نظم


مضامین

  میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں   کوئی غْنچہ ہو کہ گْل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں   کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر وہی خِ...


  قسمت میں ہے افتادگی، شکوہ کسی کا کیا کروں کیوں میں کسی کا نام لوں، کیوں ہوں کسی سے بدگماں   دلدادہ اْلفت ہوں میں، راضی ہوں میں ہر حال میں اْس کی رضا سے شاد ہوں، اْس کی خوشی سے شادماں   دو دن کا ہے یہ رنج و غم، دو دن کی ہے یہ...


  تو نے جس وقت یہ انساں بنایا یارب  اس گھڑی مجھ کو تو اک آنکھ نہ بھایا یارب    اس لیے میں نے اپنا سر نہ جھکایا یارب  لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یارب    عقلمندی اسی میں ہے کہ میں توبہ کر لوں!  سوچتا ہوں اب اس انساں کو ...


  سلسلے توڑ گیا وہ سبھی آتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا  اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے   اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا  تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے


  لوگ یوں بھی اعتراف جرم کرتے رہے  آئینوں کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے    رات کی قسمت ضمیر اس کا منور ہو نہ ہو  فرض اپنا چاند تارے تو بجا لاتے رہے    اُن کی جانیں دستکش ان کی حمایت سے ہوئیں  رہروانِ شوق پر ایسے بھی وقت آتے ر...


  نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں  چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے    جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے  نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے    ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد  کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ ...


  ٭موٹی بیوی کمزور شوہر سے  اے میاں کہیں لے چلو  کوئی سیر ہو کوئی لطف ہو  کچھ بدن میرا چست ہو  کچھ جان میں جان آئے  کچھ کھائیں چل کے شام کو  چلو چھوڑو اب سب کام کو    ٭کمزور شوہر کا جواب  تجھے منڈی لے کے جاؤں گا  ت...


  ٭ ہم لوگ نہ تھے ایسے  ٭ ہیں جیسے نظر آتے  ٭ اے وقت گواہی دے  ٭ ہم لوگ نہ تھے ایسے  ٭ یہ شہر نہ تھا ایسا  ٭ یہ روگ نہ تھے ایسے  ٭ دیوار نہ تھے رستے  ٭ زندان نہ تھی بستی  ٭ آزار نہ تھے رشتے  ٭ خلجان نہ تھی ہستی  ٭ ...


  ایسا کیوں ہوتا ہے ؟  ہجر کا موسم لوٹ آتا ہے  خزاں رتوں کی ویرانی در آتی ہے  اور سانسوں میں اضطراب بھر جاتا ہے  ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ جب ملن کے لمحات ابدی لگنے لگتے ہیں  جب دل میں پھول کھلنے لگتے ہیں   جب رفاقتوں سے شامیں مہ...


  کبھی وہ دن بھی ہوتے تھے  سکوں سے ہم بھی سوتے تھے  بہاریں مسکراتی تھیں  وفا کے گیت گاتی تھیں  وہ چشمے گنگناتے تھے  پپیہے چہچہاتے تھے  یہ خطہ تھا حسیں ایسا  کسی ایک نازنین جیسا  نگاہیں دیکھتی رہتیں  مگر کچھ سوچتی رہتی...


آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم  دیدہ دل کی بے انت شاہی میں ہم  زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم  اپنے خوابوں ، خیالوں کی جاگیر کو  فکر کے موقلم سے تراشی ہوئی  اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو  اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو ، اپنی تقدیر کو  یوں سنبھا...


  بیٹی: ٭ مجھے اتنا پیار نہ دو بابا ٭ کل جانا مجھے نصیب نہ ہو  ٭ یہ جو ماتھا چوما کرتے ہو  ٭ کل اس پر شکن عجیب نہ ہو  ٭ میں جب بھی روتی ہوں بابا  ٭ تم آنسو پونچھا کرتے ہو  ٭ مجھے اتنی دور چھوڑ نہ آنا  ٭ میں روؤں اور تم ق...