بیت الخلا اور استنجا کے مسائل

            افضل یہ ہے کہ پانی سے استنجا کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت: فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین (التوبہ:۱۰۸) اہل قبا کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ کانوا یستنجون بالماء ‘‘وہ پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے۔’’ (ابوداؤد:۱۴۴)

            پانی کے ساتھ استنجا کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا اظہارِ محبت کرتے ہوئے آیت نازل فرما دینا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پانی سے ہی استنجا کرنا افضل ہے۔

            ٭ علامہ عینیؒ رقم طراز ہیں کہ ‘‘پانی(سے استنجا کرنا) افضل ہے، کیونکہ یہ نجاست کی ذات اور اثر کو زائل کر دیتا ہے۔’’ (عمدۃ القاری:۲؍۲۷۶)

            یہاں یہ بات یاد رہے کہ پانی کے ساتھ استنجا کے افضل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف پانی کے ساتھ ہی استنجا کرنا واجب ہے۔ شیخ امین اللہ پشاوری فرماتے ہیں کہ :‘‘ولا یجب الاستنجا بالماء کما یظنہ العوام’’(فتاویٰ الدین الخالص:۱؍۳۸۶)‘‘پانی کے ساتھ استنجا کرنا واجب نہیں ہے، جیسا کہ عوام یہ گمان رکھتے ہیں۔’’

            لہٰذا پانی کے علاوہ ڈھیلوں کا استعمال بھی مباح و درست ہے اور عہد ِرسالت میں نبیؐ اور صحابہ کرامؓ اکثر اوقات انہی سے استنجا کیا کرتے تھے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبیؐ نے قضائے حاجت کے لیے جاتے ہوئے حضرت ابن مسعودؓ کو تین پتھر لانے کا حکم دیا۔ (بخاری:۱۵۲)

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبیؐ نے پانی کے علاوہ مٹی کے ڈھیلوں سے ہی بالآخر کیوں استنجا کیا؟ یہی بات پیش نظر رکھتے ہوئے ریسرچ کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ مٹی میں نوشادر (Ammonium Chloride)اور اعلیٰ درجے کے دافع تعفن اجزا موجود ہیں۔

            ٭ ڈاکٹر ہلوک لکھتے ہیں کہ : ‘‘ڈھیلے کے استعمال نے سائنسی اور تحقیقی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے، کیونکہ مٹی کے تمام اجزا جراثیموں کے قاتل ہیں۔ جب ڈھیلے کا استعمال ہو گا تو پوشیدہ اعضا پر مٹی لگنے کی وجہ سے ان پر بیرونی طور پر لگے تمام جراثیم مر جائیں گے۔ بلکہ تحقیقات نے یہاں تک ثابت کر دیا ہے کہ مٹی کا استعمال شرم گاہ کے کینسر (Cancer of Penis) سے بچاتا ہے۔’’ (سنتِ نبویؐ اور جدید سائنس:۱؍۱۹۱)

            معلوم ہوا کہ محسن انسانیت نے پانی کے علاوہ ڈھیلوں کا حکم یونہی نہیں دیا، بلکہ اس لیے دیا کہ اس میں ا مت مسلمہ کے لیے بے شمار فوائد مضمر تھے۔ تاہم اہل علم نے پانی اور ڈھیلوں کے سوا ہر اس پاک چیز سے بھی استنجا کی اجازت دی ہے جو طہارت و نظافت میں ان کے قائم مقام ہو اور نجاست کا اثر زائل کر دے۔ امام شوکانیؒ رقم طراز ہیں کہ :‘‘(قضائے حاجت کرنے والے پر) تین ڈھیلوں یا ان کے قائم مقام کسی پاک چیز سے استنجا کرنا لازم ہے۔’’ (الدررالبھیۃ: باب قضاء الحاجۃ)

            ٭ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ‘‘شارع نے جس چیز کے استعمال کی اجازت دی ہے، اس کے ساتھ استنجا کا حکم اس لیے ہے کہ نجاست کا اثر مٹ جائے اور اس کی ذات ختم ہو جائے اور شارع نے جس چیز کے ساتھ استنجا کرنے سے منع کیا ہے وہ (اس عمل میں) کفایت کرنے والی نہیں اور جس سے منع نہیں کیا، اگر وہ چیز محترم نہ ہو اور نہ ہی اس کا استعمال مضر ہو تو وہ کفایت کر جائے گی۔’’ (السیل الجرار:۱؍۲۰۲)

            ٭نواب صدیق حسن خانؒ فرماتے ہیں: ‘‘استنجا ہر ایسی جامد، پاک، (نجاست کی) ذات کو زائل کر دینے والی چیز سے جائز ہے جو پتھر کے قائم مقام ہو اور نہ تو وہ چیز قابل احترام ہو اور نہ ہی کسی حیوان کا جز ہو، مثلاً لکڑی ، کپڑے کا ٹکڑا، اینٹ اور ٹھیکری وغیرہ۔’’ (الروضۃ الندیۃ:۱؍۱۱۰)

            ٭ امام ابن قدامہؒ بیان کرتے ہیں: ‘‘لکڑی ، کپڑا اور ہر وہ چیز جس کے ذریعے صفائی کی جا سکے، وہ (استنجا میں) پتھروں کی مانند ہی ہے، یہی صحیح مذہب ہے اور اکثر اہل علم کا قول بھی ہے۔’’ (المغنی:۱؍۲۱۳)

            ٭ سید سابق مصری رقم طراز ہیں کہ : ‘‘پتھر اور اس کے ہم معنی ہر جامد، پاک، نجاست مٹا دینے والی غیر محترم چیز سے استنجا کیا جا سکتا ہے۔’’ (فقہ السنۃ: ۱؍۲۶)

            ٭ڈاکٹر وہبہ زحیلی فرماتے ہیں کہ : ‘‘پانی یا پتھر اور اس کی مثل ہر جامد پاک، (نجاست) زائل کر دینے والی غیر محترم چیز، مثلاً (درخت کا) پتا، کپڑے کا ٹکڑا، لکڑی اور ٹھیکری وغیرہ سے استنجا ہو جاتا ہے۔’’(الفقہ الاسلامی وادلتہ:۱؍۱۹۵)

            ٭ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘اور ان رومالوں سے بھی استنجا کرنا جائز ہے جو (بطورِ خاص) اسی لیے تیار کیے جاتے ہیں۔’’(فتاویٰ الدین الخالص:۱؍۳۸۶)

            مذکورہ علما نے ان روایات سے استدلال کیا ہے جن میں یہ ذکر ہے کہ نبیؐ نے تین پتھروں کے ساتھ استنجا کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ ہڈی اور گوبر کے ساتھ استنجا نہ کیا جائے۔ (ابوداؤد:۴۱، مسلم:۱؍۲۲۳، کتاب الطہارۃ) ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کا مقصود پتھر اور اس کے قائم مقام کے ساتھ استنجا کی اجازت دینا نہ ہوتا تو آپ کبھی ہڈی اور گوبر کو بطورِ خاص مستثنیٰ نہ کرتے۔ اس استثنا سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ تمام اشیا سے استنجا کیا جا سکتا ہے۔

            ٹائلٹ پیپر ایک ایسا نرم ملائم اور لطیف کاغذ ہے جو اہل یورپ کی ایجاد ہے اور اسے خاص طور پر استنجا کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ٹائلٹ پیپرکے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن یہ یاد رہے کہ اس پیپر کی تیاری میں جو مختلف قسم کے کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں، وہ انتہائی مہلک ہیں۔ ان سے جلدی امراض (Skin Diseased) ایگزیما(Eczema)اور جلد میں رنگت کی تبدیلی کے امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس وقت تمام اہل یورپ یہی پیپر استعمال کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں اخبارات نے یہ خبر شائع کی کہ اس وقت یورپ میں شرم گاہ کے مہلک امراض خاص طور پر کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس کے سدباب کے لیے جب تحقیقی بورڈ بیٹھا تو اس بورڈ کی رپورٹ میں صرف دو چیزیں تھیں کہ ٹائلٹ پیپر کا استعمال کرنا اور پانی کا استعمال نہ کرنا۔(سنت نبوی اور جدید سائنس:۱؍۱۹۱)

            ٹائلٹ پیپر کے استعمال کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:

            (۱) مستقل استعمال

            (۲) پانی اور مٹی کی غیر موجودگی میں استعمال

            درج بالا مضر اثرات و نتائج کی وجہ سے اسے مستقل استعمال کرنے سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ تاہم اگر اس کے استعمال سے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو یا اس کے بعد پانی استعمال کر لیا جائے یا پانی اور مٹی کی غیر موجودگی میں اسے استعمال کیا جائے تو ایسا کرنے والے پر کوئی گناہ نہ ہو گا۔ واللہ اعلم!

(حافظ عمران ایوب لاہوری)

            کموڈ سیٹ نما فلش ہے، جس پر بیٹھ کر قضائے حاجت کی جاتی ہے۔ آج کل اس کا استعمال دفاتر، ہوٹلز، ایئر پورٹس اور یونیورسٹیز سے لے کر گھروں تک عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔

            اس کی شرعی حیثیت سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس پر بیٹھ کر قضاے حاجت کرتے ہوئے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا انتہائی مشکل ہے اور یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب بہرصورت واجب ہے اور یہ اصول ہے کہ جو چیز کسی واجب کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہے، وہ بھی واجب ہے، یعنی اگر پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب کموڈ سے بچنے میں ہی ہے تو کموڈ سے بچنا بھی واجب ہے۔

            تاہم اس کے جواز کی ایک صورت ہے کہ اگر اس پر بیٹھ کر قضائے حاجت کے دوران نجاست یا پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا یقینی ہو تو ہمارے علم کے مطابق کوئی اور ایسا سبب نہیں جس بنا پر اسے ناجائز قرار دیا جائے۔البتہ بہتر اور صحت بخش طریقہ وہی ہے جو فطری ہے اور جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق اگر اس فطری طریقے کے مطابق قضاے حاجت کے لیے بیٹھا جائے تو اپنڈے سائیٹس(Appendesitis)، دائمی قبض، بواسیر (Piles)، گردوں کے امراض، گیس، تبخیر اور بد ہضمی وغیرہ جیسے امراض ختم ہو جاتے ہیں۔(سنت ِنبویؐ اور جدید سائنس:۱؍۱۹۰)

            علاوہ ازیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت سراقہ بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ :‘‘علمنا رسول اللہ فی الخلاء ان نقعد علی الیسریٰ و ننصب الیمنی۔’’‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کی تعلیم دیتے ہوئے ہمیں فرمایا کہ ‘‘ہم بائیں پاؤں پر وزن دے کر بیٹھیں اور دائیں کو کھڑا رکھیں (یعنی اس پرکم بوجھ ڈالیں)’’(بیہقی:۱؍۹۶)

            اگرچہ سنداً اس روایت میں ضعف ہے، لیکن اس میں مذکورہ طریقہ قضائے حاجت حکمت سے خالی نہیں، جیسا کہ اس روایت کی شرح کرتے ہوئے مولانا صفی الرحمن مبارک پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

‘‘اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں پاؤں پر بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کا معدہ بائیں طرف ہوتا ہے۔ بائیں پاؤں پر بیٹھنے سے اخراجِ فضلہ میں سہولت اور آسانی ہوتی ہے۔’’(شرح بلوغ المرام:۱؍۹۳)

            لا محالہ یہ فائدہ بھی انسان کو تب ہی حاصل ہوسکتا ہے، جب وہ کموڈ پر نہیں بلکہ ٹائلٹ پر قضائے حاجت کر رہا ہو، کیونکہ کموڈ پر اس طرح بیٹھنا ممکن ہی نہیں۔

            خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قضائے حاجت کے لیے سب سے بہتر فطری طریقہ عام ٹائلٹ کا استعمال ہے، لیکن اگر کموڈ کی کہیں ضرورت پیش آجائے اور پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب ممکن ہو تو اس کا استعمال گوارا کیا جا سکتا ہے۔

(حافظ عمران ایوب لاہوری)

            یورینل اس ظرف کو کہتے ہیں جو بطورِ خاص مریضوں کے پیشاب کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب مریض اٹھ کر ٹائلٹ تک جانے کی قوت و طاقت نہ رکھتا ہو۔ یقینا ایسی صورت میں مریض واش روم جانے کا مکلف نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنے کام کا ہی مکلف ٹھہرایا ہے جتنے کی اس میں استطاعت موجود ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے: ‘‘لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا’’ (البقرہ:۲۸۶)‘‘اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔’’ایک اور آیت میں ہے کہ :‘‘فاتقوا اللہ ما استطعتم’ (التغابن:۱۶)‘‘پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔’’اور حدیث ہے کہ ‘‘اذا امرتکم بشیی فاتوا منہ ما استطعتم’’ (بخاری:۷۲۸۸‘‘جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کر لیا کرو۔’نیز ایک صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں چارپائی پر ایک لکڑی سے بنے برتن میں ہی پیشاب کر لیا کرتے تھے، جیسا کہ اس حدیث میں یہ لفظ ہیں کہ :‘‘کان للنبیی قدح من عیدان تحت سریرہ یبول فیہ باللیل’’ (ابوداؤد:۲۴‘‘نبی ؐ کے پاس لکڑی کا ایک برتن تھا جسے آپ نے اپنی چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا اور آپؐ رات کو اس میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔’’

            اس حدیث کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ:‘‘نبیؐ حالت مرض میں ایسا کیا کرتے تھے۔’’ (عون المعبود:۱؍۳۰)معلوم ہوا کہ مریض کے لیے یورینل کا استعمال مباح و جائز ہے، البتہ ہوش مند مریض کے لیے پیشاب کے بعد استنجا کرنا ضروری ہے۔ اگر پانی سے استنجا ممکن نہ ہو تو مٹی کے ڈھیلے استعمال کرے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ٹشو پیپر سے ہی استنجا کرے۔

(حافظ عمران ایوب لاہوری)


جواب:دورانِ اذان بیت الخلاء استعمال کرنے کی شرعاً ممانعت نہیں ہے، اس لیے جب اذان ہو رہی ہو تو طہارت یا قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء استعمال کیا جاسکتا ہے، ایسا کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ اگر قضائے شدیدہ نہیں ہے تو اذان کے وقت بیت الخلاء میں نہ جایا جائے اور خاموشی سے اذان سن کر اس کا جواب دیا جائے، اس طرح سنتِ نبوی پر عمل کرنے کا ثواب مل جائے گا۔ لیکن شرعاً اذان کے دوران بیت الخلاء جانا ممنوع نہیں ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری
 

(منہاج القرآن)