جواب:مکان کا کرایہ لینا حرام نہیں ہے،جبکہ روپے کا کرایہ، یعنی سود لینا حرام ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان اشیا پر کرایہ لینا جائز ہوتا ہے جو استعمال کی جاتی ہیں، صرف (خرچ۔یعنی استعمال کر کے چیز ختم ہو جائے)نہیں کی جاتیں۔ مثلاً جب آپ گھر کرایے پر لیتے ہیں تو آپ اسے بیچ کر اس کے عوض کوئی اور مال نہیں لیتے، بلکہ مکان جیسے ہوتا ہے ویسے کا ویسا پڑا رہتا ہے، بس آپ اس میں رہایش اختیار کرتے ہیں اور جب آپ روپیہ قرض پر لیتے ہیں تو آپ اسے مکان کی طرح ایک جگہ پر پڑا نہیں رہنے دیتے، بلکہ اسے مارکیٹ میں صرف کر کے اس کے بدلے میں کوئی اور شے لیتے ہیں، پھر اسے کہیں لے جا کربیچتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے کاروبار میں ہو سکتا ہے کہ جو چیز آپ نے روپے کے عوض خریدی ہے، وہ کہیں ضائع ہو جائے، اس میں کوئی کمی واقع ہو جائے، اسے کوئی آفت لاحق ہو جائے یا وہ مطلوبہ قیمت پر نہ بکے۔ بہرحال اب آپ کو قرض خواہ کی رقم یہ شے بیچ کر اس کی قیمت میں سے ادا کرنی ہے۔ اس صورت میں معاملہ مکان کے کرایے والا نہیں رہتا، بلکہ اس میں کئی طرح کے خطرات شامل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس پر متعین مدت میں متعین اضافہ بالکل ناجائز ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:اسلام میں تصویر اور موسیقی بذات خود حرام نہیں ہیں۔ البتہ، ان کے ساتھ اگر کوئی آلایش لگی ہوئی ہو تو وہ انھیں مکروہ یا حرام بنا دیتی ہے۔مثلاً، فحش تصاویر بنانا حرام ہے۔ مشرکانہ تصاویر اور مجسمے بنانا حرام ہے۔ اسی طرح وہ موسیقی جو سفلی جذبات پیدا کرتی ہے یا وہ جس کے ساتھ شراب و کباب کی محفلیں برپا ہوتی ہیں، وہ حرام ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:تورات کا کچھ حصہ الواح کی شکل میں نازل ہوا تھا، باقی تورات قرآن ہی کی طرح بتدریج نازل ہوئی تھی۔ قرآ ن مجید میں تورات، انجیل اور خود قرآن تینوں کے لیے نازل کرنے کا لفظ بولا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:''اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تیری طرف اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا۔'' (البقرہ۵۴:۲)
''اس نے تم پر کتاب اتاری حق کے ساتھ، مصداق اس کی جو اْس کے آگے موجود ہے اور اْس نے تورات اور انجیل اتاری اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور پھر فرقان اتارا۔''(آل عمران۴۔۳:۳)
آسمانی کتب اصلاً فرشتوں کے ذریعے سے نازل کی گئی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی سورہ نحل میں ارشاد فرمایا:”اپنے بندوں میں سے وہ جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے کہ لوگوں کو خبر دار کرو کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، اِس لیے تم مجھی سے ڈرو۔'' (۲:۶۱)
جواب:یوسف علیہ السلام کو مصر میں ملک چلانے کے پورے اختیارات حاصل تھے۔ اس کی دلیل درج ذیل آیات ہیں:
''اور بادشاہ نے کہا، اْس کو میرے پاس لاؤ، میں اْس کو اپنا معتمد خاص بناؤں گا۔ پھر جب اْس سے بات چیت کی تو کہا: اب تم ہمارے ہاں بااقتدار اور معتمد ہوئے۔ اس نے کہا: مجھے ملک کے ذرائع آمدنی پر مامور کیجیے، میں متدین بھی ہوں اور با خبر بھی۔ اور اِس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں اقتدار بخشا، وہ اْس میں جہاں چاہے متمکن ہو۔''(سورہ یوسف)
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ وہ مصری حکومت کے ملازم نہیں، بلکہ مصر کے با اقتدار فرماں روا تھے۔
جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ جس خاتون سے انسان بہت محبت رکھتا ہو، اس کے ساتھ شادی کرنے میں بہت مخلص ہو، اس کو بھی کسی نسوانی اور جنسی پہلو سے دیکھتے رہنا، چھونا، اس سے اسی نوعیت کی گفتگو کرنا اور اس کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ، یہ سب باتیں دینی اعتبار سے بالکل ناجائز ہیں۔البتہ جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ آخرت سے متعلق ہے، اس کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں پر ہو سکتا ہے کسی کو اس کے کیے کی کوئی سزا دی جائے یا نہ دی جائے،لہٰذا آپ جہاں شادی کرنا چاہتے ہیں، وہاں خواہ مخواہ کوئی شک نہ کریں۔ اپنی معلومات کے مطابق تسلی رکھیں اور وہم میں نہ پڑیں۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:اگر میاں کی جائداد بھی ہے اور بیوی کی بھی تو دونوں کو اپنی اپنی جائداد پر زکوٰۃ دینا ہو گی۔غامدی صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام نے ہم پر درج ذیل شرح سے زکوٰۃ عائد کی ہے:
'' پیداوار،تجارت اورکاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی چیزوں اور حد نصاب سے کم سرمائے کے سوا کوئی چیزبھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہرمال، ہر قسم کے مواشی اور ہر نوعیت کی پیداوارپر عائد ہوگی اور ہر سال ریاست کے ہر مسلمان شہر ی سے لازماً وصول کی جائے گی۔
اس کی شرح یہ ہے:مال میں ڈھائی فی صدی سالانہ (اگر وہ مال ۲۴۶گرام چاندی کی مالیت سے زیادہ ہے)۔
پیداوار میں اگر وہ اصلاً محنت یااصلاً سرمائے سے وجود میں آئے تو ہر پیداوارکے موقع پراْس کا دس فی صد، اور اگر محنت اورسرمایہ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو۵ فی صدی، اور دونوں کے بغیر محض عطیہ خداوندی کے طور پر حاصل ہو جائے تو ۰۲ فی صدی۔''
اس اصول کے مطابق آپ کو ان مکانوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں دینا جن میں آپ رہ رہے ہیں یا وہ آپ کے زیر استعمال ہیں۔ جو مکان کرایے پر اٹھے ہیں تو ان کے کرایے کا دس فی صد دینا ہو گا اور اگر وہ محض جائداد کی صورت میں قیمت بڑھنے پر بیچنے کے لیے روکے ہوئے ہیں تو پھر ہر سال ان کی حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد دینا ہو گا۔
زیورات پر مال کی زکوٰۃ (حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد) لگے گی۔اپنے کاروبار سے (جس میں آپ کا سرمایہ اور آپ کی محنت، دونوں صرف ہوتے ہیں اس سے) ہونے والی آمدنی اگر آپ کی حقیقی ضروریات کے بقدر رقم سے زیادہ ہے تو پھر کل آمدنی کا پانچ فی صد آپ کو دینا ہو گا۔
جواب:آخرت میں اس کی معافی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ دنیا میں آدمی لازماً سزا پا چکا ہو، بلکہ محض سچی توبہ اور اصلاح سے بھی یہ آخرت میں معاف ہو سکتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی سے بھی جنسی تعلق قائم کرنا زناہی ہے اور بے شک یہ گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ:''اور جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو سوائے حق کے ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جو کوئی یہ کام کرے گا، وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اْس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ سوائے اس کے کہ کوئی(ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔''(الفرقان)
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ بے شک زنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کی سزا جہنم کا ابدی عذاب ہو سکتی ہے، لیکن اگر اللہ چاہے تو یہ سچی توبہ اور اصلاح سے بالکل معاف بھی ہو سکتا ہے۔
جواب:آپ نے جو بات سنی ہے، وہ صحیح ہے. ہمارے فقہا یہ بات اسی طرح بیان کرتے ہیں. ان کی اس بات کی بنیاد یہ سوال ہے کہ اگر کسی آدمی کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو کب اسکے لیے اپنی بیوی کی بہن سے نکاح جائز قرار پاتا ہے، کیونکہ قرآن نے ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ٹھہرایا ہے.
1- کیا اس کے وفات پانے کے کچھ عرصہ بعد؟
2- کیا اْس کی لاش کے دفنا دینے کے فوراً بعد؟
3- کیا اس کی وفات پانے کے فوراً بعد؟
فقہا اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ قانونی طور پر بیوی کی وفات کے فوراُ بعد اس کی بہن سے نکاح جائز ہو جاتا ہے. وہ اس بات کا لازمی تقاضا یہ محسوس کرتے ہیں کہ وفات کے فوراً بعد بیوی کے مردہ جسم کو شوہر کے لیے نامحرم خاتون کا جسم قرار دے دیا جائے.
تا ہم بعض حضرات اس کے خلاف بھی رائے رکھتے ہیں اور ان کی دلیل بعض صحابہ کا عمل ہے۔
جواب:سفلی علوم (جادو ٹونے) کے عاملوں سے لازماً بچنا چاہیے، کیونکہ یہ لوگ شیاطین کو خوش کرنے کے لیے کئی طرح کے مشرکانہ اور کافرانہ عمل کرتے ہیں۔ جو لوگ ان سے اپنا کوئی کام کراتے ہیں، وہ دراصل خدا کو چھوڑ کر ان کے شیاطین کی مدد سے اپنا کام کراتے ہیں۔رہی ان لوگوں کی یہ بات کہ ہم تو اپنا عمل کرتے ہیں، شفا تو اللہ ہی دیتا ہے تو یہ بس ان کے منہ کی بات ہے جو شاید یہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے ہیں، ورنہ جادو کرنا کرانا تو صریح کفر ہے۔ ان کے اس قول کی مثال یہ ہے کہ کوئی چور بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں تو بس چوری کرتا ہوں، رزق تو مجھے اللہ ہی دیتا ہے۔ یقینا چور اللہ کے اذن ہی سے چوری پر قادر ہوتا اور جادو کرنے والا اللہ کے اذن ہی سے جادو کر پاتا ہے اور اس کا جادو اللہ کے اذن ہی سے کامیاب ہوتا ہے، لیکن اللہ کی رضا اچھے کام کرنے میں ہے اور ناراضی برے کام کرنے میں ہے گو برے کام بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہو سکتے۔چنانچہ آپ ان کے اس جملے سے دھوکا نہ کھائیں۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:یقینا آدم علیہ السلام ہی دنیا کے پہلے انسان تھے۔ارشاد باری ہے:
خَلَقَہ، مِن تْرَابٍ ثْمَّ قَالَ لَہ، کْن فَیَکْونْ.(آل عمران)
''خدا نے اس (آدم) کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ تو ہو جا تو وہ ہو گیا۔''
یعنی آدم کے ماں باپ نہ تھے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے آدم کو مٹی سے کیسے بنایا تو یہ اْن امور میں سے ہے، جن کا اللہ نے ہمیں مشاہدہ نہیں کرایا۔لہٰذا، ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، بس جتنے الفاظ قرآن میں آئے ہیں، انھی کو بیان کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہ مٹی جس سے آدم کو بنایا گیا تھا،وہ پہلے گارا تھی پھر سوکھ کر کھنکھنانے لگی، پھر ایک مرحلے پر اس میں روح پھونکنے کا عمل ہوا تھا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس عمل کی حقیقت کیا تھی۔
یقیناآدم علیہ السلام ہی پہلے نبی تھے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ اصطَفٰی اٰدَمَ وَ نْوحًا وَّاٰلَ اِبرٰہِیمَ.(آل عمران)
'' بے شک اللہ نے منتخب فرمایا (نبوت کے لیے) آدم، نوح اور آل ابراہیم کو۔''
اس آیت میں آدم علیہ السلام کی نبوت کا ذکر ہے۔
فرشتوں کے سجدہ کرنے کا واقعہ تمثیلی نہیں،بلکہ حقیقی ہے۔ اس کا حکم اللہ نے تخلیق آدم سے پہلے ہی فرشتوں کو دے دیا تھا۔ ارشادباری ہے:
وَاِذ قَالَ رَبّْکَ لِلمَلٰءِکَۃِ اِنِّی خَالِق بَشَرًا مِّن صَلصَالٍ مِّن حَمَاٍ مَّسنْونٍ فَاِذَا سَوَّیتْہ، وَنَفَختْ فِیہِ مِن رّْوحِی فَقَعْوا لَہ، سٰجِدِینَ.(الحجر)
'' اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو تخلیق آدم سے پہلے ہی سجدے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ یہ بات تمثیلی نہیں ہو سکتی۔
جواب:اصل دین میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یعنی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ خدا ایک ہے، رسالت برحق ہے، آخرت یقینی ہے، خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ انسان کو خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کرنی ہے، اپنے معاملات سیدھے اور صاف رکھنے ہیں اور اچھے اخلاق کو اپنانا ہے، لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں۔
البتہ، فروعی مسائل اور اجتہادی آرا میں ضرور اختلاف ہے۔ ان اختلافات کو آپ اسی طرح حل کریں، جیسے آپ اپنی بیماری کے معاملے میں کئی ڈاکٹروں کی مختلف آرا میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہیں، حالانکہ آپ ڈاکٹر نہیں ہوتے اور نہ آپ کے پاس مختلف ڈاکٹروں کے استدلال کا کوئی جواب ہوتا ہے۔
جواب:ترجموں کے حوالے سے آپ نے جو بات لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عالم نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، وہ تو کچھ عربی جانتا تھا، چنانچہ اس نے عربی قرآن کا فارسی میں ترجمہ کر لیا، لیکن جن لوگوں نے قرآن کا ترجمہ مثلاً اردو میں کیا ہے، وہ عربی کوئی خاص نہیں جانتے تھے، البتہ وہ فارسی بہت اچھی جانتے تھے،چنانچہ وہ فارسی ترجمے ہی کی مدد سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنے پر مجبور تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کے اردو ترجمے کو دیکھیے، وہ ایک بے مثال ترجمہ ہے۔ کوئی شخص بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مسلمان امت میں قرآن کا ترجمہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں نے کیا ہے اور جو عربی زبان جانتے تھے، انھوں نے ایسے ترجمے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے دیے اور خود اس ضمن میں کوئی کام نہ کیا۔اس طرح کے اشکالات عموماً ان لوگوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں جو عربی زبان سے ناواقف تھے۔
جواب: قرآن مجید جس معاشرے میں نازل ہوا تھا، وہ نہ صرف لباس پہننے والوں کا معاشرہ تھا، بلکہ ان کے ہاں عورتوں کے جسم ڈھانپنے کا یہ عالم تھا کہ ان کی کنواریوں کی پنڈلیاں کسی بڑی آفت ہی کے موقعے پر غیر لوگوں کے سامنے کھلتی تھیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی میں انسانوں کو فحاشی سے بچانے، زنا جیسے قبیح فعل سے بہت دور رکھنے اور ان کے دلوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے مرد و زن کے اختلاط کے مواقع پر مردوں اور عورتوں، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے سے غض بصر کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور عورتوں کو اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے سر کی اوڑھنیوں سے اپنے سینے پر اچھی طرح سے بکل مار لیں، اپنی زینت کی نمایش نہ کریں اور زمین پر اس طرح سے پاؤں مارتی ہوئی بھی نہ چلیں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہو جائے۔ قرآن کے ان احکام کا مطلب یہ ہے کہ مومن مرد اور مومنہ عورتیں اپنے جسموں کے ہر اس حصے کو ڈھانپیں جسے شیطان کھلوا کر ان کو فحاشی کی طرف لے جانا اور انھیں زنا کے قریب کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک قرآن مجید کی مجموعی تعلیم اور اس کے ان احکام کے بعد عورتوں کے لیے، مثلاً یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کندھے، بازو اور پنڈلیاں یا اپنا پیٹ اور کمر لوگوں کے سامنے نمایاں کرتی پھریں۔”سورہ نور میں مرد و زن کے اختلاط کے جو آداب بیان ہوئے ہیں، وہ انسان کو اِسی طرح کی چیزوں سے بچانے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اْن کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد وعورت، دونوں اپنے جسمانی اور نفسیاتی تقاضوں کے لحاظ سے اپنی نگاہوں کو زیادہ سے زیادہ بچا کر اوراپنے جسم میں اندیشے کی جگہوں کو زیادہ سے زیادہ ڈھانپ کررکھیں اورکوئی ایسی بات نہ کریں جو ایک دوسرے کے صنفی جذبات کو برانگیختہ کرنے والی ہو۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جب کسی معاشرے میں زناکو عام کرنا چاہتاہے تو وہ اپنی تاخت کی ابتدا بالعموم اِنھی چیزوں سے کرتا ہے۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم و حوا پر بھی وہ اِسی راستے سے حملہ آور ہوا تھا۔ چنانچہ فرمایا ہے:
یٰبَنِی اٰدَمَ، لاَ یَفتِنَنَّکْمْ الشَّیطٰنْ کَمَآ اَخرَجَ اَبَوَیکْم مِّنَ الجَنَِّۃ، یَنزِعْ عَنہْمَا لِبَاسَہْمَا لِیْرِیَہْمَا سَواٰتِہِمَا، اِنَّہ، یَرٰکْم ہْوَ وَقَبِیلْہ،، مِن حَیثْ لاَ تَرَونَہْم، اِنَّا جَعَلنَا الشَّیٰطِینَ اَولِیَآء َ لِلَّذِینَ لاَ یْؤمِنْونَ.(الاعراف)
''آدم کے بیٹو، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے، جس طرح اْس نے تمھارے والدین کو اْن کے لباس اتروا کرکیا کہ اْن کی شرم گاہیں اْن کے سامنے کھول دے، اْس باغ سے نکلوا دیا تھا (جس میں وہ رہ رہے تھے)۔ وہ اور اس کے ساتھی تمھیں وہاں سے دیکھتے ہیں، جہاں سے تم اْنھیں نہیں دیکھ سکتے۔ اِس طرح کے شیطانوں کو (البتہ)، ہم نے اْنھی لوگوں کا ساتھی بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔''
یہ حملہ کس طرح ہوتا ہے؟''... وہ اپنی وسوسہ اندازیوں سے پہلے لوگوں کو اْس لباس تقویٰ و خشیت سے محروم کرتاہے جو اللہ نے بنی آدم کے لیے اِس ظاہری لباس کے ساتھ ایک تشریف باطنی کی حیثیت سے اتاراہے...جب یہ باطنی جامہ اتر جاتا ہے تو وہ حیا ختم ہو جاتی ہے جو اِس ظاہری لباس کی اصل محرک ہے۔ پھر یہ ظاہری لباس ایک بوجھ معلوم ہونے لگتاہے۔ بے حیائی صنفی اعضا میں، جن کا چھپانا تقاضائے فطرت ہے، عریاں ہونے کے لیے تڑپ پیدا کرتی ہے، پھر فیشن اس کو سہارا دیتا ہے اوروہ لباس کی تراش خراش میں نت نئی اختراعات سے ایسے ایسے اسلوب پیدا کرتا ہے کہ آدم کے بیٹے اورحوا کی بیٹیاں کپڑے پہن کر بھی لباس کے بنیادی مقصد،یعنی ستر پوشی کے اعتبار سے گویا ننگے ہی رہتے ہیں۔پھر لباس میں صرف زینت اورآرایش کا پہلو باقی رہ جاتا ہے اور اْس میں بھی اصل مدعا یہ ہوتاہے کہ بے حیائی زیادہ سے زیادہ دل کش زاویہ سے نمایاں ہو۔ پھر آہستہ آہستہ عقل اِس طرح ماؤف ہوجاتی ہے کہ عریانی تہذیب کا نام پاتی ہے اور ساتر لباس وحشت و دقیانوسیت کا۔ پھر پڑھے لکھے شیاطین اٹھتے ہیں اور تاریخ کی روشنی میں یہ فلسفہ پیدا کرتے ہیں کہ انسان کی اصل فطرت تو عریانی ہی ہے، لباس تو اس نے رسوم و رواج کی پابندیوں کے تحت اختیار کیا ہے۔ یہ مرحلہ ہے جب دیدوں کا پانی مر جاتا ہے اورپورا تمدن شہوانیت کے زہر سے مسموم ہوجاتا ہے۔''
جواب:ایسا نہیں ہے کہ دعائے استخارہ سے ہمارا خدا کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے اور ہم اپنے مسئلے میں خدا کی بات یقینی صورت میں معلوم کر لیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو پھر ظاہر ہے کہ اس کی مخالفت صریحاً غلطی ہوتی۔
دعائے استخارہ دراصل، خدا سے خیر طلب کرنے کی دعا ہے۔ یہ دعا درج ذیل ہے:
''اے اللہ، میں تیرے علم کے واسطے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطے سے قدرت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں، اس لیے کہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا اور تو علام الغیوب ہے۔ اے اللہ، اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین اور میری زندگانی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور آسان بنا دے، پھر اس میں برکت پیدا کر دے اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین اور میری زندگانی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے۔ (پروردگار)، میرے لیے خیر کو مقدر فرما، وہ جہاں کہیں بھی ہو، پھر مجھے اس سے راضی کر دے۔''
اس میں ہم اللہ سے اس کے علم کے مطابق جو چیز بہتر ہو،وہ طلب کرتے ہیں۔ جب یہ دعا قبول ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اشارے کے ذریعے سے خدا ہمیں اپنا کوئی فیصلہ سنا دیتا ہے، بلکہ دعا کی قبولیت کی صورت میں وہ اس چیز کو جو ہمارے لیے بہتر ہو،اسے ہمارے مقدر میں لکھ دیتا ہے، اس کے بارے میں ہمارا تردد ختم کر دیتا ہے، وہی ہماری پسند اور ہماری رائے بن جاتی ہے، لہٰذا جو بات خواب وغیرہ میں ہم دیکھیں، اگر اس پر ہمارا دل نہیں جم رہا اور وہ ہمیں صحیح محسوس نہیں ہو رہی تو پھر اسے نہیں ماننا چاہیے۔ البتہ، اگر وہ ہمارے علم و عقل کے مطابق ہمیں بہتر محسوس ہو تب اس پر عمل کر لینا چاہیے، کیونکہ دعا کی قبولیت کی صورت میں خدا کے نزدیک جو بات بہتر ہے، اس نے مقدر ہو جاناہے۔خدا سے دعا مانگنے کے لیے دل کا اخلاص ضروری ہے۔