ویسی منفعت کا باعث نہیں بن سکتی جیسے بیٹے بن سکتے ہیں اسی وجہ سے میراث میں اس کا حصہ کم رکھا گیا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)