جواب:قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والے صحائف بائیبل کی صورت میں جمع ہیں۔لیکن یہ ریکارڈ زیادہ امکان یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل ہونے والے صحائف پر مبنی ہے۔یہ صحائف اصل صحائف کا ترجمہ ہیں اور اصل صحائف دنیا میں کہیں بھی فی الحال دستیاب نہیں ہیں۔حضرت موسی علیہ السلام کو کوہ طور پر بلا کر احکام مٹی کی تختیوں پر لکھوائے گئے تھے۔ موجودہ تورات میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:‘‘خصوصاً اس دن کی باتیں جب تو خداوند اپنے خداکے حضور حورب میں کھڑا ہوا کیونکہ خداوند نے مجھ سے کہا تھاکہ قوم کو میرے حضور میں جمع کر اور میں ان کو اپنی باتیں سناؤں گاتاکہ وہ یہ سیکھیں کہ زندگی بھر جب تک زمین پر جیتے رہیں میرا خوف مانیں اور اپنے بال بچوں کو بھی یہی سکھائیں۔ چنانچہ تم نزدیک جا کر اس پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوئے اور وہ پہاڑ آگ سے دہک رہا تھااور اس کی لو آسمان تک پہنچتی تھی اور گردا گرد تاریکی اور گھٹا اور ظلمت تھی۔ اور خدا وند نے اس آگ میں سے ہو کر تم سے کلام کیا۔ تم نے باتیں تو سنیں لیکن کوئی صور ت نہ دیکھی فقط آواز ہی آواز تھی۔ اس نے تم اپنے عہد کے دسوں احکام بتا کر ان کو ماننے کا حکم دیا اور انھیں پتھر کی دو لوحوں پر لکھ دیا۔(استثنا، باب۴، آیات۱۰۔۱۴)یہ تختیاں ٹوٹ گئی تھیں چنانچہ یہ احکام نئی تختیوں پر لکھ دیے گئے ۔ یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:‘‘اس وقت خداوند نے مجھ سے کہا کہ پہلی لوحوں کی مانند پتھر کی دو اور لوحیں تراش لے اور میرے پاس پہاڑ پر آجا اور ایک چوبی صندوق بھی بنالے اور جو باتیں پہلی لوحوں پر جن کو تو نے توڑ ڈالا لکھی تھیں وہی میں ان لوحوں پر بھی لکھ دوں گا۔پھر تو ان کو اس صندوق میں دھر دینا۔ سو میں نے کیکر کی لکڑی کا ایک صندوق بنایااور پہلی لوحوں کی مانند پتھر کی دو لوحیں تراش لیں اور ان دونوں لوحوں کو اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گیا۔اور جو دس حکم خداوند نے مجمع کے دن پہاڑ پر آگ کے بیچ میں سے تم کو دیے تھے۔ ان ہی کو پہلی تحریر کے مطابق اس نے ان لوحوں پر لکھ دیا۔ پھر ان کو خداوند نے میرے سپرد کیا۔ تب میں پہاڑ سے لوٹ کر نیچے آیااور ان لوحوں کو اس صندوق میں جو میں نے بنایا تھا دھر دیا اور خداوند کے حکم کے مطابق جو اس نے مجھے دیا تھا وہیں رکھی ہوئی ہیں۔(استثنا، باب۱۰، آیات۱۔۶)یہ تورات کے بیانات ہیں۔ بعد میں یہ صندوق اور اس کی لوحیں اور دوسرے تبرکات میرے علم کی حد تک دستبرد زمانہ کی نذر ہو چکے ہیں۔
(مولانا طالب محسن)