ج: توبہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر گناہ کا صحیح احساس پیدا ہو ۔ ندامت کا صحیح احساس ہی توبہ کو صحیح بناتا ہے ۔ آپ یہ عزم کریں کہ مجھے بہرحال اس سے بچنے کی سعی کرنی ہے ۔ اس کے باوجود گناہ ہو جائے تو پھربھی اپنے رب سے مایوس نہ ہوں ، بار بار توبہ کرتے رہیں، اللہ ایک وقت میں اپنے بندے کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اس کے بعد اس کو گناہوں سے بچانے کا سامان کر دیتا ہے ۔ یہ آزمائش کی زندگی ہے اور رہے گی جب تک داعیات موجود ہیں غلطی ہوتی رہے گی۔ غلطی ہو جائے تو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔ جن گناہوں کو اللہ معاف کر دیتے ہیں ، ان کو نہ صرف یہ کہ نامہ اعمال سے محو کر دیتے ہیں بلکہ ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے وہ گناہ انسان کے سامنے قیامت میں نہیں آئیں گے۔ توبہ قبول ہونے کی شرط یہی ہے کہ ندامت ہو ، تلافی کا احساس ہو ۔ آدمی گناہ سے بچنے کے پورے جذبے سے کام کرے اور گناہ ہونے کے فورا بعد توبہ کرے ۔اللہ نے کہا ہے کہ توبہ ان پر قبول کرنا لازم ہے اور وہ قبول کر لیتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر شیطان کا غلبہ ہو جائے تو یہ الگ چیز ہے لیکن توبہ اسی عزم کے ساتھ کرنی چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آخری وقت سے اگرسکرات موت مراد ہے تو اس وقت تو توبہ قبول نہیں ہوتی ،البتہ اس سے پہلے پہلے تو اللہ نے مہلت دی ہوئی ہے اور کیا معلوم وہ پروردگار غفور الرحیم کب قبول کر لے۔
(جاوید احمد غامدی)