ج: ہماری جماعتوں اور گروہوں میں لاکھ اختلاف سہی لیکن وہ باتیں ان اختلافی امور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جن پر یہ تمام جماعتیں اتفاق رکھتی ہیں مثلاً ایک اللہ ، ایک رسول ، ایک قرآن ۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار باتیں ہیں جن پر امت کا اتفاق ہے۔یہ سب گروہ اور جماعتیں کم از کم اس بات پر تو متفق ہیں کہ اسلام ان کا مذہب ہے اور وہ مسلما ن ہیں، اس بات میں توکسی کوکوئی اختلاف نہیں جب کہ کافر قومیں خود کو مختلف مذاہب و ملل کا کہلانے کے باوجود اسلام دشمنی میں متفق اور متحد ہیں تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے ؟ یہودی ، عیسائی اور بت پرست سب کے سب مسلمانوں کی دشمنی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نظریاتی اور مسلکی اختلافات میں ہی الجھے ہوئے ہیں اور بجائے دشمنوں کے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔
رہا یہ سوال کہ اہل بدعت اور گمراہ مسلمانوں سے کیسے تعاون کیا جائے تو جواب یہ ہے کہ دین کی اصولی باتوں میں تو یہ لوگ بھی ہم سے متفق ہیں تو ان ہی باتوں کو اتفاق کی بنیاد بنایا جائے یا پھر ان باتوں کو بنیاد بنایا جائے جن میں ہم سب کا مشرکہ سیاسی ، سماجی ، یا معاشی مفاد وابستہ ہو۔
علمائے اہل سنت نے معتزلیوں کو اہل بدعت قرار دینے کے باوجود ان کی علمی اور فکر ی کاوشوں سے استفادہ کیا ہے ۔ علامہ زمخشری کی تفسیر الکشاف تمام اہل سنت کے نزدیک ایک معتبر تفسیر ہے۔حالاں کہ مشہور ہے کہ علامہ زمخشری معتزلی تھے امام غزالی کہتے ہیں کہ میں نے فلسفیوں پر ان کی گمراہیاں واضح کرنے کے لیے کبھی معتزلیوں سے مدد حاصل کی اور کبھی کرامیوں سے ۔حالانکہ یہ دونوں گروہ بدعتی تھے۔حنفیوں ، شافعیوں یا حنبلیوں کے درمیان اختلاف ہرگز ایسا نہیں ھے کہ جس کی بنا پر ہم دشمنی پر اتر آئیں۔بلکہ میری رائے تویہ ہے کہ اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ان معتدل قسم کی غیر مسلم جماعتوں کے ساتھ بھی تعاون کیا جائے جو متشدد اورمسلم مخالف جماعتوں کے مقابلہ میں ہمیں تعاون دینا چاہتی ہوں۔ نبیﷺ نے فتح مکہ کے بعد قبیلہ ہوازن کے مشرکین کے مقابلہ میں بعض مشرکین قریش کا تعاون حاصل کیا تھا کیوں کہ رشتہ داری کی بنا پر مشرکین مکہ کے دلوں میں حضور کے لیے قبیلہ ہوازن کے مقابلہ میں نرم گوشہ تھا۔حتی کہ صفوان بن امیہ نے اسلام قبول کرنے سے قبل کہا تھا کہ ہم میں قریش کاکوئی شخص حکومت کر ے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ قبیلہ ہوازن کا کوئی شخص ہم پر حکومت کرے ۔ذرا سورہ روم کی ابتدائی آیات پر غو رکیجیے اہل فارس اوررومیوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں رومیوں کو شکست اٹھانی پڑی ۔اہل فارس آگ پوجتے تھے اور اللہ پریقین نہیں رکھتے تھے جبکہ رومی عیسائی تھے اور اللہ پر یقین رکھتے تھے ۔ اس بنا پر صحابہ کرام کے دلوں میں ایرانیوں کے مقابلے میں رومیوں کے لیے نرم گوشہ تھا اور رومیوں کی فتح کے تمنائی تھے ۔ حالاں کہ دونوں ہی غیر مسلم قوتیں تھیں۔ لیکن رومیوں کی شکست نے انہیں غم زدہ کر دیا ۔اللہ تعالی نے انہیں خوشخبری سنائی کہ صرف چند سالوں کے بعد رومیوں اورایرانیوں کے درمیان دوبارہ جنگ ہو گی اوراس جنگ میں رومیوں کو فتح نصیب ہو گی اوران کی فتح سے مسلمانو ں کو خوشی حاصل ہو گی۔
قرآن و حدیث کی وہ دلیلیں جن کی وجہ سے مسلک کا اختلاف ہوتاہے وہ دو طرح کی ہیں۔
۱۔ پہلی قسم ان دلیلوں کی ہے جنہیں اصطلاحی زبان میں قطعی کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ دلیلیں جنکامفہوم بالکل واضح اور اٹل ہوتاہے مثلا نماز روزے حج ، توحید اورآخرت وغیر ہ کی آیات اور دلائل ۔ ان میں کسی قسم کا شک و شبہ اور ابہام نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کی تمام جماعتیں ان میں کسی قسم کااختلاف نہیں کرتیں۔
۲۔دوسری قسم ان دلیلوں کی ہوتی ہے جنہیں اصطلاحی زبان میں ظنی کہتے ہیں۔یعنی وہ قرآنی آیات یا احادیث جن میں ایک سے زائد مفہوم کا احتمال ہوتاہے ۔چوں کہ ان کا مفہوم بالکل اٹل اور قطعی نہیں ہوتا بلکہ ان میں کافی گنجائش ہوتی ہے اس لیے فقہائے کرام اپنی اپنی سمجھ کے لحاظ سے ان کا مفہوم متعین کرتے ہیں اوریوں مسلک کا اختلاف وجو د میں آتا ہے۔مثلا ً بعض قرآنی آیات یا احادیث میں کسی بات کاحکم ہوتاہے لیکن اسکا صیغہ ایسا ہوتا ہے کہ اس سے واجب اورفرض ہونے کا بھی مفہوم نکلتا ہے اورسنت یا نفل ہونے کا بھی۔ مثلاً یہ حدیث کہ احفوا الشوارب ووفروا اللحی مونچھیں ترشواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔اس حدیث میں مونچھیں ترشوانے اور داڑھی بڑھانے کاحکم ہے ۔بعض فقہا نے اس حکم کوفرض اور واجب پرمحمول کیا اور بعض نے سنت اور نفل پر۔چوں کہ الفاظ میں دونوں قسم کی گنجائش موجودہے اس لیے دونوں کے موقف کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔الغرض یہ کہ ظنی دلیلوں کی بنا پر مسلک کا اختلاف ایسا اختلاف ہر گز نہیں کہ جو معیوب ہو اورجس کی بنا پر آپس میں ناچاقی اور دشمنی ہو۔ہمیں چاہیے کہ اس طرح کے اختلافات سے صرف نظرکر تے ہوئے ان باتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں جن پرہم سب کا اتفاق ہے ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)