اللہ کا علم اور اللہ کا دیا گیا اختیار

جواب: یقیناًاللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کون کیا کرے گا لیکن یہ با ت کہ اللہ کے علم میں کیاہے یہ میرے اور آپ کے علم میں نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کے علم میں ہے جو اچھے یا برے کام کریں گے۔ اگر کوئی اچھا کام کرنے والا ہے اور وہ نہیں کرتا ہے تو اللہ کے علم میں یہ بھی ہے کہ وہ نہیں کرے گا اصل میں اللہ کے علم اور اندازے میں کوئی تعارض اور فرق نہیں ہے ہمارے علم اور اندازے میں تعارض اور فرق ہوتا ہے قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ مستقبل میں کیا ہوگا؟ یہ اللہ کے علم میں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اناکل شئی خلقنا بقدر تقدیر اور قدر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا مفہوم assesment ہے اندازے کا ہے ۔بطور ایک استاد کے میرا اندازہ یہ ہو تا ہے میں جس کلاس کو پڑھاتا ہوں اس میں کون پاس ہوگا او رکون فیل ہو گا؟ ۸۰ فیصد ایسے ہی ہو تا ہے لیکن جو پاس ہوتا ہے وہ اس لیے پاس نہیں ہو تا ہے کہ میرا انداز ہ تھا کہ وہ پاس ہو گا جو فیل ہو تا ہے وہ اس لئے فیل نہیں ہوتا کہ میرا اندازہ تھا کہ وہ فیل ہو گا۔ وہ اپنی گارگردگی کی وجہ سے فیل یا پاس ہو ئے ہیں لیکن چونکہ میں ان کو جانتا ہوں اس لئے میرا اندازہ سو فیصد درست ہو تا ہے ۔اس لیے اس نے تقدیر کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کے معنیٰ ہیں اندازہ کرنے کے ہیں وہاں مجبوری کا مفہوم کہیں نہیں ہے استاد لائق طالب علم کو فیل ہونے پر مجبورنہیں کرتا ایک اچھا ڈاکٹر اندازہ کرتا ہے کہ مریض اگر اسی طرح سے بے احتیاطی کرتا رہا تو اسکو یہ اور یہ نقصانات ہو سکتے ہیں او ر وہ اس کی اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے ہوں گے ڈاکٹر کے اندازہ کی وجہ سے نہیں ایک انجینئر کو اندازہ ہو تا ہے کہ اتنی اونچی عمارت جس میں اس طرح کا مواد لگایا گیا ہے اگر یہی مواد لگا کر یہ عمارت مقررہ حدود سے زیادہ اونچی کی جائے تو یہ گر جائے گی اب یہ عمارت انجینئر کی وجہ سے نہیں گرتی وہ اس مواد کی کمزوری کی وجہ سے گرتی ہے یہی بات اللہ تعالیٰ کے اندازے کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جو سو فیصد درست ہو تا ہے۔
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)