سوال ، جواب

مصنف : ڈاکٹر محمود احمد غازی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : فروری 2019

جواب:زندیق کالفظ دراصل قدیم ایران میں استعمال ہوتا تھا۔ زندیق کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص زبان سے تو اسلام کا اظہار کرے زبان سے اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تعلیمات سے وابستگی کا اقرار کرے لیکن اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تعلیم کو وہ معنی پہنائے جو اسلام میں نہیں ہیں۔ ایسا آدمی چونکہ حضور ﷺ کے زمانے میں نہیں پایا جاتا تھا اس زمانہ میں لوگ یا مکمل طور پر مسلمان ہوتے تھے یا نہیں ہوتے تھے یامنافق ہوتے تھے اس کے بر عکس آدمی جو زبان سے اظہار کرے کہ میں مسلمان ہوں زبان سے قرآن کو بھی مانتا ہو یا نما ز، روزے کو بھی مانتا ہو لیکن ان سب اصطلاحات اور احکام کی تعبیر وہ کرے جو قرآن اور سنت کے خلاف ہو ایسا آدمی بعد میں پیدا ہوا۔ بعد میں اس طرح کے بہت سے لوگ سامنے آئے اور یہ باطینت کا ایک مظہر تھا۔ باطنیوں کی کوشش رہی ہے کہ اسلام کی وہ تعبیریں کی جائیں کہ جو مسلمان خالی الذہن ہیں یا اسلام کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے وہ گمراہی کا شکار ہو جائیں ان کو اسلام سے براہ راست بر گشتہ کرنے کے بجائے جو ذرا مشکل کام تھا بالواسطہ طور پر اسلام سے بر گشتہ کر دیا جائے اور اسلام کی تعلیم کو وہ معنیٰ پہنادیے جائیں جو اسلام میں نہیں ہیں۔ مثلاًنماز کے یہ معنیٰ کہ اللہ کو یاد کرنا کافی ہے پانچ وقت اٹھک بیٹھک کرنے کی ضرورت نہیں۔ روزے کے یہ معنی کہ آپ غیر ضروری خواہشات سے بچیں۔ پو را دن بھوکا رہنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کی تعبیرات ان لوگوں کو بہت پسند آتی ہیں جن کے دل میں پہلے سے چور ہو یا جن کا ایمان پختہ نہ ہو۔ آزادی فکر کے نام پر اس طرح کی تعبیرات کی اگر اجازت دے دی جاتی تو اسلام کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ اس لئے یہ اصطلاح زندیق کی اختیار کی گئی زندیق کی اصطلاح استعمال کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ایسے لوگوں کی تشخیص کی جائے ان کو identifly کیا جائے ۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: متکلمین کی اصطلاح میں تقدیر مبرم سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جس میں انسان اپنے فیصلے سے کوئی تبدیلی نہیں کرسکتاہے مثلاً انسان کی موت کا وقت مقرر ہے انسان کی عمر مقرر ہے کوئی انسان چاہے کہ اپنی عمر میں اضافہ کر لے یا کمی کر لے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں فیصلہ کیا ہے کہ فلاں جگہ پیدا ہوں گا فلاں ماں باپ کے ہاں پیدا ہوں گافلاں جگہ مروں گا میں اپنے بارے میں کوئی فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتا اس طرح کے معاملات تقدیر مبرم کہلاتے ہیں۔
اس کے بر عکس جن معاملات میں میرے فیصلے یاchoiceسے فرق پڑتا ہے وہ تقدیر معلق ہے یہ محض اصطلاح کا فرق ہے ورنہ قرآن میں کوئی ایسی اصطلاحا ت نہیں آئیں اور نہ حدیث میں آئیں نہ متقدمین کے ہاں ملتی ہے بلکہ بعد والوں کے ہاں ملتی ہیں۔ تقدیر معلق کابدا ء سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بداء کا تصورجو شیعہ کلام میں پایا جاتا ہے وہ مختلف ہے بداء کا تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوجزوی واقعات کا علم پہلے سے حاصل نہیں ہے یہ علم ان کو ان جزوی واقعات کے وقوع پذیر ہوجانے کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو کائنات کے ایک ایک ذرے کا علم ہے ۔جب سوال یہ پیدا ہوا تو بعض حضرات خاص طور پر فلاسفہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو کلیات کا علم تو ہے جزئیات کا علم نہیں ہے میرے جیب اگر چار سکے ہیں تو چوتھا سکہ کون سا ہے؟ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کواس کا علم نہیں ہے ۔اس کو صرف کلیات کا علم ہے کہ ایک محمود غازی ہے اس کے پاس اتنے پیسے ہیں فلاں جگہ کام کرتا ہے یہ وہ بات جانتا ہے لیکن یہ تفصیلات جو میرے بارے میں ہیں یہ نعوذباللہ اس کے علم میں نہیں ہیں کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور اس زمانے کی عقلیات کے لحاظ سے وہ اسی لغو نتیجے پر پہنچے ہیں جب یہ تصور ایک بار ایک حلقہ میں عام ہوگیا تو پھر یہ سوال پیدا ہو ا اللہ تعالیٰ جو بہت سے فیصلے کرتا ہے و ہ نعو ذباللہ اس مفروضے پر کرتا ہے اور نقل کفر، کفر نہ با شد بہت سی جزئیات اس کے علم میں نہیں ہیں بعد میں جب حکم دینے کے بعد پتا چلتا ہے کہ چونکہ جزئیات سامنے نہیں تھیں اس لئے غلط نتیجہ نکلا تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر نظر ثانی کرتا ہے اس نظر ثانی کے عمل کو بدا ء کہتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ ایک غلط بات ہے اور بالبداہت غلط ہے لیکن چونکہ یہ لغو خیا ل اس زمانے میں ایک طبقہ میں پھیل گیا تھا اس لئے کچھ لوگ اس سے متاثر بھی ہو گئے تھے اس زمانے میں چونکہ لوگ اس کے قائل ہو ئے کہ خالق کائنات کو جزئیات اور انفرادی واقعات کا علم نہیں ہوتا ان میں بعض بڑے بڑے فلاسفہ بھی شامل ہیں جنہوں نے عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا علم صرف کلیات تک محدود ہے جزئیات تک محیط نہیں ہے۔ انہوں نے جن عقلی دلائل سے یہ بات کہی تھی آج وہ عقلی دلائل مضحکہ حیز معلوم ہوتے ہیں لیکن اس زمانے میں یہ بہت state of۔the۔art قسم کی چیزیں مانی گئیں یہ بات ایک زمانے میں عام تھی اور جو دلائل دیے گئے تھے وہ سب ایک ہی طرح کے تھے مثلاً ایک دلیل دی گئی کہ اگر بادشاہ ہو اور اس کی سلطنت میں دس لاکھ آدمی ہوں تو بیک وقت وہ دس لاکھ آدمیوں سے کیسے مخاطب ہو سکتا ہے وہ اپنے گو رنروں سے مخاطب ہو گا ولی سے مخاطب ہو گا گورنر نائب گورنر سے مخاطب ہو گا وہ فلاں سے ہو گا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کرتا ہے کہ وہ کلیات سے رابطہ رکھتا ہے اور کلیات کے ذریعے جزئیات تک پہنچاجاسکتا ہے یہ بات آج بالبداھت کمزور اور غلط معلوم ہوتی ہے۔ 
جزئیات سے رابطہ اور ایک ایک آدمی کی بابت ہر بات کی بیک وقت اطلاع ہونا یہ بہت آسان بات ہے کئی سال پہلے میں انگلستان گیا تومیں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ وہاں انفرادی طور پر ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے بیک وقت رابطہ رکھنے کا ایک نظام ہے اگر آپ انگلستان کہیں جانا چاہتے ہیں تو آپ کمپیوٹر سے اپنا ایڈریس وہاں نوٹ کروادیں کمپیوٹر آپ کو گائیڈ کرتا رہے گا کہ آپ سڑک کے دائیں ہو جائیں پھر آپ مین روڈ پر جائیں پچاس میل کے بعد پھر دائیں مڑ جائیں بائیں مڑ جائیں پھر وہ آپ سے کہے گا کہ آپ دو سو میل چلیں دو سومیل کے بعد آپ فلاں سٹرک ایم یا ایم ۲ پر ہوجائیں اور اس طرح آپ گھر تک پہنچ جائیں گے اس وقت میں نے اپنے دوست سے جو مجھے لے کر جا رہے تھے کہا کہ مجھے وہ جزئیات کے علم والامسئلہ یاد آرہا ہے کہ کس طرح یہ کمپیوٹر(جی پی ایس) ایک ایک آدمی کو انگلستان میں اس وقت کتنی گاڑیو ں کو ایک ایک گھر تک پہنچا رہا ہے جب انسانوں کی بنائی ہوئی مشین یہ کر سکتی ہے تواللہ تعالیٰ کیوں نہیں کر سکتا؟ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: یقیناًاللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کون کیا کرے گا لیکن یہ با ت کہ اللہ کے علم میں کیاہے یہ میرے اور آپ کے علم میں نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کے علم میں ہے جو اچھے یا برے کام کریں گے۔ اگر کوئی اچھا کام کرنے والا ہے اور وہ نہیں کرتا ہے تو اللہ کے علم میں یہ بھی ہے کہ وہ نہیں کرے گا اصل میں اللہ کے علم اور اندازے میں کوئی تعارض اور فرق نہیں ہے ہمارے علم اور اندازے میں تعارض اور فرق ہوتا ہے قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ مستقبل میں کیا ہوگا؟ یہ اللہ کے علم میں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اناکل شئی خلقنا بقدر تقدیر اور قدر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا مفہوم assesment ہے اندازے کا ہے ۔بطور ایک استاد کے میرا اندازہ یہ ہو تا ہے میں جس کلاس کو پڑھاتا ہوں اس میں کون پاس ہوگا او رکون فیل ہو گا؟ ۸۰ فیصد ایسے ہی ہو تا ہے لیکن جو پاس ہوتا ہے وہ اس لیے پاس نہیں ہو تا ہے کہ میرا انداز ہ تھا کہ وہ پاس ہو گا جو فیل ہو تا ہے وہ اس لئے فیل نہیں ہوتا کہ میرا اندازہ تھا کہ وہ فیل ہو گا۔ وہ اپنی گارگردگی کی وجہ سے فیل یا پاس ہو ئے ہیں لیکن چونکہ میں ان کو جانتا ہوں اس لئے میرا اندازہ سو فیصد درست ہو تا ہے ۔اس لیے اس نے تقدیر کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کے معنیٰ ہیں اندازہ کرنے کے ہیں وہاں مجبوری کا مفہوم کہیں نہیں ہے استاد لائق طالب علم کو فیل ہونے پر مجبورنہیں کرتا ایک اچھا ڈاکٹر اندازہ کرتا ہے کہ مریض اگر اسی طرح سے بے احتیاطی کرتا رہا تو اسکو یہ اور یہ نقصانات ہو سکتے ہیں او ر وہ اس کی اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے ہوں گے ڈاکٹر کے اندازہ کی وجہ سے نہیں ایک انجینئر کو اندازہ ہو تا ہے کہ اتنی اونچی عمارت جس میں اس طرح کا مواد لگایا گیا ہے اگر یہی مواد لگا کر یہ عمارت مقررہ حدود سے زیادہ اونچی کی جائے تو یہ گر جائے گی اب یہ عمارت انجینئر کی وجہ سے نہیں گرتی وہ اس مواد کی کمزوری کی وجہ سے گرتی ہے یہی بات اللہ تعالیٰ کے اندازے کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جو سو فیصد درست ہو تا ہے۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: عقل و نقل کے عنوان سے کوئی مستقل کتاب کسی نے لکھی ہو تو میرے علم میں نہیں ہے لیکن جن حضرات نے عقل و نقل کے تقابل پر کتابیں لکھی ہیں اس میں ایک نام مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ہے جن کی تین کتابیں مفید ہیں ایک المصالح العقلیہ ہے جو کسی عربی کتاب کا آزاد ترجمہ اور تلخیص ہے انہی کی ایک کتاب اور ہے جس کا انگریزی ترجمہ Answer to Modernismکے نام سے ہو ا ہے جس میں انہوں نے آج کل کے معاملات کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں بتا ئی ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر کو Formulateکرتے ہوئے کن اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے ایک آدھ کتاب ان کی اور ہے کو ئی خاص کتاب آپ کے ذہن میں ہو تو میں نہیں جانتا۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: جدید علم کوئی ایسا علم نہیں ہے کہ اس کو ایک کتاب میں لکھا جائے۔ جدید علم تو ایک سمندر ہے اور اس کے کسی ایک فن میں مہارت پیدا کرنے کے لیے بہت کچھ محنت درکار ہے اس لئے میرے خیال میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہو سکتی جو جدید علم پر مبنی ہو اور سارا جدید علم اس میں آجائے۔ جدید علم کلام پر بھی کوئی ایک کتاب نہیں ہے مختلف کتابیں سامنے رکھنی پڑیں گئیں۔لیکن میرے خیال میں ایک بہت اچھی کتاب کبری الیقینات الکونیہ ہے یہ ڈاکٹر سعید رمضان البوطی کی تصنیف ہے شام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔میرے خیال میں اسلام کے بنیادی عقائد کو جدید انداز میں ذاتی طور پر سمجھنے کے لئے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ اردو میں آسان کتاب میرے خیال میں علامہ شبلی کی الکلام اور علم الکلام ہے جو کہ اس موضوع پر بلاشبہ ایک اچھی کتاب ہے۔
ا

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: مولانا ادریس کاندھلوی بلا شبہ بہت بڑے عالم فاضل انسان تھے ان کے کلام پر میں کیا تبصرہ کرسکتا ہوں البتہ میں ایک عمومی اور اصولی بات عرض کر سکتا ہوں۔ مولانا ادریس کاندھلوی یا مولانا شبلی نعمانی یا مولانا محمد قاسم نانوتوی یا اس طرح کے اور اکابر کی کتابیں بہت اچھی اور بڑی فاضلانہ کتابیں ہیں۔ لیکن وہ قدیم علم کلام کو قدیم اسلوب میں بیان کرتی ہیں اس لئے وہ علم کلام کے مختص طلبہ کے لئے مفید ہیں لیکن وہ جدیدعلم کلام کے تقاضوں کو شاید اس حد تک پو رانہ کر سکیں جس حد تک کہ آج کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا ادریس کاندھلوی کی کتاب میں نے کئی بار پڑھی ہے بہت عالمانہ کتاب ہے ۔مولانا قدیم علم کلام کے بڑے ماہر تھے لیکن قدیم علم کلام کے جو اصول موضوعہ ہیں وہ آج کے اس نئے دور تعلیم یا فتہ کے لیے قابل فہم نہیں ہیں نہ آج کل کے انسان کے ذہن میں وہ سوال پیدا ہو تے ہیں اور نہ قدیم انداز کے جوابات سے وہ مطمئن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کل قائد اعظم یونیورسٹی کا کوئی طالبعلم نہ وہ جوہر کوجانتا ہے اور نہ عرض کو نہ وہ حادث کی اصطلاح سے واقف ہے نہ قدیم تصور سے آشنا ہے یہ مسائل اس کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ یہ کیٹگر یزاب ختم ہو گئی ہیں آج یہ مسائل زیر بحث نہیں ہیں لٰہذا وہ علم کلام جو ان اساسا ت پر مبنی ہو وہ آج کے طالب علم کے لئے غیر مفید ہے۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: میرا خیال ہے کوئی بھی آدمی ایسا نہیں ہو تا کہ آپ اس کے خیالات سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوں۔ سید حسین نصر بہت بڑے عالم فاضل انسا ن ہیں اور مسلکاً شیعہ ہیں یہ میں بھی جانتا ہوں لیکن ان کے خیالات میں کوئی ایسیseious اور قابل اعتراض بات نہیں ہے کہیں کہیں شیعہ نقطہ نظر کو بیان کرتے ہیں جو فطری بات ہے کیونکہ وہ خودشیعہ ہیں لیکن عمومی طور پر مغربی فکر پر ان کی تنقید اور اسلامی عقائد کے بارے میں انکا بیان بہت متوازن اور قابل قبول ہو تا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں ایک مغربی تعلیم یافتہ انسان کے سامنے اسلام کا موقف بیان کر نے میں جو کتابیں مفید ثابت ہو تی ہیں اس میں ان کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: ظاہری شریعت اور باطنی شریعت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔ جو حقیقت میرے ظاہر اور باطن کی ہے وہی شریعت کے ظاہر و باطن کی ہے۔ آپ میرے باطن کو میرے ظاہر سے الگ نہیں کر سکتے اگر الگ کر دیں گے تو میری شخصیت نامکمل رہ جائے گی۔ اسی طرح سے اگر شریعت کے ظاہر کو شریعت کے باطن سے الگ سمجھا جائے گا وہ نامکمل رہ جائے گی۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: شریعت اسلامی مقامی عادات و اطوار، علاقائی ثقافت اور رسوم و رواج کو ہر گز ختم نہیں کرتی وہ ان سب کو ایک شرط کے ساتھ اپنے نظام اجتماعی اور اپنے تہذیبی مثالیہ یا پیراڈائم میں سمو لیتی ہے وہ شرط یہ ہے کہ ان میں سے کوئی چیز شریعت کے احکام سے متعارض اور غیر اخلاقی نہ ہو۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: علم لدنی سے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کا خاص انعام کسی انسان کے اوپر ہوتا ہے اور اس کو خصوصی علم حاصل ہوجاتا ہے ہم خود دیکھتے ہیں ایسے بڑے بڑے اکابر ہمارے زمانے میں بھی ہوئے ہیں کہ انہوں نے وہی تعلیم پائی جو ہم سب نے پائی لیکن ان میں سے بعض کو اللہ نے بڑا علم دے دیا۔ مولانا انور شاہ کشمیر ی اسی درس نظامی کے پڑے ہوئے ہیں لیکن ان کو اللہ نے جو علم دیا وہ باقی درس نظامی کے فضلا کو نہیں ملا۔ اس طر ح کا علم ، علم لدنی کہلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مہربانی سے کسی انسان کو سمجھ یا فہم کے ذریعہ دے دے اسکی حدیث سے بھی تائید ہو تی ہے حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا تھا کہ کیا رسولﷺ نے آپؓ کو کوئی خاص تعلیم بھی دی ہے انھوں نے کہا نہیں کوئی خاص تعلیم نہیں دی ہے کتاب اللہ سنت رسولﷺ اور یہ دستاویز جو میری تلوار کی نیام میں رکھی ہیں یا پھر وہ فہم جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی خاص بندے کو دے دے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کسی خاص بندے کو اگرخاص فہم دے جو اکثر دے دیتا ہے تواس فہم سے اس بندے کو ایک خاص علم حاصل ہو جاتا ہے اس کو علم لدنی کہہ دیتے ہیں۔یہ خاص فہم اگر شریعت کے مطابق ہے تو اللہ کی طرف سے ہے ورنہ محض انسان کے نفسانی خیالات یا ذہنی ژولیدگی کا نتیجہ ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب جی نہیں! یہ اصطلاحات قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہیں قضا و قدر کی تنفیذ کا میرے خیال میں ان مناصب سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بہت سے حضرات سے یہ چیزیں بیان کی ہیں خاص طور پرابن عربی نے اس پر بہت بحث کی ہے اور تفصیل سے اور بڑی دلچسپ باتیں کیں ہیں۔ان مباحث سے پتا چلتا ہے کہ ابن عربی کی نظر میں ایک روحانی hierarchyبھی موجود ہے یہ روحانیhierarchyہی اللہ تعالیٰ کے احکام تکوینی پر عمل درآمد کراتی ہے میں نہیں جانتا انھوں نے یہ بات کس بنیاد پر لکھی ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: میرے خیال میں ایسا نہیں ہے رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ ﷺ سے براہ راست رہنمائی لینے کا اگر کوئی اہل تھا تو وہ صحابہ کرامؓ تھے۔ صحابہ کرامؓ بعض اوقات کسی مسئلے کے جواب میں سرگرداں رہتے تھے ایک ایک ماہ تک بحث رہتی تھی اور اسکے بعد اتفاق رائے سے مسئلہ حل کرتے تھے۔ اگر براہ راست حضورﷺ سے پوچھ سکتے تو صحابہ کرامؓ جاکر پوچھ لیاکرتے۔ حضرت عائشہؓ کو یہ فیصلہ کرنے میں بہت عرصہ لگا کہ مجھے جنگ جمل میں جا نا چاہیئے یا نہیں اس کے بعد وہ جنگ جمل میں شریک ہوئیں اس کے بعد ان کو احساس ہو اکہ انھوں نے غلط کیا ہے اس پر وہ توبہ بھی کیا کرتی تھیں اور صدقہ بھی دیا کرتی تھیں اپنے بھائی اور دوسرے رشتہ داروں کو ڈانٹاکرتیں تھیں کہ مجھے روکا کیوں نہیں اگر حضور سے وہ پوچھ سکتیں تو وہ ضرور پو چھتیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کوئی طریقہ ایسا نہیں ہے۔ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب: محض نسبی بنیاد پر ولایت یا تقویٰ کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔ قرآن پاک میں انبیا علیھم السلام کے مختلف رشتہ داروں کا ذکر کر کے ان کی مثالیں دے کر یہ بتایا گیاہے کہ اپنے عمل سے ہی انسان اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ کسی کا نسب اسکو اچھا یا برا نہیں بنا سکتا ۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی کا نسب بھی اونچا ہو اور عمل بھی اونچا ہو اسکو اور زیادہ بڑا درجہ مل جائے لیکن عمل کے بغیر نسب ہی سب کچھ کر لے یہ ناممکن ہے۔ روحانیت میں پیدائشی ولی ہونے کی جہاں تک بات ہے توواقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو پیدائشی ولی بنانا چاہے تو جس کو چاہے بنا سکتا ہے یہ تو اس کی رحمت، و قدرت اور مشیئت کی بات ہے اس میں کیا رکاوٹ ہے ہر انسا ن میں اچھائی اور برائی کا داعیہ اللہ نے رکھا ہے اگر وہ کسی میں پیدائشی طور پر برائی کا کوئی داعیہ نہ رکھے یا کم رکھے تو میرا خیال ہے کہ ایسا ہو نا اس کی سنت سے متعارض نہیں۔ 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)