جواب : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یاَیّْھَا الَّذِینَ اٰمَنْوا اَوفْوا بِالعْقْودِ (المائدۃ:۱)
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، عہدو پیمان کو پورا کرو“
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھاہے کہ اس میں وہ عہدو پیمان بھی شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں نے کیے ہیں اور وہ عہدو پیمان بھی جو مختلف دنیاوی معاملات میں لوگ آپس میں کرتے ہیں۔
ملازمت کے ضمن میں ہونے والا عہدو پیمان دو طرح کاہوسکتا ہے: ایک کام کا، یعنی ملازم اِس چیز کاپابند ہو کہ اسے جو کام دیاگیا ہے اسے پورا کرے، خواہ کتنے ہی کم وقت میں اسے کرڈالے یا کتنا ہی زیادہ وقت اس میں لگے۔ دوسرا وقت کا، یعنی جتنے وقت کا اس سے معاہدہ کیاگیا ہے، اتنا وقت ضرور گزارے، چاہے اس نے اپنامفوضہ کام اس سے کم وقت میں نمٹالیاہو۔عموماً کالجوں، یونی ورسٹیوں، فیکٹریوں اوردیگر اداروں میں ملازمین کام کے ساتھ وقت کے بھی پابند ہوتے ہیں اور ان کے لیے متعینہ اوقات جائے ملازمت پر گزارنا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ تو سراسر فراڈ اور دھوکہ بازی ہے کہ آدمی کام پر نہ جائے اور رجسٹر میں حاضری دکھادے، ساتھ ہی یہ بھی معاہدہ کی خلاف ورزی اور دیانت و امانت کے خلاف ہے کہ وہ متعینہ اوقات کی پابندی نہ کرے، جب چاہے کام پر جائے اور جب چاہے وہاں سے چل دے۔ عموماً سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور دیگر ملازمین اس کاخیال نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں ضابطے موجود ہوتے ہیں، اساتذہ کو تاکید کی جاتی ہے کہ متعینہ اوقات میں وہ کالج یا یونی ورسٹی کے کیمپس میں ہی رہیں، چاہے ان کے پیریڈ خالی ہوں، تاکہ ان کی موجودگی سے طلبہ فائدہ اٹھائیں، لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اساتذہ ان ضوابط کی پابندی نہیں کرتے۔ وہ خالی پیریڈ میں کیمپس میں موجود رہنا ضروری نہیں سمجھتے۔ شروع کے پیریڈ خالی ہوں تو دیر سے کالج یا یونی ورسٹی پہنچتے ہیں اور آخر کے پیریڈ خالی ہوں تو کالج یا یونی ورسٹی کاوقت پورا ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل لیتے ہیں، حالاں کہ یہ معاہدہ ملازمت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض دین دار حضرات بھی اس مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اگر وہ کسی دینی جماعت سے وابستہ ہوں تو تدریسی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہ کرکے اور اپنی ملازمت کے فرائض سے غفلت برت کر جماعت کے کاموں کی انجام دہی کو کارِ خیر سمجھتے ہیں، حالاں کہ اس طرح حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی دھوکہ کرتے ہیں اوراپنی ملازمت کے معاملے میں بھی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
آدمی کو جب بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہوجائے اسے توبہ اور بارگاہِ الٰہی میں مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ امید ہے، اللہ تعالیٰ ضرور درگزر فرمائے گا۔ وہ ملازمت میں ہوتو ساتھ ہی یہ بھی پختہ عزم کرے کہ آئندہ وہ اپنے کارہائے مفّوضہ ٹھیک ٹھیک انجام دے گا اور کسی طرح کی خیانت کاارتکاب نہیں کرے گا۔ دورانِ ملازمت بہ طور مشاہرہ جو رقم حاصل ہوئی ہے اس میں سے کتنی جائز ہے اور کتنی ناجائز، اس کاحساب آسان نہیں ہے اور ناجائز رقم کی واپسی میں ٹیکنیکل دشواریاں ہیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے صدقہ وخیرات کرتا رہے۔ امید ہے، اس طرح اس کی کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں کو درگزر فرمائے گا۔
ج: توبہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر گناہ کا صحیح احساس پیدا ہو ۔ ندامت کا صحیح احساس ہی توبہ کو صحیح بناتا ہے ۔ آپ یہ عزم کریں کہ مجھے بہرحال اس سے بچنے کی سعی کرنی ہے ۔ اس کے باوجود گناہ ہو جائے تو پھربھی اپنے رب سے مایوس نہ ہوں ، بار بار توبہ کرتے رہیں، اللہ ایک وقت میں اپنے بندے کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اس کے بعد اس کو گناہوں سے بچانے کا سامان کر دیتا ہے ۔ یہ آزمائش کی زندگی ہے اور رہے گی جب تک داعیات موجود ہیں غلطی ہوتی رہے گی۔ غلطی ہو جائے تو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ جن گناہوں کو اللہ معاف کر دیتے ہیں ، ان کو نہ صرف یہ کہ نامہ اعمال سے محو کر دیتے ہیں بلکہ ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ گناہ انسان کے سامنے قیامت میں نہیں آئیں گے۔ توبہ قبول ہونے کی شرط یہی ہے کہ ندامت ہو ، تلافی کا احساس ہو ۔ آدمی گناہ سے بچنے کے پورے جذبے سے کام کرے اور گناہ ہونے کے فورا بعد توبہ کرے ۔اللہ نے کہا ہے کہ توبہ ان پر قبول کرنا لازم ہے اور وہ قبول کر لیتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر شیطان کا غلبہ ہو جائے تو یہ الگ چیز ہے لیکن توبہ اسی عزم کے ساتھ کرنی چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)