ج: ہماری جماعتوں اور گروہوں میں لاکھ اختلاف سہی لیکن وہ باتیں ان اختلافی امور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جن پر یہ تمام جماعتیں اتفاق رکھتی ہیں مثلاً ایک اللہ ، ایک رسول ، ایک قرآن ۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار باتیں ہیں جن پر امت کا اتفاق ہے۔یہ سب گروہ اور جماعتیں کم از کم اس بات پر تو متفق ہیں کہ اسلام ان کا مذہب ہے اور وہ مسلما ن ہیں، اس بات میں توکسی کوکوئی اختلاف نہیں جب کہ کافر قومیں خود کو مختلف مذاہب و ملل کا کہلانے کے باوجود اسلام دشمنی میں متفق اور متحد ہیں تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے ؟ یہودی ، عیسائی اور بت پرست سب کے سب مسلمانوں کی دشمنی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نظریاتی اور مسلکی اختلافات میں ہی الجھے ہوئے ہیں اور بجائے دشمنوں کے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔
رہا یہ سوال کہ اہل بدعت اور گمراہ مسلمانوں سے کیسے تعاون کیا جائے تو جواب یہ ہے کہ دین کی اصولی باتوں میں تو یہ لوگ بھی ہم سے متفق ہیں تو ان ہی باتوں کو اتفاق کی بنیاد بنایا جائے یا پھر ان باتوں کو بنیاد بنایا جائے جن میں ہم سب کا مشرکہ سیاسی ، سماجی ، یا معاشی مفاد وابستہ ہو۔
علمائے اہل سنت نے معتزلیوں کو اہل بدعت قرار دینے کے باوجود ان کی علمی اور فکر ی کاوشوں سے استفادہ کیا ہے ۔ علامہ زمخشری کی تفسیر الکشاف تمام اہل سنت کے نزدیک ایک معتبر تفسیر ہے۔حالاں کہ مشہور ہے کہ علامہ زمخشری معتزلی تھے امام غزالی کہتے ہیں کہ میں نے فلسفیوں پر ان کی گمراہیاں واضح کرنے کے لیے کبھی معتزلیوں سے مدد حاصل کی اور کبھی کرامیوں سے ۔حالانکہ یہ دونوں گروہ بدعتی تھے۔حنفیوں ، شافعیوں یا حنبلیوں کے درمیان اختلاف ہرگز ایسا نہیں ھے کہ جس کی بنا پر ہم دشمنی پر اتر آئیں۔بلکہ میری رائے تویہ ہے کہ اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ان معتدل قسم کی غیر مسلم جماعتوں کے ساتھ بھی تعاون کیا جائے جو متشدد اورمسلم مخالف جماعتوں کے مقابلہ میں ہمیں تعاون دینا چاہتی ہوں۔ نبیﷺ نے فتح مکہ کے بعد قبیلہ ہوازن کے مشرکین کے مقابلہ میں بعض مشرکین قریش کا تعاون حاصل کیا تھا کیوں کہ رشتہ داری کی بنا پر مشرکین مکہ کے دلوں میں حضور کے لیے قبیلہ ہوازن کے مقابلہ میں نرم گوشہ تھا۔حتی کہ صفوان بن امیہ نے اسلام قبول کرنے سے قبل کہا تھا کہ ہم میں قریش کاکوئی شخص حکومت کر ے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ قبیلہ ہوازن کا کوئی شخص ہم پر حکومت کرے ۔ذرا سورہ روم کی ابتدائی آیات پر غو رکیجیے اہل فارس اوررومیوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں رومیوں کو شکست اٹھانی پڑی ۔اہل فارس آگ پوجتے تھے اور اللہ پریقین نہیں رکھتے تھے جبکہ رومی عیسائی تھے اور اللہ پر یقین رکھتے تھے ۔ اس بنا پر صحابہ کرام کے دلوں میں ایرانیوں کے مقابلے میں رومیوں کے لیے نرم گوشہ تھا اور رومیوں کی فتح کے تمنائی تھے ۔ حالاں کہ دونوں ہی غیر مسلم قوتیں تھیں۔ لیکن رومیوں کی شکست نے انہیں غم زدہ کر دیا ۔اللہ تعالی نے انہیں خوشخبری سنائی کہ صرف چند سالوں کے بعد رومیوں اورایرانیوں کے درمیان دوبارہ جنگ ہو گی اوراس جنگ میں رومیوں کو فتح نصیب ہو گی اوران کی فتح سے مسلمانو ں کو خوشی حاصل ہو گی۔
قرآن و حدیث کی وہ دلیلیں جن کی وجہ سے مسلک کا اختلاف ہوتاہے وہ دو طرح کی ہیں۔
۱۔ پہلی قسم ان دلیلوں کی ہے جنہیں اصطلاحی زبان میں قطعی کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ دلیلیں جنکامفہوم بالکل واضح اور اٹل ہوتاہے مثلا نماز روزے حج ، توحید اورآخرت وغیر ہ کی آیات اور دلائل ۔ ان میں کسی قسم کا شک و شبہ اور ابہام نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کی تمام جماعتیں ان میں کسی قسم کااختلاف نہیں کرتیں۔
۲۔دوسری قسم ان دلیلوں کی ہوتی ہے جنہیں اصطلاحی زبان میں ظنی کہتے ہیں۔یعنی وہ قرآنی آیات یا احادیث جن میں ایک سے زائد مفہوم کا احتمال ہوتاہے ۔چوں کہ ان کا مفہوم بالکل اٹل اور قطعی نہیں ہوتا بلکہ ان میں کافی گنجائش ہوتی ہے اس لیے فقہائے کرام اپنی اپنی سمجھ کے لحاظ سے ان کا مفہوم متعین کرتے ہیں اوریوں مسلک کا اختلاف وجو د میں آتا ہے۔مثلا ً بعض قرآنی آیات یا احادیث میں کسی بات کاحکم ہوتاہے لیکن اسکا صیغہ ایسا ہوتا ہے کہ اس سے واجب اورفرض ہونے کا بھی مفہوم نکلتا ہے اورسنت یا نفل ہونے کا بھی۔ مثلاً یہ حدیث کہ احفوا الشوارب ووفروا اللحی مونچھیں ترشواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔اس حدیث میں مونچھیں ترشوانے اور داڑھی بڑھانے کاحکم ہے ۔بعض فقہا نے اس حکم کوفرض اور واجب پرمحمول کیا اور بعض نے سنت اور نفل پر۔چوں کہ الفاظ میں دونوں قسم کی گنجائش موجودہے اس لیے دونوں کے موقف کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔الغرض یہ کہ ظنی دلیلوں کی بنا پر مسلک کا اختلاف ایسا اختلاف ہر گز نہیں کہ جو معیوب ہو اورجس کی بنا پر آپس میں ناچاقی اور دشمنی ہو۔ہمیں چاہیے کہ اس طرح کے اختلافات سے صرف نظرکر تے ہوئے ان باتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں جن پرہم سب کا اتفاق ہے ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: بینک میں جمع کیے ہوئے پیسے پر سود لینا حرام ہے کیوں کہ یہ سود ہے ۔سود کی تعریف یہ ہے کہ اصل مال پر جو رقم بغیر محنت یا تجارت کے لی جائے وہ سود ہے۔شیخ شلتوت نے بنک کے سود کوصرف مجبوری کی حالت میں جائز قرار دیا تھا۔عام حالات میں ان کے یہاں بھی جائز نہیں ہے۔اس پیسے کے مصرف کی بہترین شکل یہ ہو گی کہ اسے غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیا جائے یا کسی رفاہی کام میں خرچ کر دیا جائے ۔زکوۃ ادا کرنے سے حرام مال حلال نہیں ھو جاتا اس لیے زکوۃ اداکرنے سے سود جائز نہیں ہو جائے گا۔
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے جمع کیے ہوئے پیسے سے بینک تجارت کرتاہے اورنفع کماتا ہے تو ہمیں بھی اس نفع سے کچھ ملنا چاہیے۔میں کہتا ہوں کہ اس نفع میں آپ بہ خوشی شریک ہو سکتے ہیں بشرطیکہ پیسہ جمع کرتے وقت آپ بینک سے یہ طے کر لیں کہ آپ بینک کی تجارت میں حصے دار کی حیثیت سے پیسے جمع کر رہے ہیں۔اوریہ کہ آپ نفع اور نقصان دونوں میں برابر کے شریک رہیں گے ۔اگر بینک اس شرط پرراضی ہو جائے تو بلا شبہ آپ نفع لے سکتے ہیں ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: میری رائے میں بینک میں جو سودی نظام رائج ہے اسکا تعلق بینک کے سٹاف سے نہیں ہوتا سودی نظام ہمارے معا شی ڈھانچے کا جزو ہے ۔اس سے فرار ممکن نہیں۔ ایسی صورت حال میں بینک کے کسی سٹاف کے نوکری چھوڑ دینے سے اس سود ی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اسلام نے انسانی مجبوری کی مکمل رعایت کی ہے اسی مجبوری کے تحت بعض اوقات انسان بنک کی نوکر ی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ایسی حالت میں ہم اسے منع نہیں کرسکتے ۔
(علامہ محترم کی رائے سے مجھے بصد احترام اختلاف ہے ۔ ہر شخص نے اللہ کے حضور انفرادی طور پر جوابدہ ہونا ہے ۔ہر شخص کو دیانتداری سے جائزہ لینا چاہیے کہ کیا وہ بینک کی نوکری کے بغیر کم ذرائع میں زندگی گزار سکتا ہے تو اسے بنک کی نوکر ی چھوڑ دینی چاہیے یہ ٹھیک ہے کہ اس ایک کے ملازمت چھوڑ دینے سے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ اللہ کے ہاں کہہ سکے گا کہ یا اللہ میں تو یہی کر سکتا تھا اتنا میری استطاعت میں تھا وہ میں نے کر دیا ۔امید ہے اللہ اس پر معاف فرما دیں گے ۔ہر فرد کے لیے انفراد ی طورپرجتنا ، جب اورجو قدم اٹھانا ممکن ہو(شریعت کے حدود میں اور جائز طور پر) اسے اٹھا لینا چاہیے۔نظام بدلنے کاانتظار ہمارے ذمہ نہیں۔ہمیں نظام سے پہلے اپنے انفراد ی اقدامات اور اعمال کا جوابدہ ہوناہے اگر ہم نے کوئی انفراد ی کوشش بھی نہ کی تو جوابدہی کاخطر ہ ہے۔ بہر حال یہ انفرادی فیصلہ ہے اپنے اپنے حالات کے اعتبارسے ۔اگر کوئی واقعتا اضطراری حالات میں ہے تو اس کے لیے جائز ہے مگر کیا وہ اس اضطرا ر کو اللہ کے ہاں بھی ثابت کر سکے گا یہ اہم سوال ہے ۔اس کی تیاری کر لینی چاہیے ۔بینک میں کام کرنے والا بہر حال اس نظام کامعاون ہے اور لکھنے لکھانے کے عمل میں شریک ہے اس سے بھی اللہ کے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ایک اور سوال کے جواب میں علامہ صاحب نے یہی موقف اپنایا ہے وہ سوال اور جواب درج ذیل ہے ۔ (مدیر)
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: اگر آپ واقعی اسلام سے ان کا حل مانگتے ہیں تو اسلام کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ آپ ان مغربی قوانین کے بجائے اسلامی قوانین کی طرف پیش قدمی کریں۔مغربی طرز کے بینکوں کو الوداع کہیں اور ان کی جگہ اسلامی قوانین کی بیناد پر اسلامی بینک کی داغ بیل ڈالیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد کے کیا غلطی ہے اگر پورا معاشرہ اور پورا حکومتی ڈھانچہ ہی اسلام سے منحرف ہو ایسے میں اکیلا شخص کیا کر سکتا ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ افرا د ہی معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے اگر فرد واحد ان مغربی قوانین پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہے اوران قوانین کے مطابق زندگی گزارتا رہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین پرراضی ہے ۔بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان قوانین کو زندہ رکھنے میں شریک کار ہے اگر موقع میسر ہو تو ان قوانین کو بدلنے کی کوشش کر نی چاہیے۔جہاں تک انشورنس کا تعلق ہے تو یہ چیز جائز ہو سکتی ہے اگر اس میں سود کی ملاوٹ نہ ہو۔ میری رائے میں سامان تجارت کی انشورنس صرف مجبوری اوراضطراری حالت ہی میں جائز ہو سکتی ہے البتہ لائف انشورنس کسی صورت میں جائز نہیں ہے ۔
تجارت میں توسیع کی خاطر بینک سے قرض لینا قطعاً حرام ہے ۔بینک سے قرض انتہائی مجبوری کی حالت ہی میں لیا جا سکتا ہے مثلاً کسی مریض کی جان پر بنی ہو،اس کے علاج کا مسئلہ ہویا بال بچے بھوک سے مجبور ہوں تو ایسی صورت میں بقد ر ضرورت قرض لیا جا سکتا ہے ۔تجارت کو فروغ دینا ایسی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے لیے حرام چیز کوجائز قرار دیا جائے ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ حلال اور مباح چیزوں کی تجارت کی جائے۔دوسری شرط یہ ہے کہ تجارت میں دھوکا نہ دے۔تیسر ی شرط یہ ہے کہ زیادہ منافع کی غرض سے ذخیرہ اندوزی نہ کرے۔چوتھی شرط یہ ہے کہ مال فروخت کرتے وقت سچی جھوٹی قسمیں نہ کھائے۔پانچویں شرط یہ ہے کہ سامان بہت مہنگا نہ بیچا جائے یعنی جائزمنافع لیا جائے ۔چھٹی شرط یہ ہے کہ اپنے مال کی زکوۃ نکالے۔ساتویں شرط یہ ہے کہ تجارت تاجر کو دینی فرائض نماز روزہ حج صلہ رحمی وغیر ہ سے غافل نہ کرنے پائے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج؛ جھوٹ بولنا گنا ہ کبیرہ ہے ۔اسلامی شریعت نے جن مجبوریوں کی بنا پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے مذاق اور تفریح کی خاطر جھوٹ اس میں شامل نہیں ھے ۔چنانچہ واضح ہوا کہ اپریل فول حرام ہے کیونکہ اس میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔اپریل فول میں خواہ مخواہ کسی کو تنگ کیا جاتا ہے ، دھوکے میں رکھا جاتا ہے اور اسے پریشان کیا جاتا ہے ۔ کسی مسلمان کو دھوکا دینا ، اذیت پہنچانا حرام ہے۔یہ بہت بڑ ی خیانت کی بات ہے کہ آپ کسی سے جھوٹ بولیں اور وہ آپ کوسچا سمجھ رہا ہو۔اس میں ایک ایسی روایت کی تقلید ہے جس کا تعلق نہ اسلا م سے ہے اورنہ مسلمانوں سے ۔ یہ تو کفار کا اتباع ہے اور وہ بھی ایسی چیز میں جواخلاقاً ًنہایت گری ہوئی چیز ہے ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: گانا چاہے موسیقی کے بغیر ہو یا موسیقی کے ساتھ، قرون اولی ہی سے فقہائے اسلام کے درمیان موضوع بحث رہا ہے ۔اس بات پر تمام فقہا متفق ہیں کہ ہر وہ گانا جو فحش ، فسق وفجور اور گناہ کی باتوں پرمشتمل ہو اس کا سننا حرام ہے اور اگر اس میں موسیقی بھی شامل کر لی جائے تو اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح فقہا کے مابین اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ شادی بیاہ یا عید یا خوشی کے موقع پر ایسے گانے جائز ہیں جو گندے ، فحش اور نازیبا کلمات سے خالی ہوں۔متعدد احادیث سے ان کا جواز ثابت ہوتا ہے۔البتہ بعض علما کے نزدیک ہرقسم کا گانا حرام ہے چاہے وہ موسیقی کے ساتھ ہو یا بغیر موسیقی کے ۔
میری اپنی رائے یہ ہے کہ گانا یا نغمہ بذات خود حلال ہے کیونکہ ہر چیز کی اصلیت یہ ہے کہ وہ حلا ل ہے الا یہ کہ اس کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی واضح دلیل ہو۔گانے کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی بھی دلیل قطعی نہیں ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بعض صحابہ نے سورہ لقمان کی آیت ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا میں لھو الحدیث سے مراد گانا بتایا ہے لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے ۔حضور ﷺنے ایسا نہیں فرمایا ہے ۔اسی طرح بعض علما اس آیت واذا سمعوا اللغو أعرضوا عنہ میں لغو سے مراد گانا مراد لیتے ہیں حالانکہ اس آیت میں لغو سے مراد گالم گلوچ طعن تشنیع اور احمقانہ باتیں ہیں۔آپ پوری آیت کو سیاق و سباق سے پڑھیں تو یہی مفہوم اخذ ہو گا۔اسی مفہوم کی دوسری آیت ہے واذا خاطبھم الجاہلون قالو ا سلاما۔اگر آیت میں لغو سے مراد گانا لیا جائے تو آیت یوں نہ ہوتی کہ اسے سننے کے بعد وہ اس سے دامن بچاتے ہیں بلکہ آیت یوں ہوتی کہ اس کے سننے سے دامن بچاتے ہیں۔ابن جریح سے کسی نے پوچھا کہ گانا سننا آپ کی نیکیوں میں شمار ہو گا یا برائیوں میں۔انہوں نے جواب دیا کہ اس کا شمار نہ نیکیوں میں ہو گا نہ برائیوں میں بلکہ یہ تو ان لغو چیزوں میں سے ہے جن پر اللہ گرفت نہیں فرماتا۔امام غزالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ بندے کا اس بات پر مواخذہ نہیں کرے گا کہ اس نے یوں ہی اللہ کا نام لے کر قسم کھائی تو شعر و نغمہ پر کیوں گرفت کر ے گا؟ امام غزالی کا ا شارہ اس آیت کی طرف تھا۔لا یواخذکم اللہ بااللغو فی ایمانکم۔علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہرعمل کادارومدار نیت پرہوتاہے جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نیت سے گاناسنے گا وہ گنہ گار ہو گا اورجو شخص اس نیت سے گانا سنتا ہے کہ اس سے بدن میں چستی آئے گی اور یہ چستی اللہ کی عبادت میں معاون ثابت ہو گی تو یہ ایک نیک ارادہ ہے اور اس کا گانا سننا بھی نیک عمل میں شمار ہو گا۔ بشرطیکہ وہ گانا بذات خود بری اور فحش باتوں پر مشتمل نہ ہو۔
رہی وہ حدیثیں جنہیں علماگانوں کی حرمت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ ساری حدیثیں ضعیف ہیں۔قاضی ابو بکر کہتے ہیں کہ نغموں اور گانوں کی حرمت سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ۔ابن حزم کہتے ہیں کہ گانوں کی حرمت کے سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ سب موضوع احادیث ہیں۔مزید یہ کہ اس کے جائز ہونے میں متعدد احادیث موجودہیں۔بخاری مسلم میں یہ حدیث موجودہے کہ ابوبکرؓ حضرت عائشہ کے گھر میں حضور ﷺکے پاس تشریف لائے حضرت عائشہ کے پاس دو لڑکیا ں بیٹھی گانا گا رہی تھیں۔حضرت ابو بکر ؓ نے ان لڑکیوں کی سرزنش کی اس پر حضور نے فرمایا کہ چھوڑ دو اے ابو بکر کیونکہ یہ خوشی کے دن ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خوشی کے دن ہوں یا نہ ہوں گانا اپنی اصلیت یعنی جواز پر برقرار رہے گا۔لیکن یہ ضروری ہے کہ گانے میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔ مثلا شراب کا تذکر ہ ہویا شباب کا۔بے حیائی کی باتیں ہوں یا اللہ رسول کی گستاخی ہو۔مزید یہ کہ گانا سننے میں اسراف یعنی غلو نہ ہو۔اسلام نے اسراف کو ہر معاملے میں نا پسند فرمایا ہے ۔اس دور میں جو گانے زبان زد عام ہیں ان میں شاذ ہی ایسے ہو ں گے جوان شرائط پر پورے اترتے ہوں اس لیے ان سے پرہیز ہی بہتر ہے ۔اگر یہ احتیاط گاناسننے میں لازمی ہے تو گانے کوپیشہ بنانے میں تواور بھی احتیاط کی ضرورت ہے ۔اور فی زمانہ کسی عورت کو یہ پیشہ اختیار کرنا تو کسی طور پر بھی جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس پیشہ میں اس کی عزت ، احترام، شرافت ، شرم و حیا سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے اوراجنبی مردوں سے اختلاط تو بالکل حرام ہے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: کیمرے سے تصویر لینے کے سلسلے میں مصر کے سابق مفتی علامہ محمد نجیت المطیعی نے فتوی دیا ہے کہ یہ جائز ہے ۔کسی کی تصویر لینا تخلیق کرنا نہیں ہوتا جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔یہ توانسان کے عکس کو کاغذ کے ٹکڑے پرمحفوظ کرنے کاعمل ہے ۔اس لیے عربی زبان میں اسے عکس کہتے ہیں اورتصویر لینے والے کو عکاس کہتے ہیں۔شیخ نجیت کے اس فتوے سے متعد د علما متفق ہیں اور میرا رحجا ن بھی ا سی طرف ہے ۔چنانچہ میری رائے یہ ہے کہ تصویر لینے میں کوئی حرمت نہیں ہے بشرطیکہ وہ تصویر بذات خود حلال ہویعنی کسی برہنہ یانیم برہنہ انسان کی نہ ہو یا ایسے مناظر کی تصویر نہ ہو جو شرعا ناجائز ہیں۔
رہی فنکاروں اوراداکاروں کی تصویریں لٹکانے کی بات تو یہ چیز کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔تصویریں لٹکانے کامطلب ان کو تعظیم و تکریم سے نوازنا ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے اس طرح یہ شرک کا ایک پہلو بن جاتا ہے ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: ٹی وی بذات خود نہ حلال ہے نہ حرام۔اس کے حلال یا حرام ہونے کا انحصار ان مقاصد پر ہے جن کی تکمیل کے لیے ٹی وی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی مثال تلوار جیسی ہے تلوار جہاد جیسی عظیم نیکی کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے اور کسی کاناحق گلا کاٹنے کے لیے بھی۔معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے اور لوگوں کی اخلاقی اور فکری تربیت کے لیے بھی ٹی وی کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کی اخلاقی اور فکر ی تباہی کے لیے بھی۔چنانچہ اس کی حلت و حرمت کاانحصار ان پروگراموں پر ہے جوآپ دیکھتے ہیں۔ ہر مسلمان کا ضمیر اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے کون سے پروگرام دیکھنے چاہییں۔مثلا خبریں ، تعلیمی اورسائنسی پروگرام دیکھنا بالکل جائز ہے مگر مخرب اخلاق فلمیں ڈرامے اور ایسے پروگرام دیکھنا جن میں عریانی اور فحاشی کو نمایاں کیا جاتا ہے ظاہر ہے ناجائز ہے ۔چونکہ آج کل ٹی وی پر ایسے ہی پروگرام زیادہ تر نشر ہوتے ہیں اس لیے بعض دیندارلوگ احتیاطا اسے حرام قرار دے دیتے ہیں۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج: میر ے بچے تمہارے پاس صبر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔اللہ نے بھی صبر ہی کے ذریعے مشکل حالات میں مدد لینے کی تاکید فرمائی ہے یا ایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ۔ساری انسانی تاریخ ایسے واقعات اورتذکروں سے بھری پڑی ہے کہ بڑے بڑے لوگوں پر بے انتہا نامساعد حالات آئے مگر انہوں نے صبرسے کام لیا۔ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا۔غلام بنا کر بازار میں فروخت کیا گیا۔ان پر زنا کا الزام لگا۔ جیل کی صعوبت برداشت کرنا پڑی۔لیکن آخر کا ر اللہ نے منصب وزارت سے نوازا۔ خود کشی کسی طور بھی جائز نہیں۔جان اللہ کی عطاہے اسے واپس لینے کاحق صرف اسی کوہے وہی اسکا مالک ہے ۔خود کشی کامطلب اللہ کی رحمت سے مایوس ہوناہے اوراللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی مایوس ہوتاہے ۔اس لیے آپ صبر سے کام لیں اور نماز پڑھ کر اللہ سے مدد مانگتے رہیں ۔ اللہ جلد ہی آسانی کی کوئی صورت پیدا کرے گا۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
ج۔ تصوف ایک ایسا نظریہ زندگی ہے جس کاوجود تقریبا سارے ہی مذاہب میں پایا جاتا ہے ۔ ہندستان میں جوگی پائے جاتے ہیں، عیسائیوں میں راہب اور یونا ن وفارس میں کچھ اور۔
تصوف در حقیقت روحانیت کے اہتمام کانام ہے ۔تصوف کا نظریہ یہ ہے کہ روحانیت کے ذریعے انسان کی تربیت ہوتی ہے ، مادی اور جسمانی ضرورتیں روحانیت کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہیں۔ اس لیے تصوف میں جسمانی اورمادی ضرورتوں کو فراموش کیا جاتا ہے ۔اسلام نے انسانیت کو مادی اورروحانی زندگی کے درمیان توازن عطا کیا۔اسلام کی تعلیم کی رو سے انسان روح ، جسم ، اور عقل کا مجموعہ ہے اورضرور ی ہے کہ ان میں سے ہر ایک پہلو پر کماحقہ توجہ دی جائے ۔روایت ہے کہ جب حضورﷺکو خبرملی کہ حضر ت عبداللہ بن عمر و بن العاص رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اورسوتے نہیں ۔دن بھر روزہ رکھتے ہیں بیویوں کے پاس نہیں جاتے تو آپ نے انکو سرزنش کی ۔اسلام زندگی کے تما م پہلووں میں توازن اوراعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس توازن اور اعتدال کوصحابہ نے بھی قائم رکھا اور سلف صالحین نے بھی۔ اسکے بعد وہ دور آیا جب اللہ نے مسلمانوں کو خوشحالی سے نوازا ۔ان میں دولت عام ہوئی ۔مال و دولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ علم وہنر کابازار بھی گرم ہوالوگوں کا رحجان علم وعقل کیطرف زیادہ ہوا۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں مسلمانوں میں مختلف گروہ اور فرقے وجود میں آئے ۔ایگ گروہ وہ تھا جس نے مال و دولت کوخاص اہمیت دی اورزندگی کے مادی پہلووں میں گم ہو گیا ان میں زیادہ ترحکمران طبقہ اور ان کے حوار ی تھے۔دوسرا طبقہ علم و عقل کے اند ر گم ہو گیا اوراس نے بعض ایسے علوم کی بھی اختر اع کی جو عملاً اسلام سے دور تھے۔تیسرا طبقہ فقہا کا تھا جس نے دین کے قانونی پہلووں کوموضوع بنایا اور اس کی وضاحت اس طرح کی کہ باقی تمام پہلو دب کر رہ گئے۔ ایسے میں کچھ لوگ آگے آئے جنہوں نے دین کے روحانی پہلووں کوموضوع بنایااور ساری محنت روحانی اور باطنی پہلوکی ترقی کی طرف لگا دی۔یہ طبقہ صوفی کہلایا۔انکی تعلیم یہ تھی کہ انسان سب سے پہلے اپنے باطن کی اصلاح کرے نفسانی بیماریوں کو دور کرے اور دل کی دنیا کو آبا د کرے۔ان کی ساری بھاگ دوڑ اورمحنت روحانیت کی تربیت کے لیے تھی۔ ان میں سے بعض نے اللہ کے خوف کو جسمانی شباہت بھی دی جیسے حسن بصری۔بعض نے کہا کہ اعمال کی بنیاد صرف اللہ کی محبت ہے ان کاکہنا تھا کہ ہم اللہ کے دیوانے ہیں ہم نیک اعمال جنت پانے یا دوزخ سے بچنے کے لیے نہیں کرتے بلکہ اللہ کی محبت میں کر رہے ہیں۔مثلاً رابعہ عدویہ او ر ذو النون مصری۔شروع دور کے صوفی نیک و صالح تھے اورقرآن وسنت کی اتباع کرنے والے تھے فرق صرف یہ تھا کہ یہ لوگ روحانی پہلو کوزیادہ اہمیت دیتے تھے اور جسمانی پہلو کو کم۔جنید بغدادی کہا کرتے تھے کہ انسان کے لیے ہر راستہ بند ہے سوائے اس کے کہ جس نے حضورکی پیروی کی ان کے بعد وہ صوفیا آئے جنہوں نے روحانیت کے نام پر غلو کاراستہ اختیار کیا۔انہوں نے روحانیت کے نام پرمختلف فلسفے ،خرافات اور مشقیں ایجاد کیں۔اور پھر بعض نے اپنے ذوق اور وجدانی کیفیات کو ہی شریعت بنا ڈالا۔وہ کہتے ہیں کہ الھمنی ربی۔یعنی میرے دل نے میرے رب سے یہ بات کی یا میرے رب نے میرے دل میں فلا ں بات ڈالی۔ان کے مریدوں نے ان کے دل کی ان باتوں کو شریعت بنا ڈالا۔مزید ترقی ہوئی تو صوفیوں نے اپنے مریدوں کو اتنا کمتر بنا دیا کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہ رہی۔پیر نے جوکہا مرید کے لیے اس پر عمل لازم قرار پایا۔اسے یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کیا اور کیوں کا سوال کرے۔ان نظریات نے مسلمانوں میں صوفیوں کے نام پر ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جوعملی طور پر بالکل مفلوج طبقہ تھا۔زہد اورفقیری میں اس طبقے نے دنیا کو بالکل ترک کر دیا۔صوفیوں کایہ وہ طبقہ ہے جسے ہم گمراہ قرار دیتے ہیں۔مختصر یہ کہ صوفیوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے کتاب و سنت پر سختی سے عمل کیا اورکچھ ایسے بھی تھے جو راہ راست سے منحرف ہو گئے ۔ہمارے لیے صرف اتنی ہی بات قابل تقلیدہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہے ۔یعنی دنیا سے دل نہ لگانا، اسکے فتنوں سے بچنے کی کوشش کرنا، اللہ کی محبت کو دل میں جاگزیں کرنا، دل کے امراض کو دور کرنا، شیطان سے بچناوغیرہ۔تصوف کاوہ پہلو جوراہ راست سے ہٹا ہواہے یعنی کتاب وسنت سے وہ یقینا قابل مذمت ہے ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)