سوال، جواب

مصنف : منہاج القرآن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2021

جواب:شریعتِ اسلامی نہایت سادہ اور آسان ہے، اس میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں۔ اسلام نے ہر عبادت میں حالات و ظروف کا خیال رکھا ہے، جیسے باجماعت نماز کی ادائیگی کا حکم ہے لیکن بارش یا قدرتی آفت وغیرہ کی صورت میں جماعت کی لزومیت ساقط ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وضو نماز کے لیے شرط ہے لیکن پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم اس کے قائم مقام ہے۔ اسی طرح تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سہولت و گنجائش رکھی ہے اور یہی دین اسلام کا طرہ امتیاز بھی ہے۔ شریعت مطہرہ میں بحالت نماز چہرہ ڈھکنے کی ممانعت آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ وسَلَّمَ نَہَی عَنِ السَّدْلِ فِی الصَّلَاۃِ وَأَنْ یُغَطِّیَ الرَّجُلُ فَاہُ.بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل (کپڑا زمین تک لٹکانے) سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی کہ آدمی اپنا منہ ڈھانپے۔ابو داؤد، السنن، 1: 174، رقم:634
فقہاء نے اس ممانعت کو کراہت پر محمول کیا ہے اور اس ممانعت کی علت یہ بتائی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کفار اپنے چہرے کو ڈھانپا کرتے تھے، نیز مجوس بھی آگ کی عبادت کے وقت اپنے چہرہ کو ڈھانپ لیا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے دورانِ نماز چہرہ ڈھانپنے سے منع فرمایا۔ تاہم بوقت ضرورت نماز میں چہرے کا ڈھا نپنا جائز ہے۔ چنانچہ حدیث مذکور کی شرح میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:
چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ بلاضرورت چہرہ چھپائے رہنا، اگر کوئی ضرورت پیش آجائے تو چہرہ ڈھانپنا جائز ہے۔ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 2: 636
موجودہ صورت حال میں کہ جب منہ کے ذریعہ کرونا کی بیماری پھیلنے کا خدشہ اہل فن کے ہاں متحقق و ثابت شدہ ہے، تو ایسے میں منہ پہ ماسک لگانا بالکل ویسے ہی جائز و درست ہے جیسا کہ قیام سے عاجز کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور بیٹھنے کی سکت نہ رکھنے والے کے لیے پہلو کے بل لیٹ کر اشاروں سے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ یہ رخصت بوقت ضرورت بقدر ضرورت ہی رہے گی، یعنی عام حالات میں بلا عذر ناک اور منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، عذر کی صورت میں جیسے سانس کے لیے ذریعے بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہو’ تو ماسک لگا کر نماز کی ادائیگی میں مضائقہ نہیں۔نماز کی حالت میں ماسک پہننے کو بالکلیہ ممنوع قرار دینا اس سے بیماری اور ہلاکت کے خدشات کو بڑھاتا ہے اور شرعاً بیماری اور ہلاکت سے بچنا مطلوب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ.خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔البقرۃ، 2: 195نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا.اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
النساء، 4: 29اور ماسک کا نہ پہننا قتل نفس کا سبب ہو سکتا ہے۔معلوم یہ ہوا کہ ضرورت کے سبب نماز میں چہرہ ڈھانپا جا سکتا ہے، خاص کر جب صحت اور جان کے ضرر کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں ماسک کا استعمال اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔آج کل ہم جو ماسک لگاتے ہیں وہ ‘کورونا’ جیسے متعدی اور مہلک مرض سے بچنے کے لیے، جو ڈاکٹروں کے مطابق صحت وجان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، اور اکراہ کی صورت میں جان کی حفاظت کے لیے تو کفر وشرک تک کا ارتکاب شریعت نے روا رکھا ہے تو پھر اس وبا میں جان کی حفاظت کے لیے مکروہ کا ارتکاب کیوں کر جائز نہیں ہو سکتا؟ نیز یہ کہ نماز میں قبلہ کا استقبال ایک اہم شرط ہے، قبلہ رخ کیے بغیر نماز نہیں ہوگی، لیکن جب حالت جنگ ہو تو اس میں جان کی حفاظت کو مطمح نظر رکھتے ہوئے قبلہ کی شرط ساقط ہوجاتی ہے اور آدمی جس طرف بھی رخ کرکے چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح وبائی متعدی مرض ‘کورونا’ میں بھی ماسک نہ پہننا صحت اور نفس کے لیے مہلک ہو سکتا ہے، اس لیے اس کا پہننا شرعاً مطلوب ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔

 

(منہاج القرآن)


جواب:عُشر دسویں حصہ کو کہتے ہیں جو زرعی پیداوار پر ادا کیا جاتا ہے اور نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ بھی اس اطلاق میں شامل ہے دراصل عُشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ اَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.
وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے؛ اور جسے کنوئیں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب العشر فیما یسقی من ماء السمآء، وبالمآء الجاری، 2: 540، رقم: 1412
عشر چونکہ پیداوار کی زکوٰۃ کا نام ہے اس لئے اس کے مصارف بھی وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں؛ یعنی فقراء، مساکین، عاملینِ عشر، غلاموں کی آزادی، غارِمین، فی سبیل اللہ اور مسافر۔ زکوٰۃ کی طرح عشر کی جنس یا قیمت بنی ہاشم کو، حقیقی والدین یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور حقیقی اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی کو اور میاں بیوی ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ اگر بہن بھائی، داماد، بہو، ساس سسر یا رشتہ دار وغیرہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں تو ان کو عشر دیا جاسکتا ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

(منہاج القرآن)

جواب:عشر کی ادائیگی میں اصل حکم تو زرعی پیداوار میں سے مخصوص مقدار فی سبیل اللہ دینے کا ہی ہے، تاہم اگر عشر کے بقدر جنس کی قیمت دے دی جائے، تب بھی عشر ادا ہوجائے گا۔
 

(منہاج القرآن)

سبسڈی والی گندم کے آٹا کی فروخت
سوال: عرض یہ ہے کہ حکومت ملکی حالات کے تناظر میں فلور ملز کو مخصوص قیمت پر یعنی اوپن مارکیٹ سے کم ریٹ پر گندم فراہم کرتی ہے اور ساتھ میں یہ معاہدہ کرتی ہے کہ سرکاری گندم کا آٹا سرکاری ریٹ پر ایک مخصوص علاقہ میں سیل کرنا ہے۔ یہ گندم چونکہ ضلع کی آبادی کے حساب سے ہوتی ہے اور اس پر سبسیڈی صوبائی حکومت برداشت کرتی ہے جس کے بعد معاہدہ کے مطابق فلور ملز اس سرکاری گندم کا آٹا اپنے ضلع سے باہر سیل نہیں کرسکتیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کچھ ملز کی لوکل ضلع میں سیل اور انویسٹمنٹ وغیرہ نہیں ہوتی ، لہذا ان کی مارکیٹ اور کوالٹی دیگر اضلاع میں پسند کی جاتی ہے۔ نمبر دو یہ کہ سرکاری آٹا کا ریٹ 837 روپے مقرر کیا جاتا ہے جبکہ صوبہ سے باہر یہی آٹا 1000 میں سیل ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک معاہدہ کرلینے کے بعد اپنی کاروباری مجبوری کے پیش نظر فلور ملز اگر اپنا آٹا جو کہ سرکاری ریٹ پر مقامی مارکیٹ میں سیل کرنا تھا ،اسے زیادہ ریٹ پر باہر کی مارکیٹ میں سیل کرے تو یہ اضافی نفع کس زمرے میں آتا ہے؟ جبکہ لوکل مارکیٹ میں آٹا کی شارٹیج بھی نہ ہو اور اگر مال باہر سیل نہ کریں تو کوٹہ کینسل ہونے کا خدشہ ہو (یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اگر آج کا مال سیل نہ ہوسکے تو اگلے دن گندم کوٹہ جوکہ نقد رقم جمع کروا کر اٹھانا ہوتا ہے اس کے لئے رقم کا بندوبست نہیں ہوپاتا اور جس دن کوٹہ نہ اٹھایا جائے وہ اگلے دن نہیں مل سکتا اس لئے بعض اوقات یہ مجبوری بھی ہوتی ہے باہر مال سیل کرنے کی) یا لوکل مارکیٹ میں آٹا کی شارٹیج ہو اس کے باوجود زیادہ نفع کی خاطر مال باہر سیل کیا جائے؟ برائے مہربانی اس کا کوئی حل بتائیں۔ مجبوری یا زیادہ نفع کی لالچ دونوں صورتوں میں ایسے نفع کا کیا مقام ہے؟

جواب:مل مالکان حکومتی کوٹہ سے جن قواعد و ضوابط کے مطابق گندم لے رہے ہیں ان کی پاسداری کرتے ہوئے آٹا فروخت کرنا لازم ہے، ورنہ ان کا عمل بددیانتی اور دھوکہ بازی کے زمرے میں آئے گا۔ حکومت مل مالکان کو گندم رعائتی قیمت پر فروخت کرتی ہے تو اس کی شرائط ہوتی ہیں، جیسے مسئلہ ہٰذا میں شرط ہے کہ آٹا صرف مخصوص ضلع میں فروخت ہوگا، اس کا مقصد یہی ہے کہ رعائت کا فائدہ عامۃ الناس کو پہنچے نہ کہ صرف مل مالکان کو۔ یہ اس معاہدہ کی بنیادی شرط ہے جس کا پاس رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ کاروباری خیانت شمار ہوگی۔
اگر مل مالکان ضلع سے باہر آٹا فروخت کرنا چاہتے ہیں یا حکومتی شرائط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں تو اس کا حل یہ ہے کہ حکومت سے رعائتی قیمت پر گندم نہ خریدیں بلکہ اوپن مارکیٹ سے گندم خریدیں یا حکومتی معاہدے کو آٹے کی طلب و رسد یا ذخیرہ شدہ آٹے کی کمی و بیشی کے ساتھ مشروط کر لیں کہ اگر مجوزہ خاص ضلع میں آٹے کی قلت نہ ہو یا ذخیرہ (Stock) خالی کرنا ہو تو انہیں دوسرے اضلاع میں آٹا فروخت کرنے کی اجازت ہوگی۔ کاروباری معاہدہ کرنے کے بعد اس کی پاسداری ضروری ہے، ورنہ اس سے ہونے والی آمدنی جائز نہ ہوگی۔ رعائتی قیمت پر حاصل کردہ گندم کا آٹا حکومت نے جس ضلع میں فروخت کرنے کی شرط رکھی ہے اس میں آٹے کی قلت کے باوجود محض منافع خوری کی خاطر دوسرے اضلاع میں آٹا فروخت کرنا سراسر ناجائز ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:مرحوم کے ترکہ سے اولاً اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات منہا کیے جائیں گے، قرض (اگر تھا تو اس کی) ادائیگی اور وصیت (اگر ہے تو اس مد میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (1/3) سے اس کی) ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
مسئلہ مذکور کی نوعیت کے مطابق ورثاء میں بیوہ اور دو بھائی شامل ہیں۔ جو بہن اور بھائی پہلے فوت ہوچکے ہیں وہ وارث نہیں رہے اور نہ ان کی اولاد ان کے حصہ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ مرحوم کے کُل قابلِ تقسیم ترکہ سے بیوہ کو چوتھا حصہ (1/4) ملے گا کیونکہ ان کی اولاد نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِن لَّمْ یَکُن لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِن کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُم مِّن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ.اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔النساء، 4:12
بیوہ کو چوتھا حصہ دینے کے بعد بقیہ تمام مال دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:مسجد کی تعمیرِ نو کے سلسلے میں اگر بیت الخلا کی جگہ تبدیل کرنا مقصود ہے تو یہ مصالح مسجد میں سے ہے۔ ایسی صورت میں اگر نقشہ کے مطابق بیت الخلا ایسی جگہ پر آ رہی ہیں جہاں پہلے مسجد شرعی تھی تو بامر مجبوری ایسا کرنا جائز ہے۔فقہی قاعدہ ہے کہ ‘الْأُمُورُ بِمَقَاصِدِہَا’ یعنی ہرکام کی اچھائی اور برائی کا دارومدار اس کے مقصد پر ہے۔ مسئلہ ہذا میں مسجدِ شرعی کی جگہ کسی اور استعمال میں لانے کا مقصد مسجد کی اہانت یا اسے غیرآباد کرنا نہیں بلکہ یہ تغیر و تبدل مسجد میں توسیع کی غرض سے ہو رہا ہے اور مقصود نمازیوں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے، اس لیے یہ جائز ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:نمازِ وتر میں دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے، اور قاعدہ یہ ہے کہ واجب کے رہ جانے پر سجدہ سہو ادا کرنا لازم ہے، سجدہ سہو سے نماز ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگرکوئی شخص وتر میں سورہ فاتحہ اور تلاوت کے بعد دعائے قنوت پڑھنا بھول گیا اور رکوع میں چلاگیا تو قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر سجدہ سہو کر لے، وتر کی ادائیگی درست ہوگی۔ دعائے قنوت بھول جانے کی صورت میں سجدہ سہو کرنے کے بعد وتر لوٹانے کی ضرروت نہیں ہے۔ رکوع سے قیام کی طرف لوٹنے کی بھی حاجت نہیں۔ سجدہ سہو سے وتر کی ادائیگی ہو جائے گی۔
 

(منہاج القرآن)


جواب:نماز کے لیے ستر ڈھانپنا بنیادی شرط ہے، اگر تہبند سے ستر چھپ جائے تو اس کے ساتھ زیرجامہ وغیرہ پہنے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ مطلوب ستر چھپانا ہے، جس لباس سے بھی ستر چھپ جائے اس سے شرط پوری ہو جاتی ہے اور نماز بھی ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے تہبند سے ستر چھپا لینے کے بعد اس کے نیچے زیرجامہ پہننا لازم نہیں ہے، زیرجامہ کے بغیر بھی نماز ہو جائے گی۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:دورانِ اذان بیت الخلاء استعمال کرنے کی شرعاً ممانعت نہیں ہے، اس لیے جب اذان ہو رہی ہو تو طہارت یا قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء استعمال کیا جاسکتا ہے، ایسا کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ اگر قضائے شدیدہ نہیں ہے تو اذان کے وقت بیت الخلاء میں نہ جایا جائے اور خاموشی سے اذان سن کر اس کا جواب دیا جائے، اس طرح سنتِ نبوی پر عمل کرنے کا ثواب مل جائے گا۔ لیکن شرعاً اذان کے دوران بیت الخلاء جانا ممنوع نہیں ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری
 

(منہاج القرآن)


جواب:سرکاری ملازم کو حکومت کی طرف سے ملنے والی پینشن بطور احسان اور تبرع کے دی جاتی ہے، اس لیے اسے ملازم کے مالِ وراثت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کے قانون اور ضابطہ کے مطابق ملازم نے اپنی پینشن جن رشتہ داروں کے لیے مختص کی ہوتی ہے وہی اس کے مالک اور وارث ہوتے ہیں۔ دیگر رشتہ داروں کا اس پینشن کی رقم پر کوئی حق نہیں ہوتا اور نہ وہ نامزد وارث سے حصہ کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ البتہ اگر نامزد وارث اپنی خوشی اور رضا سے دوسرے رشتہ داروں کو دے تو جائز ہے۔اس لیے صورت مسئلہ میں بھائی کا حصہ تب ہی ہوگا اگر سرکاری ملازم نے اسے نامزد وارث بنایا ہے۔ ورنہ وہی وارث ہوگا جو نامزد ہے، بھائی نہیں ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)

نسب تبدیل کرنا
سوال: ایک شخص جو کہ قریشی النسب ہے اور ایک مشہور بزرگ کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے اس بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے میں اس کی تمام اولاد جوکہ تقریباً چار سو نفوس پر مشتمل ہے’ متفق ہے۔ اولاد کے علاوہ علاقائی اور دیگر تمام اقوام بھی گزشتہ تین سو سال سے ان بزرگ کے صحیح قریشی النسب ہونے پر متفق چلی آرہی ہیں۔ ان بزرگ کی اولاد میں سے ساتویں اور آٹھویں پشت کے چند لوگوں نے ان بزرگ کو گیلانی سید مشہور کروانا شروع کردیا ہے اور خود بھی خودساختہ گیلانی سید بن چکے ہیں جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ خاندان کے کچھ افراد نے ان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا تو جواباً انہوں نے اپنے آپ کو گیلانی سید ثابت کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پیر و مرشد حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین گیلانی قادری بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرہ نسب پیش کیا، لیکن ان کی جعلسازی بروقت پکڑی گئی۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے قول و فعل سے باز نہیں آرہے ان میں سے دو شخص (باپ بیٹا) ان بزرگ کی درگاہ کے خودساختہ گدی نشین بھی بن بیٹھے ہیں اور تعویذات و عملیات کا کام بھی کرتے ہیں۔ برائے کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپنے فتوٰی سے مستفید فرمائیں کہ ان جعلسازوں کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم نافذ ہوتا ہے؟


جواب:اسلام میں نسب تبدیل کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے پر سخت وعید بھی آئی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَیْسَ لَہُ فِیہِمْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.
جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب نسبۃ الیمن إلی إسماعیل، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت: دار ابن کثیر الیمامۃ
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان حال إیمان من رغب عن أبیہ وہو یعلم، 1: 79، رقم: 61، دار إحیاء التراث العربی
اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
وَفِی الْحَدِیثِ تَحْرِیمُ الِانْتِفَاءِ مِنَ النَّسَبِ الْمَعْرُوفِ وَالِادِّعَاءِ إِلَی غَیْرِہِ وَقَیَّدَ فِی الْحَدِیثَ بِالْعِلْمِ وَلَا بُدَّ مِنْہُ فِی الْحَالَتَیْنِ إِثْبَاتًا وَنَفْیًا لِأَنَّ الْإِثْمَ إِنَّمَا یَتَرَتَّبُ عَلَی الْعَالِمِ بِالشَّیْءِ الْمُتَعَمِّدِ لَہُ.
اس حدیث میں کسی معروف نسب سے تعلق کا دعویٰ کرکے انتفاء و اغراض مقاصد حاصل کرنا حرام ہے، اور حرام اسی وقت ہوگا جب کوئی ایسا قصداً اور جانتے ہوئے کرے، کیونکہ گناہ کا ترتب تب ہی ہوگا جب اس کو جانتے ہوئے اور قصداً کیا جائے۔عسقلانی، فتح الباری، 6: 541، بیروت: دار المعرفۃ۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایسے شخص پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ أَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
ابن ماجہ، السنن، کتاب الحدود، باب من ادعی إلی غیر أبیہ أو تولی غیر موالیہ، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر
درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر اپنا نسب بدلنا اور خود کو اپنے اصلی نسب کی بجائے کسی اور سے منسوب کرنا حرام ہے۔ سوال میں مذکور شخص نے بھی اگر واقعتاً جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کیا ہے تو حرام عمل کیا ہے جس پر وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے۔ اس کی دیگر جعلسازیاں بھی قابلِ مذمت اور ناجائز ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

(منہاج القرآن)


جواب:اگر وہ شخص واقعی عشر، زکوٰۃ یا صدقہ خیرات لینے کا حقدار ہے تو کوئی حرج نہیں، لے سکتا ہے اور امامت بھی کروا سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ امامت کے لیے صحیح العقیدہ اور بنیادی دینی مسائل کا جاننے والا ہونا ضروری ہے، نہ کہ دولت مند، اَن پڑھ جاہل ہونا۔باقی رہا حجام تو اس میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں جو امامت کے مانع ہو۔ جو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، یہ ان کی جہالت ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

(منہاج القرآن)