نظم


مضامین

  کھڑی ہے سر پہ فوج فیل یارو ہے لازم بارش سجیل یارو   سبھی فرعون اس میں ڈوب جاتے  اگر یہ سندھ ہوتا نیل یارو   کہ شاید پتلیاں خود جاگ اٹھیں مداری دے رہا ہے ڈھیل یارو   میں رستے کے سبھی پتھروں کو سمجھتا آیا سنگ میل ی...


  لفظ  و معنی کے درمیان میں ہوں پھر بھی صدیوں سے داستان میں ہوں   میرا سایہ زمیں پر رینگتا ہے روز اول سے میں اڑان میں ہوں   میں نے رہنا ہے اک بشر اور میں دو فرشتوں کے درمیان میں ہوں   میری ہستی میرے فریب میں ہے  او...


  کبھی جو چھڑ گئی یاد رفتگاں محسن بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن   ہوا نے راکھ اڑائی تو دل کو یاد آیا کہ جل بجھیں مرے خوابوں کی بستیاں محسن   کچھ ایسے گھر بھی ملے جن میں گھونگٹوں عوض ہوئی ہیں دفن دوپٹوں میں لڑکیاں محسن ...


  یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں   تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں   دور تک کوئی ستارہ ہے نہ جگنو کوئی مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں   میرے...


  ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے   تری بانکی چتون نے چْن چْن کے مارے نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے   نہ گْل ہیں نہ غْنچے نہ بْوٹے نہ پتّے ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے    یہاں درد سے ہاتھ سینے پ...


  دوشِ نبی کے شاہ سواروں کی بات کر کون ومکان کے راج دلاروں کی بات کر   جن کے نفس نفس میں تھے قرآن کھلے ہوئے ان کربلا کے سینہ فگاروں کی بات کر ٭٭٭ لایا جو خون رنگ دگر کربلا کے بعد اونچا ہوا حسین کا سر کربلا کے بعد   ٹو...


  اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول تڑپی ہے تجھ پہ لاش جگر گوشہ بتول   اسلام کے لہو سے تری پیاس بجھ گئی سیراب کر گیا تجھے خونِ رگِ رسول   کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول   چڑھ جائے کٹ کے سر...


دوسالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں پچھلے سال بھی ایسی ہی اک سرد دسمبر کی شب تھی جب دو سالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا تھا سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی ماہ وسال کے پنکھ لگا کر اپنی ایک مخصوص ڈگر پر اڑتا ہے دو سالوں کے س...


  گھر سے چلے تو راہ میں کوئی شجر نہ ہو دشوار اس قدر بھی کسی کا سفر نہ ہو   جائیں گے کس کے در پر تیرے بعد اے چراغ تیرے وجود سے بھی اجالا اگر نہ ہو   احسان بھی کرو تو بڑی خوش دلی کے ساتھ خیرات بھی جو دو تو کسی کو خبر نہ ہو ...


ابھی سوتے رہو بھائی ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟ ابھی بے روزگاری نے  تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے تمہارے بچے کی بوتل میں اب تک دودھ باقی ہے  تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے  تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے ابھی سوتے رہو بھا...


  خواب ذرا سا رہ جاتا ہے  ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے   آ کے موج گزر جاتی ہے  ساحل پیاسا رہ جاتا ہے    جب رسوائی ہو جاتی ہے  کون شناسا رہ جاتا ہے    ہجر کا درد دلوں میں اکثر اچھا خاصا رہ جاتا ہے    چھن جاتی ہے د...


  نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی   عجب طرح رخ آیندگی کا رنگ اڑا دیار ذات میں ازخود گزشتگی ہی رہی   حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو حریم شوق میں بس کمی ہی رہی   پس نگاہ ...