نظم


مضامین

  بے نْور ہوں کہ شمعِ سرِ راہ گزر میں ہوں بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں   اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں بہرہ ہوں یوں کہ قصہ نا معتبر میں ہوں   ذرّے جوان ہو کے اْفق تک پہنچ گئے میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر...


نہیں! یہ میرا چاند نہیں اتنا دھندلا اتنا ماند میرا چاند؟ نہیں یہ میرا چاند نہیں یہ تو کوئی پیتل کی تھالی کسی نے یونہی کر کے خالی دیواروں کے پار اچھالی نہیں !یہ میرا چاند نہیں اگر یہ میرا چاند ہے تو پھر شہر کی راتو! اس میں چرخہ کاتنے وا...


  جس چھتے کو توڑ رہے ہو اس میں شہد کی مکھی نے صحرا صحرا جنگل جنگل پھر کر شہد بنایا ہے   کل تک اس نے وہم کہا تھا خوابوں کی ماہیت کو آج وہ مجھ سے خوابوں کی تعبیریں پوچھنے آیا ہے   دھوپ اتری تھی آنگن میں اور دیواروں پر سایا تھا ...


اے شہر علم و عالمِ اسرارِ خشک و تر تو بادشاہِ دیں ہے۔۔ تو سلطانِ بحر و بر ادراک و آگہی کی ضمانت ترا کرم۔۔! ایقان و اعتقاد کا حاصل تری نظر تیرے حروف نطقِ الٰہی کا معجزہ! تیری حدیث سچ سے زیادہ ہے معتبر قرآں تری کتاب، شریعت ترا لباس...


  حریمِ جاں میں بھٹک رہا ہوں میں قافلے سے بچھڑ گیا ہوں   دْھواں ہوں جلتے ہوئے مکاں کا فضا میں تحلیل ہو رہا ہوں   تْو میری خوشیوں سے بے خبر ہے میں تیرے دْکھ سے بھی آشنا ہوں   سماعتیں جن کی مر چکی ہیں میں اْن کو آواز...


بھاویں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچی کھوئے تسی وی او، کھوئے اسی وی آں ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا ہوئے تسی وی او ،ہوئے اسی وی آں کجھ امید اے زندگی مل جائے گی موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں جیوندی جاں ای، موت دے منہ اندر ڈھوئے ت...


  مری چشم تن آساں کو بسیرت مل گئی جب سے بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی   کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے مگر دِل ہے کہ اس کی خانہ ِویرانی نہیں جاتی   کئی بار اسکی خاطر ذرّے ذرّے کا جگر چیرا مگر یہ چشم حیر...


  رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ   اب کی فصلِ بہار سے پہلے رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ   کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ   دل ترے بعد سو گیا ورنہ شور تھا...


  عصر حاضر ملک الموت ہے ، تیرا جس نے  قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش    دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا  زندگی موت ہے کھو دیتی ہے جب ذوقِ خراش    اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا  جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ ت...


  جنرل ضیا الحق نے بزورِ شمشیر ملکی نظامِ سیاست و حکومت کو اسلامیانے کی کوششیں شروع کیں تو  مظفر وارثی نے کہا کہ   ظلمت کو گھٹا کہنے سے خطرہ نہیں جاتا دیوار سے طوفان کو روکا نہیں جاتا   فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں آتے ت...


  اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟  ہر طرف خلق نے کیوں مچا رکھا ہے؟    روشنی دن کی وہی، تاروں بھروں رات وہی  آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی    آسماں بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں  ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں...


  میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا  اُس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا    دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے  جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا    کیا خوب ہیں ہماری ترقی پسندیاں  زینے بنا لیے کوئی اوپر نہیں گیا  ...