جواب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یاَیّْھَا الَّذِینَ اٰمَنْوا اَوفْوا بِالعْقْودِ (المائدۃ:۱)
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، عہدو پیمان کو پورا کرو“
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھاہے کہ اس میں وہ عہدو پیمان بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں نے کیے ہیں اور وہ عہدو پیمان بھی جو مختلف دنیاوی معاملات میں لوگ آپس میں کرتے ہیں۔
ملازمت کے ضمن میں ہونے والا عہدو پیمان دو طرح کاہوسکتا ہے: ایک کام کا، یعنی ملازم اِس چیز کاپابند ہو کہ اسے جو کام دیاگیا ہے اسے پورا کرے، خواہ کتنے ہی کم وقت میں اسے کرڈالے یا کتنا ہی زیادہ وقت اس میں لگے۔ دوسرا وقت کا، یعنی جتنے وقت کا اس سے معاہدہ کیاگیا ہے، اتنا وقت ضرور گزارے، چاہے اس نے اپنامفوضہ کام اس سے کم وقت میں نمٹالیاہو۔عموماً کالجوں، یونی ورسٹیوں، فیکٹریوں اوردیگر اداروں میں ملازمین کام کے ساتھ وقت کے بھی پابند ہوتے ہیں اور ان کے لیے متعینہ اوقات جائے ملازمت پر گزارنا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ تو سراسر فراڈ اور دھوکہ بازی ہے کہ آدمی کام پر نہ جائے اور رجسٹر میں حاضری دکھادے، ساتھ ہی یہ بھی معاہدہ کی خلاف ورزی اور دیانت و امانت کے خلاف ہے کہ وہ متعینہ اوقات کی پابندی نہ کرے، جب چاہے کام پر جائے اور جب چاہے وہاں سے چل دے۔ عموماً سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر ملازمین اس کاخیال نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں ضابطے موجود ہوتے ہیں، اساتذہ کو تاکید کی جاتی ہے کہ متعینہ اوقات میں وہ کالج یا یونی ورسٹی کے کیمپس میں ہی رہیں، چاہے ان کے پیریڈ خالی ہوں، تاکہ ان کی موجودگی سے طلبہ فائدہ اٹھائیں، لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اساتذہ ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتے۔ وہ خالی پیریڈ میں کیمپس میں موجود رہنا ضروری نہیں سمجھتے۔ شروع کے پیریڈ خالی ہوں تو دیر سے کالج یا یونی ورسٹی پہنچتے ہیں اور آخر کے پیریڈ خالی ہوں تو کالج یا یونی ورسٹی کاوقت پورا ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل لیتے ہیں، حالاں کہ یہ معاہدہ ملازمت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض دین دار حضرات بھی اس مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اگر وہ کسی دینی جماعت سے وابستہ ہوں تو تدریسی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہ کرکے اور اپنی ملازمت کے فرائض سے غفلت برت کر جماعت کے کاموں کی انجام دہی کو کارِ خیر سمجھتے ہیں، حالاں کہ اس طرح حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی دھوکہ کرتے ہیں اوراپنی ملازمت کے معاملے میں بھی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
آدمی کو جب بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہوجائے اسے توبہ اور بارگاہِ الٰہی میں مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ امید ہے، اللہ تعالیٰ ضرور درگزر فرمائے گا۔ وہ ملازمت میں ہوتو ساتھ ہی یہ بھی پختہ عزم کرے کہ آئندہ وہ اپنے کارہائے مفّوضہ ٹھیک ٹھیک انجام دے گا اور کسی طرح کی خیانت کاارتکاب نہیں کرے گا۔ دورانِ ملازمت بہ طور مشاہرہ جو رقم حاصل ہوئی ہے اس میں سے کتنی جائز ہے اور کتنی ناجائز، اس کاحساب آسان نہیں ہے اور ناجائز رقم کی واپسی میں ٹیکنیکل دشواریاں ہیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے صدقہ وخیرات کرتا رہے۔ امید ہے، اس طرح اس کی کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں کو درگزر فرمائے گا۔
جواب : نکاح کے ضمن میں جن چیزوں کا حکم دیاگیاہے ان میں سے ایک مہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاٰتْواالنِّسَاء صَدْقٰتِہِنَّ نِحلَۃٍ (النساء:۴)
”اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔“
نکاح منعقدہوتے ہی لڑکی مہر کی مستحق ہوجاتی ہے اور اگر بروقت شوہر مہر ادا نہ کرسکے تو وہ اس کے ذمّے قرض رہتاہے۔ اس لیے اگر رخصتی سے قبل شوہر کا انتقال ہوجائے تو بھی لڑکی پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
قرآن کریم میں عدّتِ وفات کاتذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:
وَالَّذِینَ ْتَوَفَّونَ مِنہْم وَتذَرْونَ اَزوَاجًا َّتَرَبَّصنَ بِاَنفْسِہِنَّ اَربَعۃََ اَشہْرٍ وَّعَشرًا (البقرۃ:)”تم میں سے جو لوگ مرجائیں، ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کوچار مہینے دس دن روکے رکھیں۔“
یہ حکم عام ہے، اس لیے اس میں ہرطرح کی عورتیں شامل ہیں۔ وہ بھی جن کانکاح تو ہوگیا ہو، لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو۔ عدّتِ وفات کا حکم اصلاً شوہر کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے دیاگیا ہے۔
جواب : شریعت میں وراثت اور وصیت دونوں کے احکام کھول کھول کر بیان کردیے گئے ہیں، اس لیے وصیت کی بنیاد پر وراثت کے احکام کو معطل نہیں کیاجاسکتا۔ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں اور غیروارث کے لیے کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد مال کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔
صورتِ مسؤلہ میں گود لی ہوئی لڑکی اور اس کے شوہر کے حق میں صرف ایک تہائی مال و جائداد (پراپرٹی) کی وصیت کی جاسکتی ہے۔ سائل کا انتقال ہونے کی صورت میں ان کی اہلیہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک چوتھائی ترکہ کی حق دار ہوں گی (النساء:۱۲) بقیہ ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ان کے بھائیوں کو ملے گا۔
جواب: ترکہ کی تقسیم سے قبل قرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس کے بعد جو کچھ بچے گا وہ پورے کاپورا والد کاہوگا۔ والد کی موجودگی میں بھائیوں کا کچھ حصہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اگر میت صاحبِ اولاد ہوتو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیاجائے۔ اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حق دار ہوگی۔ (یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کردی جائے اور قرض جو اس پر ہو، ادا کردیاجائے۔“
اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ ترکہ کی تقسیم وصیت کی تکمیل اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی۔
۲۔اگر میت کی اولاد ہو اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
۳۔اگر میت کی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا۔
۴۔اگر میت کے بھائی بہن ہوں اور اس کے والدین بھی زندہ ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
مذکورہ بالا صورتوں میں سے موخرالذکر دو صورتوں میں باپ کے حصے کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے علماء نے یہ استنباط کیاہے کہ ان صورتوں میں باپ کاکوئی متعین حصہ نہیں ہے، بلکہ ماں کا حصہ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ سب باپ کاہوگا۔
کسی شخص کے انتقال کے وقت اگر اس کے والدین زندہ ہوں اور اس کے بھائی بہن بھی ہوں تو بھائیوں بہنوں کو کچھ نہ ملے گا، پورا ترکہ ماں باپ میں تقسیم ہوجائے گا۔ اگر والدہ کا انتقال پہلے ہوچکا ہو اور والد زندہ ہوں تو وہ پورے ترکے کے مستحق ہوں گے، اس صورت میں بھی بھائیوں بہنوں کاکچھ حصہ نہ ہوگا۔
جواب: غیرمسلموں سے تعلقات کے ضمن میں یہ اصول ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کے مشرکانہ کاموں میں شرکت اور تعاون کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، البتہ ان کے غیرشرکیہ کاموں اور تہواروں میں شرکت کی جاسکتی ہے اور انھیں تعاون بھی دیا جاسکتا ہے۔جہاں تک پرساد کا معاملہ ہے، اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو کسی مسلمان کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر بھی وہ جائز نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں حرام ماکولات کی جو فہرست بیان کی گئی ہے ان میں یہ بھی ہے:
وَمَا اْہِلَّ بِہ لِغَیرِ اللہِ (البقرۃ:)
”وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیاگیا ہو۔“
غیرمسلم اس طرح کی کوئی چیز دیں تو ان سے دریافت کیاجاسکتاہے اور اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو اسے لینے سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ انھیں بات سمجھادی جائے تو وہ اسے دینے پر اصرار نہیں کریں گے، آئندہ احتیاط کریں گے اور اس کا بْرابھی نہیں مانیں گے۔
جواب: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہو اسے چاہئے کہ وہ شکرانے کے طور پر دوسرے غریب اور ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرے۔ قرآن میں ہے:
وَفِی اَموَالِہِم حَقّ لِّلسَّاءِلِ وَالمَحرْومِ۔ (الذاریات: ۱۹)
”اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لئے“
مال خرچ کرنے کو ’انفاق‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں انفاق کی ترغیب دی گئی ہے اور اللہ کی خوش نودی کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ آدمی کے پاس اس کی اپنی بنیادی ضروریات سے زیادہ جتنا مال ہو، سب خرچ کردے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”پوچھتے ہیں: ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو“۔
انفاق کی ایک مخصوص صورت زکوٰۃ کی ہے۔جس شخص کے پاس کم از کم مال کی ایک متعین مقدار ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان میں سے کسی ایک کی مالیت کے بقدر نقد رقم ہو اور وہ سال بھر اس کے پاس محفوظ رہے تو اس میں سے ڈھائی فیصد نکالنا اور اس کی مخصوص مدات میں اسے خرچ کرنا اس پر فرض ہے۔ اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
جس شخص پر جتنی رقم بطور زکوٰۃ عائد ہوتی ہے وہ اس سے زیادہ خرچ کرسکتا ہے۔ اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کا مستحق ہوگا، لیکن ڈھائی فیصد سے اوپر کی رقم کو زکوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ اسے صدقہ، خیرات، عطیہ، ہبہ، اعانت، کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ہرفرض کی رکعتیں بھی متعین کردی ہیں۔ اب کوئی شخص ان اوقات میں مزید نمازیں پڑھ سکتا ہے، لیکن ان کی حیثیت نوافل کی ہوگی، وہ فرض رکعتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرسکتا۔
زکوٰۃ اور صدقات کو الگ الگ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ زکوٰۃصرف مخصوص مدات میں خرچ کی جاسکتی ہے، جن کی صراحت قرآن کریم (التوبۃ:) میں کردی گئی ہے۔ جبکہ صدقات کی رقمیں ہر کارِ خیر میں صرف کی جاسکتی ہیں۔ جو تنظیمیں یا ادارے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں وہ بھی زکوٰۃ اور صدقات کا الگ الگ حساب رکھتے ہیں، اس لئے انھیں کوئی رقم حوالے کرتے وقت یہ صراحت مناسب، بلکہ ضروری ہے کہ اس میں سے اتنی رقم زکوٰۃ کی ہے اور اتنی عطیہ ہے۔
جواب: زکوٰۃکی جو مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک ’وفی الرقاب‘ (التوبۃ) ہے،یعنی گردنوں کو چھڑانے میں۔ نزولِ قرآن کے عہد میں غلامی کا رواج تھا۔ انسانوں کی گردنیں اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی تھیں۔ قرآن نے ان کی گلوخلاصی کو کارثواب قرار دیا۔ جمہور علماء و مفسرین کا خیال ہے کہ ’فی الرقاب‘ سے مراد غلام ہیں۔ چوں کہ غلامی کی یہ رسم الحمد للہ اب ختم ہوگئی ہے،اس لیے زکوٰۃ کا یہ مصرف اب باقی نہیں رہا۔اْس زمانے میں ایسے قیدی بھی پائے جاتے تھے، جو مختلف جنگوں میں گرفتار کرلیے جاتے تھے، اس لئے کتبِ فقہ میں ایک بحث یہ ملتی ہے کہ کیا زکوٰۃ قیدیوں کو چھڑانے میں صرف کی جاسکتی ہے؟ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ قیدی کو چھڑانے میں زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی، لیکن بعض علماء، جن میں ابن عبدالحکم مالکی، قاضی ابن العربی مالکی، امام احمد(ایک روایت کے مطابق) اور علامہ ابن تیمیہ قابل ذکر ہیں، اس کی اجازت دیتے ہیں۔ادھرکچھ عرصے سے ہندوستانی مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے نوجوانوں کو بلاکسی قصور کے جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔ ان پر اتنے مقدمات لا ددیے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی میں برسوں گزر جاتے ہیں اورجیلوں سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہوپاتی۔ ان کی رہائی کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنا، ان کے مقدمات کی پیروی کرنا، انھیں قید وبند سے چھٹکارا دلانا اور ان کی فلاح وبہبود کے دیگر کام انجام دینا وقت کااہم تقاضا ہے۔ امت کے سربرآوردہ طبقے کو اس کی فکر کرنی چاہیے اوراس کے لیے ہرممکن تدبیر اختیار کرنی چاہیے۔کیا ریاستی دہشت گردی کے شکار ان اسیران کے مقدمات کی پیروی اور ان کو رہائی دلانے کی کوششوں میں زکوٰۃکی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟فقہائے کرام کو اس موضوع پر غور کرنا چاہئے۔ راقم کی رائے ہے کہ مذکورہ معاملہ زکوٰۃ کا مصرف بن سکتا ہے۔ قرآن نے ’وفی الرقاب‘ (گردنیں چھڑانے میں) کی جامع تعبیر اختیار کی ہے۔ زمانہ قدیم میں اس کا انطباق غلاموں پر ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں ہندوستان کے اسیرانِ بلا کی حالت ان سے مختلف نہیں ہے۔ان مظلومین کے سلسلے میں کرنے کے دو کام اور ہیں، جو شاید ان کے مقدمات کی پیروی سے زیادہ اہم ہیں:اول یہ کہ یہ نوجوان عام طور پر اپنے گھروں کا سہارا ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعہ معاش پر ان کے پورے خاندان کا انحصار ہوتا ہے۔ قیدوبند کی بنا پر ان کا سلسلہ معاش منقطع ہوجانے کی وجہ سے ان کے خاندان بڑی آزمائش میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے افراد خانہ دانے دانے کو محتاج ہوجاتے ہیں۔ ایسے موقع پر ضروری ہے کہ متمول حضرات ان خاندانوں کی خبر گیری کریں اور ان کی معاشی کفالت کی ذمے داری لیں۔ دوم یہ کہ جیلوں میں ان نوجوانوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے، ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں اور ان کو جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ ایسے میں ان نوجوانوں کی راحت رسانی کی بھی کوشش کرنی چاہئے، ممکن ہوتو انھیں کچھ سہولیات مثلاً پہننے کے کپڑے اور غذائی اشیاء وغیرہ پہنچائی جائیں۔ دینی لٹریچر، کتب ورسائل بھی پہنچائے جائیں، تاکہ ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہو اور ذہنی ونفسیاتی سکون بھی مل سکے۔
()
جواب: خلع کے وقت اگر شوہر نے ایک طلاق کی صراحت کی تھی تو دوبارہ ازدواجی رشتہ قائم ہونے کی گنجائش ہے، لیکن اگر اس وقت تین طلاق دینے کی صراحت کی گئی تھی تو اب دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔ خلع کے نتیجے میں ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔ یعنی نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ دونوں کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔
جواب: شوہر کے انتقال کے بعد اس کی میراث اس کے مذکورہ پسماندگان میں اس طرح تقسیم ہونی چاہئے تھی:
بیوی : کل مال کا چوتھائی حصہ (۴/۱)
تین چچیرے بھائی:بقیہ مال ان کے درمیان برابر تقسیم ہونا چاہئے تھا۔ (عصبہ ہونے کی وجہ سے)
چچیری بہن کا کچھ حصہ نہیں۔
پھر بیوی کے انتقال کے بعد اس کا مال اس کے مذکورہ وارثین کے درمیان اس طرح تقسیم ہونا چاہئے کہ اس کے چار حصے کیے جائیں۔ ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو دیا جائے اور دو حصہ بھائی کو۔
جواب:آپ نے اپنے حالات بیان کرکے جو مسائل اٹھائے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے:
۱- آپ نے اپنی بہنوں، ان کے شوہروں اور ان کے بچوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو اچھا بدلہ دے گا۔ آپ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے اور آخرت میں اس کا اجر چاہنے کے لیے ہی کیا ہوگا۔ دنیا میں اس کا کوئی بدلہ حاصل کرنا آپ کا مقصود نہیں ہوگا۔
۲- شریعت میں کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ تقسیم کرنے کا صاف الفاظ میں حکم دیاگیا ہے۔ آپ کے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ تقسیم ہونا چاہیے تھا، جو نہیں ہوا۔ بہرحال اب اس کی تقسیم ہوجانی چاہیے۔
۳- کسی شخص کے وارثان میں صرف لڑکے لڑکیاں ہوں تو ترکہ اس طرح تقسیم ہوگاکہ ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔ آپ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق ترکہ کے سات حصے کیے جائیں گے۔ ایک ایک حصہ آپ کی تینوں بہنوں کا ہوگا، دو حصے آپ کے اور دو حصے آپ کے بھائی کے۔
۴- آپ کا جو بھائی باہر رہتاہے وہ بھی ترکہ پانے سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
۵- حق داروں میں سے کوئی بھی اگر چاہے تو اپنی مرضی سے اپنا حصہ چھوڑسکتا ہے یا دوسرے کو دے سکتا ہے۔
۶- آپ کی بہن نے اگر کہاتھا کہ ”میری لڑکی کی شادی کرادو میں اپنا حصہ نہیں لوں گی“ تو انھیں اپنی بات پر قائم رہنا چاہیے۔ اگر وہ اس سے انکار کرتی ہیں اور آپ کے پاس کوئی ثبوت ہوتو پیش کیجیے۔
۷-آپ نے اپنی بہنوں، ان کے شوہروں اور ان کے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی کفالت کرکے جو عظیم اجرو ثواب کمایا
ہے اسے ترکہ کے معاملے میں اپنی بہنوں اور بھائی سے جھگڑا کرکے ضائع مت کیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی کشادہ دلی کا اچھا بدلہ دے گا اور امید ہے کہ وہ آخرت میں ان اچھے کاموں کے اجر کے ساتھ اس دنیا میں بھی آپ کو کشادگی عطافرمائے گا۔
جواب:احناف کے نزدیک اگر کسی شخص کاحالتِ سفر میں کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کاارادہ ہوتو وہ نمازمیں قصر کرے گا۔ اگر اس نے ٹھہرنے کاارادہ توچند دنوں کا کیاتھا، لیکن اس کاکام نہ ہونے کی وجہ سے قیام کی مدت بڑھتی رہی اور اسے متعین طورپر معلوم بھی نہ ہو کہ اسے مزید کتنے دن ٹھہرنا پڑسکتا ہے تو وہ قصر کرتا رہے گا، خواہ کتنے ہی دن اسے ٹھہرنا پڑے۔ مولانا مجیب اللہ ندوی نے لکھاہے:”اگر کہیں راستے میں یا منزل پر دوچار دن ٹھہرنے کا ارادہ تھا، مگر دوچار دن کے بعد نہ جاسکے اور دوچار دن پھر رک گئے۔ اس طرح اگر یک بارگی پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ ہوتو چاہے جتنے دن ٹھہرے وہ مسافر رہے گا اور قصرِ نمازکرے گا۔“
جواب:کوشش کرنی چاہیے کہ زکوٰۃ کی رقم صحیح طریقے سے مستحقین تک پہنچے۔ اسے فوراً خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔ مولانامجیب اللہ ندوی نے لکھاہے:
”اگر کسی نے زکوٰۃ کی نیت سے روپیہ نکال کر علیٰحدہ کردیا اور یہ ارادہ کیاکہ سال بھر کے اندر تھوڑا تھوڑا غریبوں پر خرچ کردے گا تو یہ جائز ہے۔“
یہی معاملہ اداروں اور جماعتوں کا ہے۔ ان کی حیثیت مستحقین کے نمائندہ اور وکیل کی ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کی جو رقم ان کے پاس جمع ہو، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ اور صحیح طریقے سے ان تک پہنچائیں۔ مالِ زکوٰۃ کو تقسیم کرنے کے لیے کسی ادارہ یا جماعت کے حوالے کرنے سے صاحبِ نصاب کا فرض ادا ہوجاتا ہے اور وہ بری الذمہ ہوجاتاہے۔ اب ادارہ یا جماعت کی ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ وہ ایک نظم بناکر اسے مستحقین تک پہنچائے۔ ایک رمضان میں جمع کی گئی رقم اگلے رمضان سے قبل خرچ کردی جائے تو بہتر ہے، لیکن اگر اس میں سے کچھ بچ رہے اور اسے بعد میں خرچ کرنے کی نوبت آئے تو اس میں بھی کوئی مضایقہ نہیں ہے۔
جواب: دیگر مذاہب کے ماننے والے مرد اور عورت اگر اپنے مذہب کے مطابق نکاح کے بندھن میں بندھے ہوں تو اسلام اسے تسلیم کرتا ہے۔ قرآن کریم میں امراۃ فرعون القصص:۹، امراۃ العزیز یوسف:۲۱،، امراۃ ابی لہب لھب:۴ وغیرہ کا تذکرہ موجود ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی جوڑا اسلام قبول کرے تو اس کے نکاح کی تجدید کی ضرورت نہیں۔ عہد نبوی میں جو حضرات
اپنی بیویوں کے ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں سے کسی کے بارے میں مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازسرِنو اس کا نکاح پڑھایا ہو۔ شرح السنہ میں ہے کہ ”بہت سی خواتین نے اسلام قبول کیا، بعد میں ان کے شوہر بھی اسلام لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ نکاح پر ہی انھیں ان کے شوہروں کے حوالے کردیا۔“ حضرت ام حکیم بنت حارث کا واقعہ مشہور ہے۔ وہ اسلام لائیں، مگر ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہل نے اسلام قبول نہیں کیا اور بھاگ کر یمن چلے گئے۔ حضرت ام حکیم کی خواہش پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امان دے دی۔ وہ یمن جاکر انھیں بلالائیں اور ان کی کوشش سے حضرت عکرمہ ایمان لے آئے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کے سابقہ نکاح پر باقی رکھا۔لموسوعہ الفقہیہ کویت میں ہے:
”زوجین کا نکاح اگر حالتِ شرک میں جائز طریقے سے ہواتھا تو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسے درست ماناجائے گا۔“
مشہور عالم دین مفتی عبدالرحیم لاجپوری نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں یہ فتویٰ دیا ہے:”شوہر اور بیوی پہلے ہندوتھے اور انھوں نے ہندو طریقہ کے مطابق نکاح کیاتھا اور اس کے بعد خدا کی توفیق سے دونوں مسلمان ہوگئے تو دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں۔ اسلام لانے کے بعد بلاتجدید نکاح دونوں میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔“٭٭٭