جواب: مولانا ادریس کاندھلوی بلا شبہ بہت بڑے عالم فاضل انسان تھے ان کے کلام پر میں کیا تبصرہ کرسکتا ہوں البتہ میں ایک عمومی اور اصولی بات عرض کر سکتا ہوں۔ مولانا ادریس کاندھلوی یا مولانا شبلی نعمانی یا مولانا محمد قاسم نانوتوی یا اس طرح کے اور اکابر کی کتابیں بہت اچھی اور بڑی فاضلانہ کتابیں ہیں۔ لیکن وہ قدیم علم کلام کو قدیم اسلوب میں بیان کرتی ہیں اس لئے وہ علم کلام کے مختص طلبہ کے لئے مفید ہیں لیکن وہ جدیدعلم کلام کے تقاضوں کو شاید اس حد تک پو رانہ کر سکیں جس حد تک کہ آج کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا ادریس کاندھلوی کی کتاب میں نے کئی بار پڑھی ہے بہت عالمانہ کتاب ہے ۔مولانا قدیم علم کلام کے بڑے ماہر تھے لیکن قدیم علم کلام کے جو اصول موضوعہ ہیں وہ آج کے اس نئے دور تعلیم یا فتہ کے لیے قابل فہم نہیں ہیں نہ آج کل کے انسان کے ذہن میں وہ سوال پیدا ہو تے ہیں اور نہ قدیم انداز کے جوابات سے وہ مطمئن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کل قائد اعظم یونیورسٹی کا کوئی طالبعلم نہ وہ جوہر کوجانتا ہے اور نہ عرض کو نہ وہ حادث کی اصطلاح سے واقف ہے نہ قدیم تصور سے آشنا ہے یہ مسائل اس کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ یہ کیٹگر یزاب ختم ہو گئی ہیں آج یہ مسائل زیر بحث نہیں ہیں لٰہذا وہ علم کلام جو ان اساسا ت پر مبنی ہو وہ آج کے طالب علم کے لئے غیر مفید ہے۔