غیر مسلم

جواب: غیرمسلموں سے تعلقات کے ضمن میں یہ اصول ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کے مشرکانہ کاموں میں شرکت اور تعاون کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، البتہ ان کے غیرشرکیہ کاموں اور تہواروں میں شرکت کی جاسکتی ہے اور انھیں تعاون بھی دیا جاسکتا ہے۔جہاں تک پرساد کا معاملہ ہے، اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو کسی مسلمان کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر بھی وہ جائز نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں حرام ماکولات کی جو فہرست بیان کی گئی ہے ان میں یہ بھی ہے:
وَمَا اْہِلَّ بِہ لِغَیرِ اللہِ                             (البقرۃ:)
”وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیاگیا ہو۔“
غیرمسلم اس طرح کی کوئی چیز دیں تو ان سے دریافت کیاجاسکتاہے اور اگر وہ بتوں کا چڑھاوا ہو تو اسے لینے سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ انھیں بات سمجھادی جائے تو وہ اسے دینے پر اصرار نہیں کریں گے، آئندہ احتیاط کریں گے اور اس کا بْرابھی نہیں مانیں گے۔

 

()

ج: مسلمان کو اپنے گردو پیش میں دین پہنچانا چاہیے ، اس میں مسلمان ہوں ان کو بھی بتانا چاہیے ا ور غیر مسلموں کو بھی بتانا چاہیے ۔ جو مسلمان باہر گئے ہوئے ہیں ان کو بھی اپنے ماحول میں اس کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسلمان دین کی دعوت اگر کوئی اجتماعی طریقے سے پہنچانے کا بندوبست کرتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے بہت سے انفرادی کاموں کو موثر بنا کر اجتماعی شکل دے دیتے ہیں۔ جہاں موقع ملے مسلمانوں کو یہ کام بھی کرنا چاہیے ، یہ دین کی نصرت کاکام ہو گا اور اس کو اپنے ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی انجام دینا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حد قرآن مجید میں بیان ہو گئی ہے ۔ قرآن نے یہ بتا دیا ہے کہ اگر کوئی آدمی قرآن کے متعین عقائد سے انحراف کرے یعنی ایسے عقائد جن میں کسی دوسری تاویل کی گنجائش نہ ہو یعنی نماز پڑھنے سے انکار کردے یا زکوۃ دینے سے تواسلامی ریاست اسے غیر مسلم قرار دے سکتی ہے ، یہ سورہ توبہ میں بیان ہو گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اسلام نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی ، اگر کسی حکومت نے کوئی پابندی لگائی ہے تو اس کی ذمہ داری اسلام پر نہیں عائد ہوتی ۔

(جاوید احمد غامدی)