جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ جس خاتون سے انسان بہت محبت رکھتا ہو، اس کے ساتھ شادی کرنے میں بہت مخلص ہو، اس کو بھی کسی نسوانی اور جنسی پہلو سے دیکھتے رہنا، چھونا، اس سے اسی نوعیت کی گفتگو کرنا اور اس کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ، یہ سب باتیں دینی اعتبار سے بالکل ناجائز ہیں۔البتہ جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ آخرت سے متعلق ہے، اس کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں پر ہو سکتا ہے کسی کو اس کے کیے کی کوئی سزا دی جائے یا نہ دی جائے،لہٰذا آپ جہاں شادی کرنا چاہتے ہیں، وہاں خواہ مخواہ کوئی شک نہ کریں۔ اپنی معلومات کے مطابق تسلی رکھیں اور وہم میں نہ پڑیں۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:اصل دین میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یعنی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ خدا ایک ہے، رسالت برحق ہے، آخرت یقینی ہے، خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ انسان کو خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کرنی ہے، اپنے معاملات سیدھے اور صاف رکھنے ہیں اور اچھے اخلاق کو اپنانا ہے، لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں۔
البتہ، فروعی مسائل اور اجتہادی آرا میں ضرور اختلاف ہے۔ ان اختلافات کو آپ اسی طرح حل کریں، جیسے آپ اپنی بیماری کے معاملے میں کئی ڈاکٹروں کی مختلف آرا میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہیں، حالانکہ آپ ڈاکٹر نہیں ہوتے اور نہ آپ کے پاس مختلف ڈاکٹروں کے استدلال کا کوئی جواب ہوتا ہے۔
جواب:ترجموں کے حوالے سے آپ نے جو بات لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عالم نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، وہ تو کچھ عربی جانتا تھا، چنانچہ اس نے عربی قرآن کا فارسی میں ترجمہ کر لیا، لیکن جن لوگوں نے قرآن کا ترجمہ مثلاً اردو میں کیا ہے، وہ عربی کوئی خاص نہیں جانتے تھے، البتہ وہ فارسی بہت اچھی جانتے تھے،چنانچہ وہ فارسی ترجمے ہی کی مدد سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنے پر مجبور تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کے اردو ترجمے کو دیکھیے، وہ ایک بے مثال ترجمہ ہے۔ کوئی شخص بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مسلمان امت میں قرآن کا ترجمہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں نے کیا ہے اور جو عربی زبان جانتے تھے، انھوں نے ایسے ترجمے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے دیے اور خود اس ضمن میں کوئی کام نہ کیا۔اس طرح کے اشکالات عموماً ان لوگوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں جو عربی زبان سے ناواقف تھے۔
جواب: قرآن مجید اللہ رب العالمین کا کلام ہے جو خاتم الانبیاء جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے نازل ہوا۔ جو مصاحف میں مکتوب ہے اور تواتر کے ساتھ ہمارے پاس چلا آ رہا ہے۔ جس کی تلاوت کرنا عبادت ہے اور جس کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے اور اختتام سورۃ الناس پر ہوتا ہے۔
جواب: قرآن کریم کو متعدد ناموں سے موسوم کیا گیا ہے:
(1) الکتاب (2) الفرقان (3) التنزیل (4) الذکر (5) النور (6) الھدی (7) الرحمتہ (8) احسن الحدیث (9) الوحی (10) الروح (11) المبین (12) المجید (13) الحق۔
جواب: قرآن مجید میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ یہ مقدس کتاب اسی حالت میں ہے جس حالت میں نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے چھوڑ گئے تھے۔
جواب: جی ہاں ! جو شخص قرآن مجید میں کمی زیادتی کا عقیدہ رکھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
جواب: قرآن میں تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ (دیکھئے سورۃالحجر، آیت 9)
10- سلف صالحین کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کر لیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے۔
جواب:قرآن کریم میں چودہ اور بعض کے نزدیک پندرہ سجدے ہیں۔ (دیکھیے ۔سنن ابی داؤد کتاب سجوداللقران)
جواب:قرآن کریم کی جو آیتیں یا سورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت سے پہلے اتریں ہیں وہ مکی ہیں اور جو سورتیں یا آیتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت کے بعد اتریں ہیں وہ مدنی ہیں۔
جواب:مدنی سورتوں کی تعداد [28]ہیں جن کے اسماء یہ ہیں: ۱۔البقرۃ ۲۔آل عمران ۳۔النساء ۴۔المائدہ ۵۔الانفال ۶۔ التوبہ۷۔الرعد۸۔الحج۹۔النور۱۰۔ الاحزاب ۱۱۔ محمد۱۲۔ الفتح ۱۳۔الحجرات ۱۴۔الرحمٰن۱۵۔الحدید۱۶۔سورۃالمجادلہ ۱۷ الحشر۱۸۔الممتحنۃ ۱۹۔ الصف ۲۰۔ الجمعہ ۲۱۔ المنافقون ۲۲۔ التغابن ۲۳۔ الطلاق ۲۴۔ التحریم ۲۵۔ الانسان ۲۶۔ البینہ۲۷۔ الزلزال۲۸۔ النصر
جواب:مکی سورتوں کی تعدادچھیاسی [86] ہیں اوپر ذکر کی گئی مدنی سورتوں کے علاوہ ساری سورتیں مکی ہیں۔
جواب:(1)ہر وہ سورت جس میں لفظ [کلا] آیا ہو۔
(2)ہر وہ سورت جس میں سجدہ آیا ہو۔
(3) ہر وہ سورت جس کے شروع میں حروف مقطعات آئے ہوں سوائے سورۃ البقرہ اور أل عمران کے۔
(4) ہر وہ سورت جس میں آدم علیہ السلام اور ابلیس کاواقعہ مذکور ہو، سوائے سورۃ البقرہ کے۔
(5)ہر وہ سورت جس میں نبیوں اور امم ماضیہ کے حالات واقعات مزکور ہوں سوائے سورۃالبقرہ کے۔
جواب:(1)جس سورت میں حدود و فرائض کا ذکر ہو۔
(2)جس سورت میں جہاد کی اجازت اور جہاد کے احکامات بیان کئے گئے ہوں۔
(3)جس سورت میں منافقین کا ذکر آیا ہو سوائے سورہ عنکبوت کے۔
جواب: قرآن کریم کی سورتوں کی چار قسمیں ہیں:
(1)طوال(2)مؤن(3) مثانی (4) مفصل
(1)طوال:سات لمبی سورتوں کو کہتے ہیں جیسے البقرہ، ال عمران،النساء ،المائدہ ،الاعراف اور ساتویں میں اختلاف ہے کہ آیا وہ الانفال یا براء ت (التوبہ) ہے جس کے درمیان بسم اللہ لا کر فصل نہیں کیا گیا ہے۔
(2) مؤن: وہ سورتیں جن کی آیات کی تعداد سو سے زیادہ یا سو کے لگ بھگ ہو۔
(3)مثانی:وہ سورتیں جن کی آیات کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہو۔
(4) مفصل)سورۃ الحجرات یا سورۃق سے لے کر آخر قرآن تک کی سب سورتوں کو مفصل کہتے ہیں۔
جواب:مفصل سورتوں کا مطلب ہے جن سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ذریعہ فصل کیا گیا ہو۔
آپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ہر قوم صرف اسی دعوت پر ایمان لانے کی مکلف ہونی چاہئے جو اس کی اپنی زبان میں دی گئی ہو۔ دوسری کسی زبان میں آئی ہوئی دعوت، اگرچہ وہ حق ہو، اگر چہ وہ من جانب اللہ ہو، اگرچہ وہ ترجموں، تفسیروں، تشریحوں اور عملی نمونوں کے ذریعہ سے آپ تک پہنچ جائے پھر بھی وہ واجب الاتباع نہ ہونی چاہئے کیونکہ وہ آپ کی زبان میں نہیں بھیجی گئی ہے۔ اگر یہی آپ کا مطلب ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو مذکورہ بالا آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوگئی ہے۔ آیت کا مقصد دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب کسی قوم میں کوئی رسول بھیجا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ رسول خاص اسی قوم کے لیے ہو یا تمام دنیا کے لیے، بہر حال اس نے اپنے اولین مخاطب لوگوں کو ان کی اپنی زبان ہی میں خطاب کیا ہے تاکہ وہ اس کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کو یہ حجت پیش کرنے کا موقع نہ ملے کہ ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے لازماً الگ ایک مستقل نبی ہی آنا چاہئے جو اس کو اس کی اپنی زبان ہی میں خطاب کرے۔اور نہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایک قوم کو دوسری قوم کے اہل ایمان اس کی اپنی زبان میں قابل فہم طریقہ سے خدائی تعلیم پہنچادیں، تب بھی وہ محض اس بنا پر اسے رد کردینے میں حق بجانب ہو کہ نبی خود براہ راست خدا کی کتاب اس کی زبان میں لے کر نہیں آیا ہے۔ یہ بات نہ اس آیت میں کہی گئی ہے اور نہ اس کے الفاظ میں ایسی کوئی گنجائش ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے۔آخر کون سی معقول وجہ اس بات کے لیے پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص کو قرآن کی تعلیم کا لب لباب اس کی مادری زبان میں واضح طور پر پہنچ گیا ہو وہ اس پر ایمان لانے میں حق بجانب ہو؟
عربی قرآن تو صرف عربوں کے لیے ہونا چاہیے
آپ کے جن سکھ دوست نے یہ اعتراض کیا ہے وہ اگر اپنے تخیل کو تھوڑی حرکت اور دیتے تو اس سے بڑھ کر وہ یہ سوال بھی کرسکتے تھے کہ قرآن کا ایک ایک نسخہ براہ راست ایک ایک انسان کے پاس خدا نے کیوں نہ بھیجا؟ کیونکہ جب وہ قادر مطلق ہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔دراصل یہ لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں فرمایا ہے جس سے دنیا کے اس انتظام کو بدلنے کی ضرورت پیش آئے جو اپنی فطری رفتار پر چل رہا ہے۔ انسانوں میں زبا ن کا اختلاف اور اس بناپر نوع انسانی میں چھوٹے اور بڑے حلقے بن جانا ایک فطری چیز ہے۔ جو خوداللہ تعالیٰ ہی کی مشیت کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرنا چاہتا وہ اگر قادر مطلق ہے تو اس ساتھ وہ حکیم بھی ہے،اس کی سلطنت کا نظا م اٹل قوانین پر چل رہا ہےانہیں قوانین کے تحت قوموں کی زبانوں اور ان کی روایات میں تنوع نمودار ہوتا ہے اگر اس پرانٹو کی قسم کی کوئی زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی جاتی تب بھی وہ نہ تو قوموں کی مادری زبان بن سکتی تھی نہ اس کے ادب سے قلو ب متاثر ہو سکتے تھے، اور نہ لوگ اس کی ادبی نزاکتوں کو محسوس (Appreciate) کر سکتے تھے، الا یہ کہ قوموں کی مادری زبانوں کو اللہ تعالیٰ فوق الفطری سے مٹادیتا ہے اور فوق الفطرت طریقے ہی سے اس اسپرانٹو کو زبردستی تمام قوموں کی زبان بنادیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک کام اس کے دوسرے کام کو مٹانے کے لیے نہیں ہوتا،اس وجہ سے انسانی زبان کے سابق فطری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا کام انجام دیا ہے۔
یہ اعتراض کہ عربی میں قرآن شریف صرف عربوں کے لیے مفید ہوسکتا تھاہے، اسی صورت میں صحیح ہوسکتا ہےجب کہ اللہ نے صرف اپنی کتاب نازل کی ہوتی۔لیکن امر واقعہ یہ کہ اللہ نے اپنی کتاب کے ساتھ رہنما بھی پیدا کیا۔ اس رہنما نے پہلے انسانوں کی ایک قوم کو جس کی زبان میں کتاب نازل ہوئی تھی، خطاب فرمایا اور اس قوم کو تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس نظام کے سانچے میں ڈھال دیا جو کتاب کے منشاء کے مطابق تھا۔ پھر اس قوم کے سپرد یہ خدمت کی کہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کو نبی کی قائم مقام بن کر اسی طرح خطاب کرے اور اسی طرح تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے جس میں پہلے وہ خود ڈھالی گئی تھی۔ پھر جو جو قومیں اس طر یقے سے اس اثر کو قبول کرتی جائیں وہ دوسری قوموں کے لیے یہی خدمت انجام دیں۔ یہ اس تعلیم کو عام کرنے کی فطری راہ تھی اور دنیا میں جس تحریک نے بھی عالمگیر دعوت کا کام انجام دیا ہے، خواہ وہ خدا پرستانہ ہو یا کسی دوسری نوعیت کی، بہر حال اس نے فطرتاً یہی راہ اختیار کی ہے۔اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی کتاب صرف اسی قوم کے لیے مفید ہے جس کی زبان میں یہ لکھی گئی ہو تو پھر دنیا کی علمی تاریخ کو غلط تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر تو انسانی تصنیفات کو بھی زبانوں کے لحاظ سے قوموں کے لیے مخصوص کردینا ہوگا اور ترجمہ اور بین الاقوامی تبلیغ کے تمام دوسرے ذرائع کے فائدے سے انکار کردینا ہوگا۔ حالانکہ یہی چیزیں ہیں جن کے بل پر بڑی بڑی تحریکوں کی دعوت اور بڑی بڑی انقلابی شخصیتوں کے پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتے رہے ہیں۔ پھر محمدﷺ کی پیش کردہ کتاب ہی نے کیا قصور کیا ہے کہ محض عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے عرب قوم کے لیے مخصوص اور محدود کردیا جائے۔اگر کوئی شخص اس چیز سے مطمئن نہ ہو اور برابر اپنے اس اصرار پر قائم رہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اسی طرح اللہ کو کام کرنا چاہئے تھا تو اسے اپنی رائے پر جمے رہنے کا اختیار حاصل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے ایسے سوالات کو سدراہ بنا کر اگر ایک شخص ایک کتاب یا ایک پیغام سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو نقصان کس کا ہے؟ یہ رویہ طالبان حق و صداقت کا نہیں ہوتا۔ وہ تو جگہ جگہ ٹوہ لگاتے پھرتے ہیں کہ سچائی کی روشنی کہاں ہے اور کہاں سے ملتی ہے۔ اگر آدمی دنیا کی ہر کتاب، ہر پیغام اور ہر تعلیم کے مقابلہ میں دل و دماغ پر کسی نہ کسی قسم کا قفل چڑھالے تو پھر وہ ایک قدم بھی زندگی کی سیدھی راہ پر نہیں چل سکتا۔(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال۶۴ھ، جولائی، اکتوبر۴۴ء