ج: امت مسلمہ اس جگہ پر پہنچی ، عرب و عجم پر اس کا اقتدار قائم ہوا ۔ قریبا ًایک ہزار تک اس کی حکومت رہی ۔ صحابہ کرام نے اس دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی ، یہ سب ہو چکا ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: امتِ مسلمہ کے حال میں کوئی روشنی نظر نہیں آتی ۔تاریکی ہی تاریکی ہے ۔میرے نزدیک کسی قوم کی تقدیر بدلتی ہوئی محسوس اسوقت ہوتی ہے جس وقت اس کی لیڈر شپ کا رویہ تبدیل ہوجائے۔امت مسلمہ کی لیڈر شپ اسوقت مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک امت کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔جو لائحہ عمل اس نے امت کو دیا ہے۔اس کے نتیجے میں اگر موت واقع ہونے میں دس دن لگنے تھے تو وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ دس دن لگیں ۔میں کوئی لیڈر شپ کے رویئے میں تبدیلی نہیں دیکھ رہا ۔میرے خیال میں مذہبی رہنما ،سیاسی رہنما یہ تمام کے تما م ایک ہی بولی بو ل رہے ہیں ۔ایک ہی طرح کی گفتگو کر رہے ہیں ۔اور وہ بڑے سادہ اصول پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ وہ دنیا میں ایک ہزار سال تک حکومت کرتے رہے ہیں تو اب اللہ تعالیٰ نے کچھ دوسرے لوگوں کی طرف یہ اقتدار منتقل کر دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جلد سے جلد دو چار بم چلا کر اس کو واپس لے لیا جائے ۔یہ لائحہ عمل ہے جس کواختیار کیا گیا ہے ۔اسی کو پسند کیا جاتاہے ۔قوم کی تعمیر کیسے کرنی ہے اس کے لئے کیا جدو جہد ہونی چاہئے’ نہ یہ کسی کا مسئلہ ہے نہ کوئی اس کی دعوت دے رہا ہے ۔نہ اس کے لئے کام کر رہا ہے ۔تو اس لئے میرے خیال کے مطابق فی الحال تقدیر بدلنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔میں آپ کو کسی خواب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا لیکن جس دن قوم کی لیڈر شپ کا attitude بدل جائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ راستہ بد ل گیا ۔اب اس کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ابھی تو اکا دکا آوازیں ہیں ۔دو تین سے زیادہ لوگ نہیں ہیں امت کی لیڈر شپ میں جو صحیح بات کہہ رہے ہیں ۔جب صورتحال یہ ہو تو کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہمارے خیال میں جماعت سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی ہے اور اس نظم اجتماعی سے جڑ کر رہنا مذہبی ذمہ داری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ لیکن یہ کہ مسلمانوں کا ایک ہی سربراہ ہونا چاہیے یہ لازم نہیں ہے اور میرے نزدیک یہ ممکن بھی نہیں ہے اورنہ ہی ہماری مذہبی ذمہ داری ہے
تاریخ انسانی میں اس خواہش کے پورا ہونے کی دو ہی صورتیں نظر آتی ہیں تیسری کوئی صورت ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکی۔ ایک یہ ہے کہ کوئی سکندر اٹھے ، فتوحات شروع کرے اورانسانوں کو مارمار کر ایک حکومت قائم کرلے یا پھر یہ ہے کہ عامتہ الناس کے رائے اورمشورے سے حکومتیں قائم کی جائیں۔سکندر کی طرح کی فتوحات کا اب زمانہ نہیں رہا۔ امریکہ اس وقت سپر پاور ہے اور اس نے افغانستان اور عراق پر قبضہ بھی کیاہے لیکن اس کے باوجود اس تگ ودو میں مصروف ہے کہ وہاں مقامی حکومت بنا ئی جائے کیونکہ عالمی سطح پر قبضے والے طرز عمل کو پسند نہیں کیا جاتا۔
دوسری صورت اقتصادی صورتحال اور معاشی عمل ہے۔ جس طرح یورپی یونین میں ہو رہا ہے اس طریقے سے بھی آہستہ آہستہ اتحاد کی شکلیں نکلتی چلی آتی ہیں۔ مثلا کسی موقع کے اوپر یورپی یونین یہ فیصلہ کرے کہ اچھا ہم ایک ہی حکومت بنا لیتے ہیں تو یہ ہوجائے گا لیکن یہ ان کی کسی مذہبی خواہش کانتیجہ نہیں ہو گابلکہ تمدنی، سیاسی اور اقصادی حالات کاارتقا ہو گا۔ کوئی امیر قوم غریبوں کو اپنے ساتھ شامل کر نا پسند نہیں کرتی ۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ برطانیہ میں جا کر آپ شہریت حاصل کرلیتے ہیں لیکن سعودی عرب میں آپ یہ بھی نہیں کر سکتے ۔، وجہ کیا ہے ، وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنی دولت میں شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج سے سو سال پہلے یہ لوگ ترستے تھے کہ کوئی وہا ں آئے۔ اب کیا تبدیلی کیا آئی ہے صرف یہی کہ اقتصادی حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔چنانچہ اقتصاد ی حالات بھی تاریح و جغرافیے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا اشارہ ہمیں قرآن سے بھی ملتا ہے ۔ قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تعز من تشاء وتذل من تشائمیں یہی بیان ہوا ہے کہ بادشاہی میری ہے اور میں اپنے قانون کے مطابق کبھی ایک قوم کو دیتا ہوں کبھی دوسری قوم کو دیتا ہوں یہ کا م میں کرتا رہتا ہوں ، اس آیت کو ختم کیا ہے وترزق من تشاء بغیر حساب پریعنی اس کی بنیاد اصل میں اقتصادی حالات ہوتے ہیں اللہ تعالی بے حساب دولت دیتا ہے تو وہ اقتصادی طاقت بنتی ہے اور اقتصادی قوت والا
سپر پاور کا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں میں فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اس لیے اس طرح کے خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے ۔مسلمانوں کی اس وقت باون پچپن حکومتیں موجود ہیں دعا کیجیے وہ بہتر ہوں ، اپنی تعمیر کریں ، یہ جو بے مقصد مسائل میں الجھ کر مسلمان اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں اس سے باز آئیں ۔
ایک حکومت قائم کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے ۔آپ کویادہوگا کہ خلافت راشدہ کے صرف نوے سال بعد مسلمانوں کی دو حکومتیں قائم ہو گئی تھیں یعنی بغدادمیں عباسیوں اور اندلس میں امویوں کی حکومت، دونوں حکومتیں صدیوں تک Parallel کام کرتی رہی ہیں نہ کسی نے یہ کہا کہ ان کو ایک ہو جانا چاہیے اور نہ کسی نے ان کی حرمت کا فتوی دیا۔مسلمان آج بھی اندلس پر فخرکرتے ہیں۔بغداد بھی آپ کی تاریخ ہے اوراندلس بھی آپ کی تاریخ ہے ۔
یہ مسئلہ تو لوگوں نے اس زمانے میں پیدا کر دیا ہے کیونکہ اس زمانے میں بعض ایسے مذہبی رہنما پیدا ہو گئے ہیں جو نہ اصول عمرانیات سے واقف ہیں اور نہ تاریخی ارتقا سے، نہ ہی انہیں سماجی تبدیلیوں کے قانون سے واقفیت ہے اورنہ ہی تمدن کے ارتقا سے ، نہ قوموں کے عروج و زوال کافلسفہ ان کے علم میں ہے اور نہ اقتصادی حالات کے اثرات کا، وہ اصل میں مذہبی واعظ ہیں ۔ اس طرح کی خواہشوں کو وہ دین بنا کر بیان کر تے رہتے ہیں جب کہ یہ چیزیں اللہ کی کتاب سے بالاتر ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ 50 حکومتیں آپ کی پہلے ہی ہیں کوئی دس پندرہ اور بھی قائم کر لیں توکوئی خلاف شریعت نہیں ہو گا۔البتہ مسلمانوں کی ہر حکومت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ شریعت کوبالاتر مانے ، یہ ہی اصل بات ہے اسکے علاوہ کسی اور مطالبے یا امر پر اپنی توانائی ضائع کرنے کی ضرورت سرے سے موجود نہیں۔
(جاوید احمد غامدی)