جواب:پرائز بانڈ کی حقیقت کیا ہے۔اس کے طے ہونے پر اس کے جواز وعدم جواز کا فتوی موقوف ہے۔ پرائز بانڈ اصل میں حکومت کا عوام سے قرض لینا ہے۔ اس کے لیے حکومت دو طریقے اختیار کرتی ہے۔ ایک یہ کہ عوام کو طے شدہ منافع ادا کرتی ہے جیسے سیونگ سرٹیفکیٹ۔ دوسرے یہ کہ وہ کچھ لوگوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقوم دیتی ہے جیسے پرائز بانڈ۔ اس دوسرے طریقے میں سوال یہ ہے کہ انعام کی یہ رقم کہاں سے آتی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ وہی سود ہے جو سب افراد کو کسی شرح سے تقسیم کرنے کے بجائے چند افراد کو قرعہ اندازی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔اگر یہ بات د رست ہے تو ایک طرف تو انعام لینے والا اصل میں سود لے رہا ہے۔ دوسری طرف چونکہ یہ انعام قرعہ اندازی کے طریقے پر دیا جاتا ہے اس لیے اس میں جوئے سے ایک مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انعام کی رقم نئے پرائز بانڈ کے اجرا سے حاصل ہوتی ہے اس لیے یہ سود نہیں ہوتااور جوئے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ جوئے میں ایک آدمی کی رقم اس طرح دوسرے کی جیب میں جاتی ہے کہ ایک آدمی محض کسی اتفاق کے تحت اپنی رقم سے محروم اور دوسرا مالک بن جاتا ہے۔ جبکہ پرائز بانڈ میں ہر آدمی کی رقم پوری طرح محفوظ ہوتی ہے۔اگر صورت حال یہ دوسری ہے تو پرائز بانڈ کو ممنوع قرار دینا مشکل ہے زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پرائز بانڈ خریدنے اور لینے میں اتفاق سے روپیہ حاصل کرنے کی نفسیات کو تقویت ملتی ہے جو جوئے کی اصل ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ اصلاً ممنوع جوا اور سود لیناہے۔ اگر پرائز بانڈ میں ان میں کوئی چیز موجود ہے یا دونوں موجود ہیں تو یہ غلط ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:کپڑے کی جراب اور چمڑے کی جراب میں فرق کرنے کا سبب فقہا میں یہ رہا ہے کہ بعض فقہا کے نزدیک وہ روایت جس میں جربین پر مسح کا ذکر ہوا ہے اتنی قوی نہیں ہے یا ان تک وہ روایت نہیں پہنچی ہے۔ غالباً متاخرین میں دونوں کی ساخت کا فرق بھی اختلاف کا سبب بنا ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا گیا ہے کہ صرف انھی جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے جن میں نمی اندر نہ جا سکتی ہو۔ ہمارے نزدیک چمڑا ہو یا کپڑا مسح کی اجازت رخصت کے اصول پر مبنی ہے۔جرابوں کی ساخت کی نوعیت اس رخصت کا سبب نہیں ہے۔ رخصت کاسبب رفع زحمت ہے۔ جس اصول پر اللہ تعالی نے پانی کی عدم دستیابی یا بیماری کے باعث اس بات کی اجازت دی ہے کہ لوگ تیمم کر لیں اسی اصول پر قیاس کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کی حالت میں جرابیں پہنی ہوں تو پاؤں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اصول اگر رخصت یعنی رفع زحمت ہے تو اس شرط کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جرابیں چمڑے کی بنی ہوئی ہوں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: اہل حدیث حضرات کا نقطہ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے فہم پر مبنی ہے۔ بعض روایات میں اوتر بواحدۃ (ایک سے طاق کر لو)کے الفاظ آئے ہیں۔اگر اس کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ایک رکعت پڑھ لوجیسا کہ اہل حدیث حضرات نے سمجھا ہے تو ایک وتر پڑھنا حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کو طاق پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ کسی نماز کو طاق کرنے کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ دو کو تین کیا جائے۔ امام مالک نے یہی رائے دی ہے کہ یہ نماز کم از کم تین رکعت ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے ہے۔ عام مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت دینے کی وجہ سے اسے عشا کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ہمارے نزدیک ایک رکعت پڑھنا درست نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاوہ نہیں ہے جسے بعض لوگ نے اس جملے سے اخذ کیا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: یہ علوم کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکے کہ انھیں سائنس قرار دیا جا سکے۔ یہ محض اندازوں اور اٹکل پر مبنی ہیں اور ان کے پیچھے مشرک معاشروں کی مائتھالوجی کے اثرات کار فرما ہیں۔ کسی شے میں ماورائے اسباب تاثیر ماننا جبت ہے۔ غیب کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اس طرح کے علوم غیب دانی کے مدعی ہوتے ہیں۔ یہ بات قرآن مجید کی نصوص کے خلاف ہے۔ اصلاً یہ لوگ شیاطین کا آلہ کار بنتے ہیں۔ اس طرح کے علوم سے احتراز کرنا ہی محفوظ راستہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:تعویز اس دعوے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ اس دعوے کے پیچھے کوئی دینی دلیل موجود نہیں ہے۔ یعنی قرآن وحدیث میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ اللہ تعالی نے آیات وکلمات میں کوئی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں وہ اپنے مختلف تجربات بیان کرتے ہیں۔ لیکن ان تجربات کا کوئی غیر جانبدارانہ تجزیہ موجود نہیں ہے جس کی روشنی میں یہ طے ہو سکے کہ اس دعوے کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس فن کے لوگ موجود رہے ہیں لیکن نہ قدیم نہ جدید کسی معاشرے نے اس فن کو ایک قابل اعتماد تدبیر قرار نہیں دیا۔ مزید دیکھیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں دو ہی طریقے سکھائے ہیں۔ ایک یہ کہ عملی تدبیر کی جائے اور اللہ تعالی سے اس تدبیر کے کامیاب ہونے کی دعا کی جائے۔ کبھی کسی تعویز یا وظیفے وغیرہ کا طریقہ نہ سکھایا گیا ہے اور نہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کا معاشرہ ہمیں اس طرح کی چیزوں سے خالی ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذتین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرکے اپنے جسم پر پھونکا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے تعویز کا تصور نہیں نکالا جا سکتا اس لیے کہ تعویز کلمات کی تاثیر کے تصور پر مبنی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری نماز کے اجر کو بڑھانے والی چیز ہیں۔ اس میں کوتاہی نماز کے اجر کو کم کرنے والی چیز ہے۔ جس طرح کی مصروفیات آپ کو نماز باجماعت سے محروم کر دیتی ہیں انھی سے پیچھا چھڑا کر جماعت میں شریک ہونا وہ مجاہدہ ہے جو زیاہ اجر کا باعث ہے۔ اس لیے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انفرادی نماز قبول نہیں ہوتی۔ البتہ آدمی اجر کے ایک بڑے حصے سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز سے غفلت جو وبال کا باعث بنے گی یا نماز کی عدم قبولیت کی وجہ بن سکتی ہے وہ نماز کو بے وقت پڑھنا،نماز میں اہتمام اور خوبی کے پہلو کا نہ ہونا اور ان اخلاق کی عدم موجودگی ہے جو ایک نمازی میں ہونے چاہئیں۔سورہ ماعون میں یہی غفلت مراد ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:ہمارے نزدیک دن کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ چنانچہ کسی شے کے فرض ونفل ہونا اس بات پر منحصر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا حیثیت دی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:اس سوال میں غلطی یہ ہے کہ اس میں صرف قرآن کو دین کا ماخذ قرار دے کر نماز کے اوقات اور اس کی تعداد کو قرآن سے متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہمارے نزدیک نماز سرتاسر سنت سے ماخوذ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر بطور یاددہانی ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں نماز کے طریقے اور اوقات کے بارے میں وضو کی طرح کا کوئی جامع بیان موجود نہیں ہے ۔وضو کی مثال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کی تیاری کے طریقے میں تو تصریح کی ضرورت تھی لیکن نماز کا طریقہ اور اوقات اس طرح واضح تھے کہ قرآن مجید میں اس کی تصریح کی ضر ورت پیش نہیں آئی۔ باقی رہا دلوک شمس تو اس کا اطلاق ظہر عصر اور مغرب تینوں اوقات کے لیے ممکن ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے دلوک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘دلوک کے معنی زوال کے ہیں۔ سورج کے زوال کے تین درجے ہیں۔ ایک وہ جب وہ سمت راس سے ڈھلتا ہے۔ دوسرا جب وہ مر أی العین سے ڈھلتا ہے اور تیسرا جب وہ افق سے غائب ہو جاتا ہے۔ یہ تینوں اوقات ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کے ہیں۔’’(تدبر قرآن،ج ۴، ص۵۲۹)دلوک کے بعد غسق کا لفظ آیا ہے۔ غسق کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا اصلاحی مرحوم نے لکھا ہے:‘‘غسق اللیل اول شب کی تاریکی جبکہ وہ گاڑھی ہوجائے۔ یہ عشا کا وقت ہے۔’’(تدبر قرآن،ج ۴، ص۵۲۹)اس کے بعد اس آیت میں قرآن الفجر کے الفاظ آئے ہیں۔ اصلاحی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے اس سے فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی تصریحات سے واضح ہے کہ یہ نمازپڑھنے کا حکم ضرور ہے لیکن اس میں اوقات کا ذکر تعین کے لیے نہیں ہے بلکہ نمازوں کے اوقات کے صبح وشام کے اوقات میں پھیلے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان الفاظ سے نہ نمازوں کی تعداد معین ہو سکتی ہے اور نہ اوقات ہی معین صورت میں سامنے آتے ہیں۔ البتہ جو نماز سنت سے معلوم ومعروف ہے اس کے حوالے سے ان الفاظ کو دیکھیں تو یہ اس کا ایک اجمالی بیان ضرور ہیں۔یہی معاملہ سورہ ہود کے طرفی النہار اور انائے لیل کے الفاظ کا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:رکعتوں کی تعداد کا ماخذ سنت ہے۔ یہ تعداد ہر شک وشبہ سے بالا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت ہر زمانے میں رکعتوں کی اس تعداد پر متفق ہے اور اس بات میں شک کوئی شائبہ بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس نماز کی کتنی رکعتیں مقرر کی تھیں۔جب کسی دینی عمل کی کوئی شکل مقرر کر دی گئی ہو تو اس میں تبدیلی نافرمانی قرار پائے گی اور یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ لہذا خواہ رکعت کم کی جائے یا زیادہ نافرمانی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والے صحائف بائیبل کی صورت میں جمع ہیں۔لیکن یہ ریکارڈ زیادہ امکان یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل ہونے والے صحائف پر مبنی ہے۔یہ صحائف اصل صحائف کا ترجمہ ہیں اور اصل صحائف دنیا میں کہیں بھی فی الحال دستیاب نہیں ہیں۔حضرت موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر بلا کر احکام مٹی کی تختیوں پر لکھوائے گئے تھے۔ موجودہ تورات میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:‘‘خصوصاً اس دن کی باتیں جب تو خداوند اپنے خداکے حضور حورب میں کھڑا ہوا کیونکہ خداوند نے مجھ سے کہا تھاکہ قوم کو میرے حضور میں جمع کر اور میں ان کو اپنی باتیں سناؤں گاتاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں۔ چنانچہ تم نزدیک جا کر اس پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اور وہ پہاڑ آگ سے دہک رہا تھااور اس کی لو آسمان تک پہنچتی تھی اور گردا گرد تاریکی اور گھٹا اور ظلمت تھی۔ اور خدا وند نے اس آگ میں سے ہو کر تم سے کلام کیا۔ تم نے باتیں تو سنیں لیکن کوئی صور ت نہ دیکھی فقط آواز ہی آواز تھی۔ اس نے تم اپنے عہد کے دسوں احکام بتا کر ان کو ماننے کا حکم دیا اور انھیں پتھر کی دو لوحوں پر لکھ دیا۔(استثنا، باب۴، آیات۱۰۔۱۴)یہ تختیاں ٹوٹ گئی تھیں چنانچہ یہ احکام نئی تختیوں پر لکھ دیے گئے ۔ یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:‘‘اس وقت خداوند نے مجھ سے کہا کہ پہلی لوحوں کی مانند پتھر کی دو اور لوحیں تراش لے اور میرے پاس پہاڑ پر آجا اور ایک چوبی صندوق بھی بنالے اور جو باتیں پہلی لوحوں پر جن کو تو نے توڑ ڈالا لکھی تھیں وہی میں ان لوحوں پر بھی لکھ دوں گا۔پھر تو ان کو اس صندوق میں دھر دینا۔ سو میں نے کیکر کی لکڑی کا ایک صندوق بنایااور پہلی لوحوں کی مانند پتھر کی دو لوحیں تراش لیں اور ان دونوں لوحوں کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔اور جو دس حکم خداوند نے مجمع کے دن پہاڑ پر آگ کے بیچ میں سے تم کو دیے تھے۔ ان ہی کو پہلی تحریر کے مطابق اس نے ان لوحوں پر لکھ دیا۔ پھر ان کو خداوند نے میرے سپرد کیا۔ تب میں پہاڑ سے لوٹ کر نیچے آیااور ان لوحوں کو اس صندوق میں جو میں نے بنایا تھا دھر دیا اور خداوند کے حکم کے مطابق جو اس نے مجھے دیا تھا وہیں رکھی ہوئی ہیں۔(استثنا، باب۱۰، آیات۱۔۶)یہ تورات کے بیانات ہیں۔ بعد میں یہ صندوق اور اس کی لوحیں اور دوسرے تبرکات میرے علم کی حد تک دستبرد زمانہ کی نذر ہو چکے ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:قرآن مجید کی سورہ یونس میں فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیۃ، وان کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون(۱۰:۹۲)پس آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں۔اس آیت کی شرح میں مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:‘‘قدرت کے انتقام کی اس عظیم نشانی کے اندر ایک دوسری عظیم نشانی یہ ظاہر ہوئی کہ فرعون کی لاش کو سمندر نے قبول نہیں کیاـــبلکہ اس کو ایک نشان عبرت بنانے کے لیے باہر پھینک دیا اور یہ لاش بعد لوگوں کو ملی بھی اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو خدائی کا مدعی تھا اس کا انجام کیا ہواـــمصرمیں لاشوں کو ممی کرکے محفوظ کرنے کا رواج تھااور ایک فرعون کی ممی کی ہوئی لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ اس لاش کے بارے میں اثریات کے ماہرین چاہے اختلاف کریں کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے یا کسی اور کی۔ لیکن ان کے اٹکل پچو اندازوں کے مقابل میں قرآن کا یہ چودہ سو سال پہلے کا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اس طرح قدرت نے اس کی لاش کو عبرت کی ایک ایسی نشانی بنا دیا جو آج کے فرعونوں کے لیے بھی محفوظ ہے لیکن دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہے اور اس دنیا میں عبرت پذیر آنکھوں سے زیادہ کم یاب کوئی شے بھی نہیں۔ وانا کثیرا من الناس عن آیاتنا لغافلون میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔’’(تدبر قرآن ج۴،ص۸۴۔۸۵) مولانا وحید الدین خان نے بھی کم وبیش یہی بات لکھی ہے:‘‘خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے ، اس کا نمونہ دور رسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدا نے مستقل طور پر محفوظ کر دیے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانہ میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جبکہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو۔ انھی میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعون موسی (رعمیس ثانی)کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس(Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہر کے میوزیم میں نمایش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔’’ (تذکیر القرآن،ج۱،ص۵۵۵)
‘‘موجودہ زمانے میں فرعون کی لاش کا معمہ سائنس نے بھی حل کر دیا ہے ۔ اسی کی دہائی میں اسی لاش کو جو قاہرہ کے عجائب گھر میں ہے کے گلے میں پھپھوندی لگ گئی اس کو علاج کے لیے فرانس بھیجا گیا۔ ڈاکٹروں نے رپورٹ میں لکھا کہ اس کے گلے سے دریا کی مٹی نکلی ہے ۔ اخبارات میں یہ رپورٹ محفوظ ہے ۔ ادارہ سوئے حرم ’’
(مولانا طالب محسن)
جواب:قرآن مجید سے یہ مقدمہ بالصراحت ثابت ہے کہ تمام نسل انسانی ایک ہی جوڑے کی اولاد ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی اولاد میں شادیاں کیسے ہوئیں اور نسل انسانی کیسے آگے بڑھی۔ اس معاملے میـں قرآن مجیدمیں کوئی بات بیان نہیں ہوئی اور کسی آیت سے کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ یہی معاملہ حدیث کی معروف ومتداول کتابوں کا ہے۔ مجھے ان کتابوں میں کوئی ایسی روایت نہیں ملی جس میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہو۔ میرا یہ خیال ہے کہ یہ خیال قیاس پر مبنی ہے کہ حضرت آدم کی اولاد میں بہن بھائیوں کی شادی کی گئی ہوگی۔ یہ قیاس درست ہی معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس مسئلے کا کوئی دوسرا حل اولاد آدم کے ایک ہی نسل ہونے کی نفی کر دیتا ہے۔ میرے علم کی حدتک بائیبل میں بھی اس حوالے سے کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ قیاسی ہے اس معاملے میں کوئی مذہبی بیانات اگر موجود ہیں تو وہ اسی قیاس سے نکلے ہیں۔باقی رہا اولاد آدم کا ایک ہی دن میں جوان ہونا تو اس کے متعلق بھی مجھے کوئی بیان فی الحال نہیں ملا ۔ ممکن ہے دوران مطالعہ اس طرح کی کوئی بات سامنے آجائے۔ فی الحال میں اس معاملے میں آپ کی کوئی خدمت کرنے سے قاصر ہوں۔
اولادآدم کی شادی کا مسئلہ محرمات نکاح کے حوالے سے سوال پیدا کرتا ہے۔اس کے کئی جواب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ بہن کی حرمت فطری حرمت نہیں ہے۔ فطری حرمت صرف ماں کی ہے۔ بہن کی حرمت خاندانی نظام کے سامنے آجانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ پہلی نسل کے لیے بہن کی حرمت اٹھا لی گئی ہووغیرہ۔ لیکن ہمیں اس قیاس آرائی کی ضرورت ہی کیوں ہے۔ ہمارے پاس اس دور کی تاریخ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں خاموش ہے۔ جس معاملے میں قرآن خاموش ہے اس میں ہمارا کوئی کلام بے معنی ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ معاملہ ہے جس کا علم صرف وحی ہی سے ممکن ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:اس میں شبہ نہیں کہ کاغذ بہت پہلے ایجاد ہو چکا تھا اور عربوں میں اس کے استعمال کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب میں بآسانی دستیاب نہیں تھا۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ عربوں لکھنا جاننے والے لوگ بہت کم تھے۔چنانچہ جو لوگ لکھنا چاہتے تھے وہ اپنے ماحول میں دستیاب اشیاء ہی پر لکھنے پر مجبور تھے۔ خلافت راشدہ میں پورا قرآن مجید کاغذ پر لکھنے کا کام بھی کر دیا گیا تھا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:نماز کے آخر میں غلطی ہونے پر دو سجدے کیے جاتے ہیں۔ غلطی ایک ہو یا زیادہ سجدہ سہو کا طریقہ یہی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب:دجال کی خبر حدیثوں میں بیان ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اور قرب قیامت کے حوالے سے کئی پیشین گوئیاں کی تھیں۔ دجال کے بارے میں خبر بھی اسی ذیل کی ہے۔ اس طرح کی کسی حدیث کے بارے میں یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ لیکن جب تحقیق سے ہم کسی روایت کو درست مان لیں تو پھر اس کے انکار کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ پیغمبر کو پیغمبر ماننے کے بعد اس کی مستقبل سے متعلق اخبار کو نہ ماننا نبی پر ایمان سے موافق نہیں ہے۔ کتب حدیث میں دجال سے متعلق صحیح احادیث بھی ہیں اس لیے دجال کے آنے کی خبر پر یقین ہونا چاہیے۔روایات کے مطابق یہ خاص صلاحیتوں کا حامل ایک فرد ہو گا جو قیامت کے قریب ظاہر ہو گا۔دجال کا خروج اخبار نبی کا حصہ ہے اور اسے اسی حیثیت سے مانا جاتا ہے۔
(مولانا طالب محسن)