خواب ذرا سا رہ جاتا ہے 

مصنف : کرامت بخاری

سلسلہ : نظم

شمارہ : مارچ 2011

 

خواب ذرا سا رہ جاتا ہے 
ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے
 
آ کے موج گزر جاتی ہے 
ساحل پیاسا رہ جاتا ہے 
 
جب رسوائی ہو جاتی ہے 
کون شناسا رہ جاتا ہے 
 
ہجر کا درد دلوں میں اکثر
اچھا خاصا رہ جاتا ہے 
 
چھن جاتی ہے دولت دنیا
علم اثاثہ رہ جاتا ہے 
 
بربادی کے بعد ہمیشہ
ایک دلاسہ رہ جاتا ہے