کرونا اب چلے جاؤ

مصنف : فرحین چودھری

سلسلہ : نظم

شمارہ : دسمبر 2021

نظم : کرونا اب چلے جاؤ 
کرو نا اب چلے جائو
اجاڑ ی بستیاں تم نے
ہوا وٗں کو رلایا ہے
کیا ہے زیر انساں کو 
خدائی کا گماں
دل میں لئے ۔۔۔
خدا کو بھول بیٹھا تھا
مقام اپنا گنوا بیٹھا
دلایا یاد اب تم نے کہ
فانی ہے جہاں سارا
ہے سارا کھیل سانسوں کا ۔ ۔
مداری کا تماشا ہے یہی دو چار پل اپنے
ہوا ئوں میں اڑے جتنا مگر
 خاکی تو خاکی ہے
کرو نا تم بھی آئے ہو
اسی یزداں کے کہنے پر 
جسے ہم سب بھلا بیٹھے
 ہمیں بھیجا گیا تھا کیوں ۔
ہمیں کس سمت جانا تھا
!کوئی وعدہ نبھانا تھا
ذرا ناراض ہے ہم سے 
جھنجھوڑا ہے ہمیں اس نے
دلائے یاد ہیں وعدے
کرو نا شکریہ تیرا
بہت کچھ یاد آیا ہے
کوئی محبوس ہوتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے
جو پھیلیں موت کے سائے
یا جیون لاک ڈائون ہو
ہر اک رستے پہ جب 
خوف کا آسیب پھرتا ہو
جسے ناموں اور نسلوں کی کوئی پہچان ہی نہ ہو
تو دل پر کیا گزرتی ہے ؟
بہت نادم ہے شاید اب یہ نائب
گڑگڑاتا ہے
ہے سجدہ ریز اےخالق ۔ !!
تیری مخلوق ہے ساری
یہ ناداں بے وقوف انساں 
تیری شفقت تیری طاقت کے آگے
 پیچ ہیں سارے
مگر اس موت کئ چادر تلے 
ہر روز کتنے پھول کھلتے ہیں
نئی قلقاریاں آواز دیتی ہیں
فضائوں میں رچی خوشبو 
یہ نیلا آسماں پیغام دیتے ہیں
وہ جلدی مان جائے گا
ذرا سا امتحاں لے کروہ جلدی مان جائے گا
فرحین چودھری
خدائے ہر جہاں
یہ زندگی اب اور کتنی سستی ہونی ہے
جسے اَن دیکھا اک دشمن
تری دنیا کے ہر کونے میں
جب چاہے، جہاں چاہے
وزیروں اور امیروں سے غریبوں تک
جسے چاہے
کہیں بھی چلتے پھرتے،اپنی اک بے لمس مٹھی میں جکڑ کر مار دیتا ہے
خدائے ہر جہاں
ہم بے خبر تھے تجھ سے بھی اور خود سے بھی
لیکن
یہ پچھلے کچھ مہینوں سے کرونا وائرس نے
ہاتھ دھونے، صاف ستھرے رہنے
تجھ کو یاد کرنے، گناہوں اور برے کاموں سے بچنے کی
جو عادت ہم نے ڈالی ہے
ہمیشہ یاد رکھیں گے
بھُلا بیٹھے تھے ہم اس دنیا داری میں
مگر اب یاد رکھیں گے "صفائی نصف ایماں ہے"
ایوب خاور

 چراغِ منزل ۔۔۔۔۔۔۔
تھا عجب عا لمِ دلِ سر شار ۔۔۔۔۔
جب ہوا تھا یہ کا روان ۔۔۔ رواں
خواب تھے کیسے کیسے آنکھوں میں
ذہن میں موجزن تھے کیا ارماں ۔۔۔۔!
زندگی میں بہار آئے گی ۔۔۔
نام کو بھی نہیں ملے گی خزاں
مدتیں ہو گیٔیں ۔۔۔ سفر کر تے
نہ وہ منزل نہ کویٔ اس کا نشاں
ہیں اجا لے کہاں ؟ کہاں ہے مہر؟
اب بھی تا ریکیاں ہیں رقص کناں ۔۔۔۔۔۔
جی میں آتا ہے ، ترک ہی کردیں
سعیِ بے کار ، کا و شِ بے جاں ۔۔۔!!
لیکن ۔۔۔۔ اے قلبِ مضطرب ۔۔۔۔ رکنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور ۔۔۔۔۔۔ اک روشنی سی ہے لر زاں
ہو نہ ہو ، یہ چراغ منزل ہے
جہدِ صبح و مسا کا حاصل ہے ۔

ضیا الدین نعیم