جواب: اختلافات کی توپوری ایک دنیا ہے لیکن وہ بات جو اصلا اس کاباعث بن گئی ہے ۔وہ یہ ہے کہ ایک کے ہاں پاپائیت کا ایک پورا نظام ہے ۔اور کلیسا ہی بائبل کی تعبیر کا اصل ذمہ دار ہے ۔اور دوسروں کے ہاں اس بات پر اصرار ہے کہ ہم بھی بائبل کو پڑھ سکتے ہیں ۔اور ہم بھی اس کا مفہوم اور مدعا اخذ کر سکتے ہیں ۔اورہم بھی اس کی بنیاد کے اوپر کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: مائدہ دستر خوان کو کہتے ہیں ۔جو دستر خوان آپ عام طور پر بچھاتے ہیں ۔ آج کل تو کھانا کھانے کے لئے خیر میزیں ہو گئیں۔لیکن یہ کہ پہلے زمیں پر دستر خوان ہی بچھاتے تھے۔اس کو مائدہ کہتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نبیﷺ کے زمانے میں تو عورتیں عموماساری نمازوں میں مسجد میں حاضر ہوتی تھیں ۔اس لئے اس کا اہتمام کیا جائے تو یہ بالکل ٹھیک ہوگا اس میں کوئی خرابی کی بات نہیں ہے ۔اور حضور ﷺ کے زمانے میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں خاص طور پر آتی تھیں۔عیدین کی نمازوں میں تو حضور نے ان خواتین کوبھی پابند کیا کہ جو ایام سے تھیں کہ وہ صرف خطبہ سننے کے لئے آجا ئیں۔لیکن آئیں ضرور۔نبی ﷺ کے زمانے میں تو طریقہ یہ تھا ۔اب ہمارے ہاں تو ظاہر ہے کہ اس کا اہتمام نہیں ہوتا ۔تاہم عام پانچ نمازوں میں حضورؐ نے یہ بات کہہ دی ہے کہ عورتیں اگر نہیں آئیں گی مسجد میں تب بھی ان کو اجر مل جائے گا ۔یعنی چونکہ ان کے اوپر لازم نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے وہ آجائیں تواچھی بات ہے نہ آئیں گھر میں پڑھیں تب بھی ان کو مسجد کی نماز کا اجر مل جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: آپ نے وضو کر کے جرابیں پہنی ہوئی ہیں ۔پھر آپ کو وضو کی ضرورت اگر پڑتی ہے تو آپ صرف مسح کر سکتے ہیں یہ کا فی ہے ۔کوئی حرج نہیں ہے اس میں ۔جراب کی کوئی بھی قسم ہو سکتی ہے ۔چمڑے کی یا کپڑے کی ۔جب تک دنیا ہے جراب کی قسمیں بدلتی رہیں گی۔جو جراب بھی آ پ نے پہنی ہے آپ اس پہ مسح کر سکتے ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب : میرے خیال میں اتنی بات ٹھیک ہے کہ یہودیوں نے حضور ﷺ پر جادو کرنے کی کوشش کی ۔نبی ﷺ نے کچھ گرانی سی محسوس کی لیکن اللہ تعالیٰ نے فوراً آپ کے لئے اہتمام کر دیا کہ اس کا اثر آپ ؐ کے اوپر نہ ہونے پائے۔میں اتنی بات کو صحیح سمجھتا ہوں ۔یہ بات کہ حضور ؐ پر جادو ہوگیا اور پھر اس کے بعد آپ ؐ یہ بھو ل جاتے تھے کہ نماز پڑھی ہے یا نہیں پڑھی؟بیویوں کے پاس گئے ہیں یا نہیں گئے۔محض افسانہ طرازی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نمازیں آپ بالکل نہیں ملا سکتے’ بالکل بھی ۔البتہ اگر کسی موقع کے اوپر آپ محسوس کریں کہ کسی دوسری جگہ پہنچنا ہے ۔راستے میں موقع نہیں ملے گا ۔یااور مسائل ہو جائیں گے ۔تو آپ ظہر کے ساتھ ہی عصر کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔اسی طرح مغر ب کے ساتھ ہی عشا کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ایسے ہی موخر کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔یعنی ظہر کی نماز کو عصر کے ساتھ ملا کے اور مغرب کی نماز کو عشا کے ساتھ ملا کے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب:ـ یہ فقہا کی اصطلاح ہے ۔کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے ۔یعنی ایسانہیں ہے کہ قرآن یا حدیث کی اصطلاح ہے فقہا ان نفلوں کو سنت ِ موکدہ کہتے ہیں جو حضور نے بڑے اہتمام سے ہمیشہ پڑھے ہوں ۔ یہ بات بھی یا د رکھئے کہ حضور ﷺاورصالحین کایہ ہمیشہ طریقہ رہا ہے ۔ اورحضورؐ نے اس کی تلقین بھی کی ہے کہ فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھئے۔اور پہلے اور بعد کے نفل یہ اپنے کمرے میں آکر پڑھئے۔گھر میں پڑھئے یہ ہی اس کا پسندیدہ طریقہ ہے ۔یعنی ان کو مسجد میں کم سے کم پڑھنا چاہئے۔یا کسی مجبوری میں پڑھیں ۔ورنہ گھر میں پڑھیں ۔بلکہ حضور ؐ نے یہاں تک فرما یا ہے کہ گھروں کو قبرستان نہ بناؤیہ جو نفل ہیں یہ گھر میں آکر پڑھا کرو۔ان کے اندر بھی بیدار ی اور ذکر اور خداکی یادکا اہتمام ہونا چاہئے۔ویسے بھی یہ نفل نماز ہے یہ جتنی آپ الگ ہوکے اللہ تعالیٰ اور اپنے درمیان کوئی بندے کو حائل کر کے نہ پڑھیں گے اتنی زیادہ آپ کے لئے باعثِ اجر ہو گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اللہ تعا لیٰ نے کچھ فیصلے تو انسان کے بارے میں کر دیئے ہیں۔ان کو انسان تبدیل نہیں کر سکتا مثلا یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کو کیا شکل و صور ت دینی ہے ۔کب پیدا کرنا ہے کن والدین کے گھر میں پیدا ہونا ہے ۔کیا صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے ؟ شاعر ہے ،ادیب ہے ،مصور ہے ،دنیا میں کوئی نیا انقلاب برپا کر ڈالے گا،سیاسی لیڈر ہے ،چکمے باز ہو جائے گا ؟یہ سارے معاملات جو کہ صلاحیت پر مبنی ہیں طے ہیں ۔دوسری چیز یہ ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ دیتا ہے لیکن وہ ہماری دعا اور ہمارے کسب سے متعلق ہوتی ہیں ۔یعنی اگر ہم محنت کریں گے تو مل جائیں گی نہیں کریں گے تو نہیں ملیں گی۔بعض چیزیں ایسی ہیں جو مانگیں گے تو مل جائیں گی نہیں مانگیں گے تو نہیں ملیں گی۔تو اس وجہ سے یہ دونوں کام کرتے رہنا چاہئے۔جو چیزیں آپ کے لئے مقدر کر دی گئی ہیں ۔ان کو بدلنے کی کوشش نہ کیجئے ۔یعنی عورت بنا دیا گیا ہے تو مرد بننے کی کوشش نہ کریں ۔مرد بنا دیا گیا ہے تو عورت بننے کی کوشش نہ کریں ۔اس کو قرآن مجید نے بیا ن بھی کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمہارے لئے سانچہ بنا دیا ہے اس کو تبدیل کر کے ایک دوسرے کے ساتھ بدلنے کی کوشش نہ کرو اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا ۔ لیکن جن چیزوں کا تعلق کسب سے ہے ۔یعنی جن کو ہم دنیا میں کماتے ہیں اور جن میں ہم ترقی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں، ان میں بہت سی چیزیں دعا سے متعلق ہیں۔تو اس وجہ سے جن چیزوں میں یہ معاملہ ہے ان میں اللہ سے دعا بھی کرنی چاہئے اور محنت بھی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتیں آپ کی محنت سے متعلق ہیں۔اسی طریقے سے اللہ کی بہت سی نعمتیں آ پ کی دعا سے متعلق ہیں ۔یعنی اللہ نے طے ہی یہ کیا ہوتا ہے کہ مانگیں گے تو دوں گا نہیں مانگیں تو نہیں دوں گا ۔تو اس وجہ سے مانگتے رہئے۔پتا نہیں کونسی ایسی چیز ہو جو مانگنے ہی پر ملنی ہے
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ دنیاآزمائش کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ اس میں جو کچھ آپ کرتے ہیں اس کا صلہ’ لازم نہیں ہے کہ آپ کو دنیا میں مل جائے ۔بعض اوقات آپ کی کوشش ناکام ہوجاتی ہے ۔کیونکہ امتحان کے لئے بنائی گئی ہے تو پہلے دن سے یہ بات سمجھ لیں جیسے ہی شعور کی عمر کو پہنچیں تو یہ سمجھ لیں کہ دنیا اصل میں عدل پر نہیں بنائی گئی ۔اس لئے کہ اگر عد ل پر بنا دی جاتی تو پھر امتحان نہیں ہوسکتا تھا ۔یہ امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ امتحان کس چیز کا ہے ؟صبر کا بھی اور شکر کا بھی ۔اللہ انتخاب کر لیتاہے کچھ کو صبر کے امتحان میں ڈالنا ہے اور کچھ کو شکر کے امتحان میں ڈالنا ہے ۔اب آپ شکر کے امتحان میں ڈالے گئے ہیں تو یہ بھی بتا دیا کہ کیسے کامیاب ہوں گے؟اللہ کی جو نعمتیں آپ کو ملی ہیں ان نعمتوں سے اپنی ذاتی،کاروباری ضرورتیں ضرور پوری کیجیے۔لیکن ان کو اپنا استحقاق نہ سمجھئے۔جو ان ضرورتوں سے زیادہ آپ کو مل گیا ہے وہ آپ کا حق نہیں ہے ۔اور یہ بتا دیا ہے کہ اگر آپ اس زائد مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے موقع کے اوپر بھی آپ خرچ نہیں کرتے تو اس مال سے آپ کے جسم کو قیامت کے دن داغ دیا جائے گا ۔یہ ایک بدترین سزا ہے جو دے دی جائے گی ۔یہ ہی دوسری چیزوں کا معاملہ ہے اگر کسی آدمی کے اوپر کوئی تکلیف یا مصیبت آگئی ہے یا اس کو کسی بیماری میں مبتلا کر دیا گیا ہے ،کوئی جنگ و جدال کا معاملہ ہوگیا ہے یا اس کو غربت نے آلیا ہے تو ایسی تمام چیزوں میں اس کے خلاف وہ جدو جہد کرے محنت کرے ۔وہ اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کرے ۔اگر ناکامی ہوجائے تو جزع فزع نہ کرے ۔اللہ اپنے کسی بندے کا ایمان اور عمل ضائع نہیں کرتے لیکن بہرحال صبر کی ایک آزمائش ہے ۔وہ اس میں کامیاب ہوگا تو اللہ اس کو صلہ دے گااس کا قیامت میں ۔اور جنت کے بارے میں تو یہ کہا گیا ہے کہ جنت اصل میں صلہ ہی صبر کا ہے ۔کیونکہ شکر کرنے والا بھی اصل میں جب تک صبر نہیں کرتا شکر نہیں کر سکتا ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ قیامت کے بارے میں ہے ۔اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ قیامت میں انسان کو وہی ملے گا جس کی اسنے کوشش ہوگی۔موجودہ دنیا میں ضروری نہیں کہ ہماری ہر کوشش کامیاب ہو عام طور پر ہوتی کامیاب ہو بھی جاتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: ظفر علی خان نے قرآن مجیدکی ایک آیت کے مفہوم کو شعر میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تھوڑی سی مختلف ہے ۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کو دنیا میں مہلت دے رکھی ہوئی ہے اور عام طور پر وہ یہ مہلت دیئے رکھتے ہیں ۔جس میں قومیں اپنے طریقے کے مطابق کام کرتی ہیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کسی قوم پہ عذاب بھیج دے یا اس کو پکڑ لے یہ اللہ تعالیٰ اسوقت تک نہیں کرتے جب تک وہ قوم سرکشی پرآمادہ نہیں ہو جاتی ۔وہ اپنے ہاں تبدیلی کرتی ہے پھر اللہ بھی اپنے معاملے کو تبدیل کر دیتا ہے یہ مفہوم ہے آیت کا ۔.......ان اللہ لا یغیر بقومٍ حتٰی یغیرما بانفسہم...........یعنی وہ جب اپنے اند تبدیلی پیدا نہیں کر لیتے اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی وہی معاملہ ڈھیل کا قائم رکھتے ہیں دنیا کے اندر ۔اس کو انہوں نے اسطرح سے بیان کر دیا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس لئے کہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کے لئے بنی ہے ۔خدا کی سکیم یہ ہے کہ وہ امتحان کر رہا ہے ۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ نہیں ملے گا اس میں بھی آ پ کاامتحان ہے اور جو مل جائے گا اس میں بھی آپ کا امتحان ہے ۔پوچھا جائے گا کہ آپ نے دونوں صورتوں میں کیا رویہ اختیار کیا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: امتِ مسلمہ کے حال میں کوئی روشنی نظر نہیں آتی ۔تاریکی ہی تاریکی ہے ۔میرے نزدیک کسی قوم کی تقدیر بدلتی ہوئی محسوس اسوقت ہوتی ہے جس وقت اس کی لیڈر شپ کا رویہ تبدیل ہوجائے۔امت مسلمہ کی لیڈر شپ اسوقت مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک امت کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔جو لائحہ عمل اس نے امت کو دیا ہے۔اس کے نتیجے میں اگر موت واقع ہونے میں دس دن لگنے تھے تو وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ دس دن لگیں ۔میں کوئی لیڈر شپ کے رویئے میں تبدیلی نہیں دیکھ رہا ۔میرے خیال میں مذہبی رہنما ،سیاسی رہنما یہ تمام کے تما م ایک ہی بولی بو ل رہے ہیں ۔ایک ہی طرح کی گفتگو کر رہے ہیں ۔اور وہ بڑے سادہ اصول پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ وہ دنیا میں ایک ہزار سال تک حکومت کرتے رہے ہیں تو اب اللہ تعالیٰ نے کچھ دوسرے لوگوں کی طرف یہ اقتدار منتقل کر دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جلد سے جلد دو چار بم چلا کر اس کو واپس لے لیا جائے ۔یہ لائحہ عمل ہے جس کواختیار کیا گیا ہے ۔اسی کو پسند کیا جاتاہے ۔قوم کی تعمیر کیسے کرنی ہے اس کے لئے کیا جدو جہد ہونی چاہئے’ نہ یہ کسی کا مسئلہ ہے نہ کوئی اس کی دعوت دے رہا ہے ۔نہ اس کے لئے کام کر رہا ہے ۔تو اس لئے میرے خیال کے مطابق فی الحال تقدیر بدلنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔میں آپ کو کسی خواب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا لیکن جس دن قوم کی لیڈر شپ کا attitude بدل جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ راستہ بد ل گیا ۔اب اس کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ابھی تو اکا دکا آوازیں ہیں ۔دو تین سے زیادہ لوگ نہیں ہیں امت کی لیڈر شپ میں جو صحیح بات کہہ رہے ہیں ۔جب صورتحال یہ ہو تو کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اسلام کا مخاطب سب سے پہلے فرد ہے ۔ مجھے اسلام میں پورا پورا داخل ہونا ہے لہذا مجھے سود سے بچناہے۔ اور یہ بچنا کچھ مشکل نہیں ہے یعنی کوئی طاقت، کوئی قانون مجھے پابند نہیں کرتا کہ میں لوگوں سے سود کھانا شروع کر دوں ۔ رہ گئی یہ بات کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی اس کو ختم کرے۔تو اس کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے ، پورے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور جب تک یہ نہیں ہوتا تو انفرادی طور پر سود سے بچنا جس حد تک ممکن ہو اس پر سختی سے عمل پیرا رہنا چاہیے۔
اسلام میں بالواسطہ جرائم میں کسی آدمی کو ماخوذ نہیں کیا جاتا ۔آپ نے کسی کو قرض دیا ہے اور اس پر سود لیا ہے تو آپ مجرم ہیں ۔معاشرے میں رقم کہاں سے آتی ہے اس کے آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ سارا معاشرہ سود کے نظام پر چل رہا ہے یہی پیسہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے اس میں آپ ماخوذ نہیں ،آپ اپنے عمل پر ماخوذ ہیں۔ یہ کوئی قاعدہ نہیں کہ پاکستان کی حکومت نے قرض لیا ہوا ہے اور اس پر وہ سود دے رہی ہے تو آپ بھی مجرم ہو جائیں گے۔بات اس طرح نہیں ہے ، آپ نے کیا کیا ، اس کی بنیاد پر آپ کا مواخذہ ہو گا۔البتہ لوگوں کے دل و دماغ کو درست کرنے کی کوشش کرتے رہیے۔ہر فرد کو اپنے آپ کو پاکیزہ رکھنا ہے اور اپنے ماحول میں دوسروں کے لیے کوشش کرنی ہے بس یہ ہی مطالبہ ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بیعت ایک معاہدہ ہے۔ بیعت کوئی دینی یا شرعی چیز نہیں ہے ۔دنیا میں ہمیشہ سے عہد معاہدہ کرنے کا یہ طریقہ رائج رہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعدہ کرتے تھے ۔ ہمارے ہاں اب بھی ہاتھ اٹھا کر حلف لیتے ہیں ۔ تو یہ معاہدہ کرنے کے طریقے ہیں۔ یعنی یہ سیکولر چیز ہے اس کا دین یا مذہب سے بطورخاص کوئی تعلق نہیں ہے ۔اصل سوال یہ ہے کہ آپ دوسرے سے کس بات پر وعدہ لے رہے ہیں۔ یعنی جو عہد آپ لیں گے اس کے لحاظ سے بات کی جائے گی کہ یہ بیعت ، معاہدہ کس چیز کاہے۔بیعت اصل نہیں کس امر کے لیے بیعت کر رہے ہیں وہ اصل ہے۔ مثال کے طور پرایک شخص لوگوں سے کہتا ہے کہ میں تم سے عہد لیتا ہوں کہ تم نیک رہو گے ۔یہاں سوال کیا جائے گا کہ کیا یہ عہد لینے کا شریعت نے اسے اختیار دیا ہے۔یہ تو عمومی بات ہے اگر وہ کسی سے عہد لیتا ہے تو خود بھی اس کو بھی وعدہ کرنا چاہیے کہ وہ بھی نیک رہے گا ۔وہ اس مقامِ برتر پرآخر کیوں فائز ہو گیاہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے اسلام کی بیعت لی تو وہ خدا کے نمائندہ تھے ان کو یہ حق حاصل تھا۔لیکن مجھے، آپ کو تو یہ حق حاصل نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمارے زمانے میں لوگوں نے کہاکہ میرے ساتھ سمع و طاعت کی بیعت کرو تو سمع وطاعت کا حق اللہ نے کس کو دیا ہے ،اللہ کو دیا ہے اطیعو اللہ ، رسول اللہ کو دیا ہے اطیعو ا لرسول ،اور اولی الامر کو دیا ہے ۔اطیعو اللہ و اطیعوالرسول واولی لامر منکم۔ مسلمانوں کا جس کو حکمران بنایا گیا ہے اسکو حق حاصل ہے کہ وہ ہم سے قانون کی پابندی کا عہد لے ۔اس کے علاوہ کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میری سمع و طاعت کی بیعت کرو۔
(جاوید احمد غامدی)