سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، سید عمر فاران بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2008

ج:ان کے حق میں دعا کیجیے ۔ دین کسی کی میراث نہیں نہ بتانے والے کی نہ سننے والے کی ۔سب کی مشترک میراث ہے۔ اگر دین بتانے والے نے اپنے رویے کے اندر تبدیلی پیدا نہیں کی تو وہ بھی آپ کی توجہ اور دعوت کا مستحق ہے ، نفرت کا نہیں۔اس کا رویہ جہنمی رویہ ہے اپنے بھائی کو جہنم سے بچانے کے لیے اس سے ہمدردی اور محبت رکھیے اور بات پہنچاتے رہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کے بارے میں دین نے کوئی قانو ن سازی نہیں کی ۔ دونوں طرح دی جا سکتی ہے ۔ اور اگر ریاست نے کوئی قانون سازی کر دی ہو تو اس کو اپنانا چاہیے جس طرح نکا ح کے بارے میں نکاح فارم وغیر ہ بنا دیا گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب اسے دھونے کا حکم ہے، صاف کرنے کا حکم ہے اور اس کے بعد غسل کرنے کاحکم ہے تو اس کے بعد ظاہر بات ہے کہ اس کو ناپاک ہی ماننا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی مسلمان یہ حرکت کر ہی نہیں سکتا ، مسلمان کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ ایسا کرے گایہ اصل میں یہ ماننا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: وسیلہ عربی زبان میں قرب کو کہتے ہیں ، یہ اردو والا وسیلہ نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب تعویذوں کے پیچھے آدمی بھاگ کھڑا ہوتا ہے تو پھر اللہ سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ اس طرح کے توہمات میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اللہ سے دعا کرنی چاہیے ، یہی اصل چیز ہے اور علاج معالجہ کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کے سوال کا قرآن نے دو الفاظ میں جواب دے دیا ہے کہ پیغمبر کی اتباع کیجیے ، ان کو اپنے لیے اسوہ حسنہ بنائیے اس سے اللہ کی محبت آپ کو حاصل ہو گی اور اللہ بھی آپ سے محبت کرے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب ایک آدمی عقلی طور پر مان لیتا ہے کہ اس کائنات کا ایک پروردگار ہے اور وہ پروردگار کچھ انسانوں کو منتخب کر کے رسالت کے منصب پر فائز کر دیتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے بعد اس پروردگار پر کیسے قدغن لگائی جاسکتی ہے کہ وہ ہمارے قانون کا پابند ہو کر رہے ۔ عقل تو کہتی ہے کہ معجزات صادر ہونے چاہیےں کیونکہ خداقادر مطلق ہے۔جب خدا کو ایک قادر مطلق ہستی کی حیثیت سے مان لیا تو معجزہ اس کے نتیجے میں عقلاً ماننا چاہیے ۔ نہیں مانتا تو اس کا مطلب ہے کہ آدمی عقلاً غلط بات کر رہا ہے ، وہ ایک قادر مطلق خدا کو سرے سے مان ہی نہیں رہا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: توبہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر گناہ کا صحیح احساس پیدا ہو ۔ ندامت کا صحیح احساس ہی توبہ کو صحیح بناتا ہے ۔ آپ یہ عزم کریں کہ مجھے بہرحال اس سے بچنے کی سعی کرنی ہے ۔ اس کے باوجود گناہ ہو جائے تو پھربھی اپنے رب سے مایوس نہ ہوں ، بار بار توبہ کرتے رہیں، اللہ ایک وقت میں اپنے بندے کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اس کے بعد اس کو گناہوں سے بچانے کا سامان کر دیتا ہے ۔ یہ آزمائش کی زندگی ہے اور رہے گی جب تک داعیات موجود ہیں غلطی ہوتی رہے گی۔ غلطی ہو جائے تو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ جن گناہوں کو اللہ معاف کر دیتے ہیں ، ان کو نہ صرف یہ کہ نامہ اعمال سے محو کر دیتے ہیں بلکہ ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ گناہ انسان کے سامنے قیامت میں نہیں آئیں گے۔ توبہ قبول ہونے کی شرط یہی ہے کہ ندامت ہو ، تلافی کا احساس ہو ۔ آدمی گناہ سے بچنے کے پورے جذبے سے کام کرے اور گناہ ہونے کے فورا بعد توبہ کرے ۔اللہ نے کہا ہے کہ توبہ ان پر قبول کرنا لازم ہے اور وہ قبول کر لیتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر شیطان کا غلبہ ہو جائے تو یہ الگ چیز ہے لیکن توبہ اسی عزم کے ساتھ کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مسلمان کو اپنے گردو پیش میں دین پہنچانا چاہیے ، اس میں مسلمان ہوں ان کو بھی بتانا چاہیے ا ور غیر مسلموں کو بھی بتانا چاہیے ۔ جو مسلمان باہر گئے ہوئے ہیں ان کو بھی اپنے ماحول میں اس کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسلمان دین کی دعوت اگر کوئی اجتماعی طریقے سے پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے بہت سے انفرادی کاموں کو موثر بنا کر اجتماعی شکل دے دیتے ہیں۔ جہاں موقع ملے مسلمانوں کو یہ کام بھی کرنا چاہیے ، یہ دین کی نصرت کاکام ہو گا اور اس کو اپنے ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی انجام دینا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شق القمر کا واقعہ قرآن میں ایک واقعے کے طور پر بیان ہوا ہے ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کے زمانے میں یہ غیر معمولی معاملہ ہوا ۔ قرآن اس کو معجزے کے طور پر بیان نہیں کرتا اور تمام روایات سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں بہت اچھی بحث کی ہے ، اگر آپ کو شوق ہو تو اسے دیکھ لیں ۔اس میں انہوں نے بتا دیا ہے کہ یہ ایک واقعہ تھا۔ اس واقعے کو دلیل بنا کر اللہ تعالی نے اس بات کو واضح کیا کہ اگر یہ حادثہ ہوسکتا ہے تو پھر اس کو بعید نہیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ ایک دن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دے گا اور قیامت برپا ہو جائے گی ۔اس واقعے سے اصل میں قیامت پر استدلال کیا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسی قبریں جن کی پرستش کا امکان ہو ان کو تو نبیﷺ نے بالکل برابر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں یہ بات پیدا ہوئی کہ قبروں کے معاملے میں بالعموم احتیاط کی جاتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تو ہم بنا دیں گے لیکن کیا معلوم کہ کل کو وہ بزرگ بن جائے ۔اس لیے اس میں احتیاط کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے ،البتہ حدیث میں اس کا ذکر ہے اور بالکل قرین قیاس ہے ۔ نبیﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم کیسے دیکھیں گے تو آپ نے فرمایا کیا چاند کو آسمان پر سب برابرنہیں دیکھتے ؟مطلب یہ ہے کہ سب دیکھ لیں گے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے میں ،میں فقہا کے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔ ان کا خیا ل ہے کہ ایک خاص مدت سے پہلے پہلے کسی شرعی عذر کی وجہ سے اسقاط کروایا جا سکتا ہے ۔ وہ اس کو مطلقاً ناجائز نہیں کہتے ۔لیکن بعض فقہا کی رائے میں یہ مطلقاً ناجائز ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شریعت تو انسانی تمدن اور حالات کے لحاظ سے دی جاتی ہے۔ یعنی قانون انسانی تمدن سے بالا ہو کر نہیں دیا جا سکتا ۔ انسان کا تمدن ارتقا پذیر ہے یعنی ایک زمانے میں لوگ شکار پر گزارہ کرتے تھے پھر زرعی پیداوار کا زمانہ آیا، اب صنعتی انقلاب نے دنیا بالکل تبدیل کر دی ہے ۔ اس وجہ سے تمدن کے فرق سے شریعت میں بھی فرق کیا جائے گا ۔ یہ بنیاد ہے تمام شریعتوں میں فرق کی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی بھی ایسی چیز جس پر آدمی قابو نہ پاسکتا ہو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ ایسے کسی جذبے سے مغلوب ہو جائیں اور اس سے نکلیں تو اپنے اوپر کوئی کفارہ عائد کرلیں۔ کوئی سزا دیں اپنے آپ کو ۔ کچھ دیر بعد آپ آہستہ آہستہ خود پہ قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبیﷺ نے کن مواقع پر بیعت لی ہے۔اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو حضورﷺ نے لوگوں سے دین اور اسلام پر بیعت لی ہے یعنی دین کے ا حکام پر عمل کی۔ بیعت کا مطلب ہے عہد لیا ہے لوگوں سے ۔ اس کا ذکر سورہ ممتحنہ میں موجود ہے ۔رسالت مآبﷺ کو حکم دیا گیا کو جو لوگ ہجرت کر کے آرہے ہیں ،مدینے میں بسنے سے پہلے ا ن سے اس بات کا عہد لے لیا جائے کہ وہ سوسائٹی کے اندر کوئی خرابی نہیں پیدا کریں گے ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی شخص آیا ، اس نے اسلام قبول کیا اور اس نے جانا چاہا تو حضورﷺ نے اس سے کوئی عہد لیا تو یہ عہد صرف پیغمبر لے سکتا ہے ۔ ہم سب برابر کے لوگ ہیں، ہم میں سے کوئی دوسرے کو پابند نہیں کر سکتا ۔ صرف اللہ کا پیغمبر ،اللہ کے سفیر اور نمائندے کی حیثیت سے یہ بیعت لے سکتا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعد میں کسی صحابی نے کسی دوسرے سے یہ عہد نہیں لیا ۔یعنی خود صحابہ کرامؓ نے جو دین کا معیار ہیں، یہ بات ثابت کر دی کہ یہ بات صرف رسالت مآب ﷺ ہی کے شایان شان تھی کہ وہ عہد لے سکتے تھے لیکن وہ میرا ، آپ کا یا کسی اور کا کام ہی نہیں۔ بلکہ یہ بہت جسارت کی بات ہے کہ ہم سے کوئی شخص عہد لے ۔خدا عہد لے اپنے دین پر ، اس کا پیغمبر عہد لے دین پر، یہ بات تو ٹھیک ہے ، میں کون ہوتا ہوں ۔ مجھے توخود عہد کرنا ہے اللہ اور اس کے پیغمبر سے ۔ نبیﷺ نے اسلام اور اسلام کی تعلیمات پر جو عہد لیا ہے وہ آپﷺ کے ساتھ خاص ہے ، اس کا اختیار اب کسی اور کو نہیں اور نہ ہی اس کی جسارت کرنی چاہیے ۔ دوسری بیعت حضورﷺ نے بطور حکمران لی ہے ۔ سمع و طاعت کی بیعت ۔یہ بیعت حکمران کی حیثیت سے ہے پیغمبرانہ حیثیت سے نہیں ۔ چنانچہ آپ کے بعد آپ کے خلفا نے بھی یہ بیعت لی ۔ اب بھی ہماری حکومت اسی بیعت پر قائم ہوتی ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے نمائندے منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اسمبلی میں جا کر اس آئین سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں،وہی چیز ہے آپ ہاتھ میں ہاتھ دیکر عہد کر لیں یا پڑھ کر حلف لے لیں ۔ حکمرانوں کو حق ہے کہ وہ اس عہدکا مطالبہ کریں اور یہ خلفائے راشدین نے بھی لیا، لے سکتے ہیں ،لازم نہیں۔ حکمران سمع و طاعت کی بیعت لے سکتا ہے کیونکہ قرآن نے اس کو مطاع قرار دیا ہے ۔ اطیعو اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم ۔اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے پیغمبر کی اطاعت کرو اور حکمرانوں کی اطا عت کرو توحکمران کو اللہ تعالی نے واجب الاطاعت قرار دیا ہے اس لیے وہ یہ اطاعت کی بیعت لے سکتا ہے جبکہ ہم میں سے کسی کو واجب الاطاعت قرار نہیں دیا جا سکتا۔بیعت کی ایک اور قسم جہاد کی بیعت ہے۔ نبیﷺ نے جب کوئی جہاد کا موقع آیا تو آپ نے جہاد کی بیعت لی یا لوگوں سے ثابت قدمی کی بیعت لی ۔ یہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے ہے ۔کوئی جنگ درپیش ہو تو کسی خاص دستے کو بھیجتے وقت حکمران یہ بیعت لے سکتا ہے ۔ ان میں سے کسی مقام پر بھی ہمارے لیے بیعت کی گنجائش نہیں نکلتی تو اس وجہ سے جو لوگ ایسی بیعت کے دعوے کرتے ہیں یا ایسی بیعت لیتے ہیں ، وہ اپنے آپ کو غلط جگہ پر کھڑا کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور انہیں بتانا چاہیے کہ آپ عام انسان ہیں اور آپ کو یہ حق حاصل نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ نے کرائے پر دینے کا ارادہ کیا ہوا ہے تو اس دوران میں وہ زکوۃ سے مستثنی رہے گی لیکن جونہی وہ کرائے پر اٹھے گی اس پر پیداوارکی زکوۃ عائد ہو جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ظاہر ہے جب آپ سود کو حرام سمجھتے ہیں اور پھر کسی کوسودی کاروبار کے لیے اپنی عمارت دیتے ہیں تو بری چیز ہے ، اس سے جو آمدن ہو گی وہ کوئی پاکیزہ آمدن نہیں ہے ، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا تعلق حالات سے ہے ، بعض اوقات بڑی سہولت ہوتی ہے ، آدمی نکل سکتا ہے اور بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ ساری صفیں ڈسٹرب ہونگی تو اس وقت بیٹھ جانا چاہیے اور نماز مکمل ہونے کے بعد وضو کر کے اپنی نماز مکمل کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسوہ حسنہ دین پر عمل کا نام ہے۔ دین قرآن وسنت میں بیان ہو گیا ہے ، نبیﷺ جب اس پر عمل کرتے ہیں تو عمل کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ کوئی الگ چیز نہیں ہوتی ۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ جانے کہ حضورﷺ نے کیسے عمل کیا مثلاً حضورﷺ کی نماز کیسی ہوتی تھی ، تو اس معاملے میں ہمارے سامنے ایک بہترین نمونہ آجاتا ہے ۔لیکن اس میں کوئی زائد دین بیان نہیں ہوتا ۔یہ دین پر عمل کا نمونہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورت گھر کا نظم سنبھالے گی اور مرد باہر کا، یہ ہماری سوسائٹی کا عرف ہے ۔اس میں شریعت مداخلت نہیں کرتی ۔ ہر سوسائٹی کا اپنا ایک معروف ہوتا ہے اور اس کے تحت لوگ معاملہ انجام دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ مرد باہر کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اور خواتین گھر کی ، تو یہ تقسیم صدیوں سے چلی آرہی ہے ا لبتہ موجودہ زمانے میں مجروح ہوئی ہے کیونکہ خواتین بھی معاشی سرگرمیوں میں جانے لگی ہیں ، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے سسٹم میں بہت تغیر و تبدل ہو رہا ہے۔ یہ شریعت کا مسئلہ نہیں بلکہ سوسائٹی کے معروف کا مسئلہ ہے اور سوسائٹی کے معروفات میں اصل چیز یہ ہے کہ باہمی موافقت سے گھر چلایا جائے ۔ البتہ مرد کو چونکہ گھر چلانے کی انتظامی ذمہ داری بھی دی گئی ہے تو مرد اگر محسوس کرتا ہے کہ کھانا نہ پکانے کے اصرار سے گھر کا نظم مجروح ہو رہا ہے تو وہ عورت کو مناسب تادیب کر سکتاہے اور یاد رہے کہ تادیب کے مراحل ہیں جنہیں شریعت کی روشنی میں استعمال کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ جملہ اس ترکیب میں درست نہیں۔ اسلام نے زندگی کے بہت سے شعبوں کے بارے میں ہدایات دی ہیں ، رہنمائی فرمائی ہے لیکن مکمل ضابطہ حیات سے مراد ہے کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں مکمل نظام دیا گیا ہوگا یعنی آپ کو زندگی گزرانے کے لیے جو کچھ بھی قانون ضابطے چاہیے تھے وہ سب بیان کر دیے گئے ہیں۔لیکن حقیقت میں توایسا نہیں ہے ۔ چند اصولی باتیں بیان کرنے کے بعد صرف ان امورمیں مداخلت کی گئی ہے جن میں انسان کو رہنمائی کی ضرورت تھی اور وہ رہنمائی بھی اس پہلو سے چاہیے تھی کہ کہیں وہ علم یا عمل کی غلاظت میں مبتلا نہ ہو جائے ۔ نظام بنانا انسانوں کا اپنا کام ہے اور اس معاملے میں انسانوں کودوسروں کے تجربات سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور تمدن کے ارتقا سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے میرے نزدیک یہ تعبیر اسلام کے لیے ایک غلط تعبیر ہے ۔ اس سے اسلام کی دعوت کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے اور اسلام کا اپنا پیغام اس کے نتیجے میں بالکل مسخ ہو گیا ہے اور عام لوگوں پر اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ گویا زندگی گزرانے کے لیے ہر چیز ہمیں لکھ کر دے دی گئی ہے ، بس اس نسخے کو استعمال کرنا ہے ، یہ بات نہیں ہے ۔قرآن مجید میں اور پیغمبروں کی جو ہدایت ہمیں ملی ہے اس کی نوعیت یہ ہے کہ انسان کو بینا پیدا کیا گیا ہے ، وہ اپنے لیے ضابطے ، قانون اور تمدنی ارتقا کے اصول بنائے ، ترقی کرے ، سوچے ، غور کرے ، دوسری قوموں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے ، آگے بڑھے ۔البتہ اگر اس کے علم و عمل کے تزکیہ میں کوئی خرابی کا اندیشہ ہے تو وہاں اللہ تعالی نے رہنمائی کر دی ہے۔چنانچہ معیشت سے متعلق سات آٹھ چیزیں بیان کر دی گئی ہیں، سیاست کے معاملے میں چار پانچ چیزیں بیان کر دی گئی ہیں ، اسی طرح چار جرائم کی سزائیں بیان کی گئی ہیں ، باقی تمام معاملات انسانوں کی عقل پر چھوڑ دیے گئے ہیں ۔ بے شمار چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہم خود طے کرتے ہیں ، قا نون سازی کرتے ہیں مثلاً ٹریفک ہے ، اس کے معاملات آج سے دو سو سال پہلے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ آپ کو پورا پورا ضابطہ بنانا پڑتا ہے ۔ ضابطے اب موجودہ زمانے کی ضرورت ہیں ، اسی طرح سے ریاست ہے ، موجودہ زمانے میں جو procedural law ہے جس کے تحت ریاست چلتی ہے اس میں بے شمار قوانین خود بنانے پڑتے ہیں، اس میں بھی پارلیمنٹ مسلسل قوانین بناتی رہتی ہے ۔تو اسلام نے یہ نہیں کیا اور نہ اس کے بارے میں ایسا تصور قائم کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا کرتا تو یہ خدا کا ابدی دین نہ ہوتا ۔ابدی دین یہ ایسے ہی ہو سکتا تھا کہ بنیادی چیزوں میں رہنمائی کر دے باقی اس کے بعد انسان خود اپنے لیے سب کام کرتا ہے ۔اسلام نے کوئی نظام یا ضابطہ حیات نہیں بنا کر دے دیا بلکہ زندگی گزرانے کا ایک زاویہ دیا ہے اور بنیادی رہنمائی کر دی ہے ۔ آپ یوں سمجھیں کہ راستہ تو ہم چل سکتے تھے لیکن جو موڑ ایسے آجاتے ہیں کہ جہاں تذبذب کا اندیشہ تھا، ان میں گویا ایک لالٹین نصب کر دی گئی ہے کہ رہنمائی ہو۔یہ نوعیت ہے اور اس نوعیت کو سمجھ کر دین کی طرف رجوع کیا جائے گا تو آپ صحیح جگہ پر کھڑے ہونگے اور اگر ساری چیزیں برآمد کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ غلط زاویہ ہو جائے گا۔        

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی لازم نہیں نماز پڑھنے کے لیے ۔نماز الگ حکم ہے اور یہ الگ حکم ہے تو ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی کچھ یادگاریں مثلاً عصا وغیرہ اس میں محفوظ تھا۔ یہ ایک صندوق تھا جس میں یہ یادگاریں رکھ دی گئی تھیں۔ جس طرح بیت اللہ کے بارے میں ایک تقدس ہے، اسی طرح اس صندوق کے بارے میں تھا۔ اس کو قبلہ قرار دے دیا گیا تھا ۔ بنی اسرائیل جب تک سفر میں رہے اسی کو قبلہ قرار دیکر نماز پڑھ لیتے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا مطلب یہ ہے کہ قتال اور جہاد اسلامی قانون کا حصہ ہے ۔ اس کے جب مواقع پیدا ہوتے ہیں تو مسلمان تلوار اٹھاتے ہیں اوراٹھاتے رہیں گے۔ یہ چیز رک نہیں سکتی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر وقت لڑتے رہیں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ہمارے قانون کاحصہ ہے اور جب بھی کسی زمانے میں حالات کا تقاضا ہو گا مسلمان شریعت کی شرائط کے تحت جہاد کریں گے کوئی چیز اس میں مانع نہیں بن سکتی۔ یہ روایت ان لوگوں کے فتنے کااستیصال کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ جہاد کا حکم منسوخ ہو گیا ۔جہادخدا کی شریعت کے اندر موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا اور جب موقع ہو گا مسلمان اپنے رب کی آواز پر لبیک کہتے رہیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آخری وقت سے اگرسکرات موت مراد ہے تو اس وقت تو توبہ قبول نہیں ہوتی ،البتہ اس سے پہلے پہلے تو اللہ نے مہلت دی ہوئی ہے اور کیا معلوم وہ پروردگار غفور الرحیم کب قبول کر لے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا ممکن ہی نہیں، غیر جانبدارانہ تحقیق اسے لازمی اسلام تک پہنچائے گی ۔ اب تھوڑی دیر کو مفروضہ قائم کر لیں کہ آدمی نے واقعتا بڑی غیر جانبدار تحقیق کی اور وہ اس نتیجے کو نہیں پہنچ سکا تو پھر وہ معذور ہے اور اللہ تعالی اس کی معذوری کو قیامت میں قبول فرمائیں گے ۔کیونکہ وہ نیتوں کا حال جانتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ترتیب خود اللہ تعالی نے دی ہے ،اس لیے اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ ان علینا جمعہ و قراٰنہ ۔ فاذا قراناہ فاتبع قراٰنہ کہ یہ ترتیب ہم نے دی ہے اور اس کو مرتب ہم کریں گے ، اس لیے اس کو اب کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول فطرت کا بہترین نمونہ ہوتاہے لیکن طبعی طور پر چیزوں کے بارے میں اس کی بھی پسند ناپسند ہوتی ہے مثلاً حضورﷺ ایک مرتبہ کہیں گئے تو انہوں نے گو کاگوشت پکایاہوا تھا، حضورﷺ نے کہا میں اسے پسند نہیں کرتا تو آپ نے نہیں کھائی ۔ آپ کے ساتھ حضرت خالد بن ولیدؓ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کھالیا۔ اس کا تعلق اصل میں طبعی مزاج سے ہے۔حرام کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے کوئی شرعاً حرام کر لیا تھا ۔مطلب یہ ہے کہ وہ کھاتے نہیں تھے ، یہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے رسالت مآبﷺ نے کسی بیوی کے لیے کہہ دیا تھا کہ اچھا میں اب شہد نہیں کھایا کروں گاتو اللہ تعالی نے کہا کہ آپ پیغمبر ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے معاملے میں وہی ہو جائے جو حضرت یعقوبؑ کے معاملے میں ہوا تھا۔اس لیے ایسا نہ کریں۔یعنی حضرت یعقوبؑ نے حرام نہیں کیا تھا ، بنی اسرائیل نے بعد میں اس کو حرام کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ ہر چیز پر تنبیہہ نہیں کرتے ، وہ انسانوں کو رائے قائم کرنے کا موقع دیتے ہیں اور جب انسان پے در پے غلطی کرتے ہیں تو پھر اللہ تنبیہہ کرتے ہیں ۔ اگر اللہ پہلے ہی تنبیہات کردیں تو پھر انسان کے اندر سوچنے کا جذبہ اور آزادی فطرت ختم ہوجائے ، اللہ کا طریقہ یہی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بلی کے بارے میں اللہ کے پیغمبر نے ہم کو بتا دیا ہے باقیوں کے بارے میں ا للہ نے ہم کو عقل دی ہے آپ کو خود رائے قائم کر لینی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ دینی اصطلاحات نہیں، یہ لوگوں کے ایجاد کردہ ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ٹھیک ہے ، اس کا مضمون ہی یہ بتا رہا ہے کہ کوئی شبہ نہیں اس میں۔ ہر ہر صحابی ستارہ ہے ان کی یہ حیثیت دین نے بیان کر دی ہے کہ وہ دین کے گواہ بنائے گئے ہیں ۔ خدا نے ان کا انتخاب کیا ہے اور ان کے اتمام حجت سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو پیغمبر کے اتمام حجت سے نکلتا ہے تو صحابہ کرام ؓ کے اس مقام میں کوئی شک نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ تو حضرت مسیحؑ کو بھی معلوم نہ تھا کہ میرے بعد لوگ مجھے معبود بنا لیں گے ، اس کی کوئی ذمہ داری ان بزرگوں پر عائد نہیں ہوتی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب کوئی آدمی مسلسل حق کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے اورخود کو اللہ کے عذاب کا مستحق کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالی اس دنیا میں اس کے دل کو قبول حق کے لیے بند کر دیتے ہیں، یہ مطلب ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عربی کا معروف لفظ ہے اور قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے ، اس کی تاویل کرتے وقت ہمیشہ عربی مبین ہی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حد قرآن مجید میں بیان ہو گئی ہے ۔ قرآن نے یہ بتا دیا ہے کہ اگر کوئی آدمی قرآن کے متعین عقائد سے انحراف کرے یعنی ایسے عقائد جن میں کسی دوسری تاویل کی گنجائش نہ ہو یعنی نماز پڑھنے سے انکار کردے یا زکوۃ دینے سے تواسلامی ریاست اسے غیر مسلم قرار دے سکتی ہے ، یہ سورہ توبہ میں بیان ہو گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید نے اسراف ،تکبر اور دولت کی نمائش سے روکا ہے ۔ حضورﷺ نے اس کو سامنے رکھ کر لوگوں کو سونا اور اس طرح کی چیزیں پہننے سے منع فرمایا ، یہ پیغمبرﷺ کی تعلیم اور ہدایت ہے اور اس میں بڑی حکمت ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور طرح طرح کے تاویلیں کر کے اس کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیوی کے نام کرنے کا مطلب اگریہ ہے کہ اس نے باقاعدہ اسے مالک بنا دیا تھا تو اب یہ بیوی کی میراث ہے اور یہ میراث بیوی کے وارثوں ہی میں تقسیم ہو گی اور اس میراث میں شوہر کا بھی ایک حصہ مقرر ہے جو اس کو مل جائے گا ، واپس ملنے کا کوئی سوال نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انسان کے جسم کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس کا کیا حال ہوتا ہے لیکن اس کی اصل شخصیت کہاں جاتی ہے ، ہم نہیں جانتے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ وہ عالم برزخ میں ہوتے ہیں وہاں لے جا کر ان کو سلادیا جاتاہے۔ قبرستان میں ہم سلام اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ایک دعا ہے ۔سلام کا جواب دینے کے بارے میں ہمارے پا س کوئی دلیل نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)