جواب : قرآن مجید میں املا وہی قائم رکھی گئی ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی اسی حالت پر قائم رہے جس میں صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اسے امت کو منتقل کیا تھا۔ بعد میں املا کے طریقے تبدیل ہو گئے۔ یہ تبدیلی کئی پہلوؤں سے ہوئی ہے۔ اس کی روشنی میں قرآن کی املا کو تبدیل کرنا ناموزوں ہے۔ اگر قرآن میں موجود املا کو کوئی شخص غلط کہتا ہے تو وہ موجودہ املا کے قواعد کی روشنی میں کہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ بات اس طرح کہنے کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ قرآن میں بعض جگہ پر املا جدید املا سے مختلف ہے۔ باقی رہا یہ دعویٰ کہ قرآن میں گرامر کی غلطیاں ہیں تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ قرآن گرامر کے تابع نہیں ہے۔ گرامرقرآن کے تابع ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ گرامر اہل زبان کے تعامل کو دیکھ کر مرتب کی جاتی ہے۔ اس میں بعض قواعد ایسے بن جاتے ہیں جو اہل زبان کی بعض اختراعات کا احاطہ نہیں کر پاتے۔ اس طرح کی صورت حال میں صحیح رویہ یہ نہیں کہ اہل زبان کی تحریر کو غلط قرار دیا جائے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ گرامر کے اس قاعدے میں ضروری ترمیم کر دی جائے۔خدا کا کلام ہر طرح کے نقص سے پاک ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ طہ حسین اور بعض مستشرقین کی اس طرح کی مثالیں ان کی کم علمی کا مظہر ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
آپ کے جن سکھ دوست نے یہ اعتراض کیا ہے وہ اگر اپنے تخیل کو تھوڑی حرکت اور دیتے تو اس سے بڑھ کر وہ یہ سوال بھی کرسکتے تھے کہ قرآن کا ایک ایک نسخہ براہ راست ایک ایک انسان کے پاس خدا نے کیوں نہ بھیجا؟ کیونکہ جب وہ قادر مطلق ہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔دراصل یہ لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں فرمایا ہے جس سے دنیا کے اس انتظام کو بدلنے کی ضرورت پیش آئے جو اپنی فطری رفتار پر چل رہا ہے۔ انسانوں میں زبا ن کا اختلاف اور اس بناپر نوع انسانی میں چھوٹے اور بڑے حلقے بن جانا ایک فطری چیز ہے۔ جو خوداللہ تعالیٰ ہی کی مشیت کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرنا چاہتا وہ اگر قادر مطلق ہے تو اس ساتھ وہ حکیم بھی ہے،اس کی سلطنت کا نظا م اٹل قوانین پر چل رہا ہےانہیں قوانین کے تحت قوموں کی زبانوں اور ان کی روایات میں تنوع نمودار ہوتا ہے اگر اس پرانٹو کی قسم کی کوئی زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی جاتی تب بھی وہ نہ تو قوموں کی مادری زبان بن سکتی تھی نہ اس کے ادب سے قلو ب متاثر ہو سکتے تھے، اور نہ لوگ اس کی ادبی نزاکتوں کو محسوس (Appreciate) کر سکتے تھے، الا یہ کہ قوموں کی مادری زبانوں کو اللہ تعالیٰ فوق الفطری سے مٹادیتا ہے اور فوق الفطرت طریقے ہی سے اس اسپرانٹو کو زبردستی تمام قوموں کی زبان بنادیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک کام اس کے دوسرے کام کو مٹانے کے لیے نہیں ہوتا،اس وجہ سے انسانی زبان کے سابق فطری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا کام انجام دیا ہے۔
یہ اعتراض کہ عربی میں قرآن شریف صرف عربوں کے لیے مفید ہوسکتا تھاہے، اسی صورت میں صحیح ہوسکتا ہےجب کہ اللہ نے صرف اپنی کتاب نازل کی ہوتی۔لیکن امر واقعہ یہ کہ اللہ نے اپنی کتاب کے ساتھ رہنما بھی پیدا کیا۔ اس رہنما نے پہلے انسانوں کی ایک قوم کو جس کی زبان میں کتاب نازل ہوئی تھی، خطاب فرمایا اور اس قوم کو تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس نظام کے سانچے میں ڈھال دیا جو کتاب کے منشاء کے مطابق تھا۔ پھر اس قوم کے سپرد یہ خدمت کی کہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کو نبی کی قائم مقام بن کر اسی طرح خطاب کرے اور اسی طرح تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے جس میں پہلے وہ خود ڈھالی گئی تھی۔ پھر جو جو قومیں اس طر یقے سے اس اثر کو قبول کرتی جائیں وہ دوسری قوموں کے لیے یہی خدمت انجام دیں۔ یہ اس تعلیم کو عام کرنے کی فطری راہ تھی اور دنیا میں جس تحریک نے بھی عالمگیر دعوت کا کام انجام دیا ہے، خواہ وہ خدا پرستانہ ہو یا کسی دوسری نوعیت کی، بہر حال اس نے فطرتاً یہی راہ اختیار کی ہے۔اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی کتاب صرف اسی قوم کے لیے مفید ہے جس کی زبان میں یہ لکھی گئی ہو تو پھر دنیا کی علمی تاریخ کو غلط تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر تو انسانی تصنیفات کو بھی زبانوں کے لحاظ سے قوموں کے لیے مخصوص کردینا ہوگا اور ترجمہ اور بین الاقوامی تبلیغ کے تمام دوسرے ذرائع کے فائدے سے انکار کردینا ہوگا۔ حالانکہ یہی چیزیں ہیں جن کے بل پر بڑی بڑی تحریکوں کی دعوت اور بڑی بڑی انقلابی شخصیتوں کے پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتے رہے ہیں۔ پھر محمدﷺ کی پیش کردہ کتاب ہی نے کیا قصور کیا ہے کہ محض عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے عرب قوم کے لیے مخصوص اور محدود کردیا جائے۔اگر کوئی شخص اس چیز سے مطمئن نہ ہو اور برابر اپنے اس اصرار پر قائم رہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اسی طرح اللہ کو کام کرنا چاہئے تھا تو اسے اپنی رائے پر جمے رہنے کا اختیار حاصل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے ایسے سوالات کو سدراہ بنا کر اگر ایک شخص ایک کتاب یا ایک پیغام سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو نقصان کس کا ہے؟ یہ رویہ طالبان حق و صداقت کا نہیں ہوتا۔ وہ تو جگہ جگہ ٹوہ لگاتے پھرتے ہیں کہ سچائی کی روشنی کہاں ہے اور کہاں سے ملتی ہے۔ اگر آدمی دنیا کی ہر کتاب، ہر پیغام اور ہر تعلیم کے مقابلہ میں دل و دماغ پر کسی نہ کسی قسم کا قفل چڑھالے تو پھر وہ ایک قدم بھی زندگی کی سیدھی راہ پر نہیں چل سکتا۔(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال۶۴ھ، جولائی، اکتوبر۴۴ء