ابھی کچھ دیر باقی ہے

مصنف : شکیل جعفری

سلسلہ : نظم

شمارہ : فروری 2011

ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
ابھی بے روزگاری نے 
تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے
تمہارے بچے کی بوتل میں اب تک دودھ باقی ہے 
تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے 
تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہار ا کچھ نہیں بگڑا
تمہاری والدہ ہیں محترم اب بھی
کہ ان کی کو ئی شب اب تک نہیں گزری ہے تھانے میں
تمہاری بہن کو اب تک کوئی‘ کاری’ نہیں کہتا
شریک زندگی کے کھلتے چہرے پر کسی ظالم نے کب تیزاب پھینکا ہے ؟
نہ دختر نیک اختر نے ابھی تک اجتماعی زیادتی کا کرب جھیلا ہے 
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
بتاؤ کیا کبھی لخت جگر اغوا ہو اہے ؟
اور کبھی تم سے کسی نے آج تک تاوان مانگا ہے ؟
دھماکے ہوتے رہتے ہیں مگر اب تک
تمہارا بھائی مسجدسے بخیر و عافیت گھر کو پہنچتا ہے 
بھتیجا اب بھی گلیوں میں کرکٹ کھیلتا ہے 
اور ابھی تک تو کسی نے بھی اسے الٹا نہیں ٹانگا
نہ اس کی لاش گلیوں میں گھسیٹی ہے 
ابھی سوتے رہو بھائی
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
ابھی اس ظلم کے عفریت میں اور تم میں
تھوڑا فاصلہ ہے 
اور ابھی تم تک پہنچنے میں 
اسے کچھ وقت لگ جائے گا
تم سوتے رہو بھائی
ابھی کچھ دیر باقی ہے