جواب: قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعواے ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی معاشی بھی ہوتی اور معاشرتی بھی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوطائف کے سفرمیں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہر ادی اور وہ دوزخ میں چلا گیا آخرت کے نقطہ نظر سے دیکھیں دونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔
حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالی ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعویٰ ہے۔ ظاہر ہے انبیاء جس سطح پر اللہ تعالی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخرو نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں انھیں یقینا اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوگا۔ لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماً بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
آپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ہر قوم صرف اسی دعوت پر ایمان لانے کی مکلف ہونی چاہئے جو اس کی اپنی زبان میں دی گئی ہو۔ دوسری کسی زبان میں آئی ہوئی دعوت، اگرچہ وہ حق ہو، اگر چہ وہ من جانب اللہ ہو، اگرچہ وہ ترجموں، تفسیروں، تشریحوں اور عملی نمونوں کے ذریعہ سے آپ تک پہنچ جائے پھر بھی وہ واجب الاتباع نہ ہونی چاہئے کیونکہ وہ آپ کی زبان میں نہیں بھیجی گئی ہے۔ اگر یہی آپ کا مطلب ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو مذکورہ بالا آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوگئی ہے۔ آیت کا مقصد دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب کسی قوم میں کوئی رسول بھیجا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ رسول خاص اسی قوم کے لیے ہو یا تمام دنیا کے لیے، بہر حال اس نے اپنے اولین مخاطب لوگوں کو ان کی اپنی زبان ہی میں خطاب کیا ہے تاکہ وہ اس کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کو یہ حجت پیش کرنے کا موقع نہ ملے کہ ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے لازماً الگ ایک مستقل نبی ہی آنا چاہئے جو اس کو اس کی اپنی زبان ہی میں خطاب کرے۔اور نہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایک قوم کو دوسری قوم کے اہل ایمان اس کی اپنی زبان میں قابل فہم طریقہ سے خدائی تعلیم پہنچادیں، تب بھی وہ محض اس بنا پر اسے رد کردینے میں حق بجانب ہو کہ نبی خود براہ راست خدا کی کتاب اس کی زبان میں لے کر نہیں آیا ہے۔ یہ بات نہ اس آیت میں کہی گئی ہے اور نہ اس کے الفاظ میں ایسی کوئی گنجائش ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے۔آخر کون سی معقول وجہ اس بات کے لیے پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص کو قرآن کی تعلیم کا لب لباب اس کی مادری زبان میں واضح طور پر پہنچ گیا ہو وہ اس پر ایمان لانے میں حق بجانب ہو؟
عربی قرآن تو صرف عربوں کے لیے ہونا چاہیے