نظم


مضامین

  بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر شیرازہ ملت ہوں ، بکھر جاتا ہوں اکثر   میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر طوفان کے سینے میں اْتر جاتا ہوں اکثر   میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں ا...


  دوستوں کے نام یاد آنے لگے تلخ و شیریں جام یاد آنے لگے   وقت جوں جوں رائگاں ہوتا گیا زندگی کو کام یاد آنے لگے   خوبصورت تہمتیں چبھنے لگیں دل نشیں الزام یاد آنے لگے   پھر خیال آتے ہی شام ہجر کا مرمریں اجسام یاد آنے...


  اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں   تو بھی ہیرے سے بن گیا تھا پتھر ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں   تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں   ہم بھی مجبوریوں کا عذر...


  میں کیا ہوں معلوم نہیں میں قاسم مقسوم نہیں   میں تسلیم کا پیکر ہوں میں حاکم محکوم نہیں   میں نے ظلم سہے لیکن میں پھر بھی مظلوم نہیں   تیری رحمت چھوڑے کون توبہ میں معصوم نہیں   میرے تبریزی انداز میں مولائ...


  میکدہ تھا ، چاندنی تھی ، میں نہ تھا اک مجسم بے خودی تھی ، میں نہ تھا   عشق جب دم توڑتا تھا ، وہ نہ تھے موت جب سر دھن رہی تھی ، میں نہ تھا   طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو وہ میری دیوانگی تھی ، میں نہ تھا   جس نے مہ پا...


  اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو   اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟ ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو   تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟   کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟   میں دریا...


  خزاں چمن سے چلی بھی گئی تو کیا ہو گا؟  پھر اک فریبِ بہاراں کا سلسلہ ہو گا    تجھے خبر ہے نسیمِ بہار کیا ہو گا؟ گلوں کی آگ میں کل باغ جل رہا ہو گا   ابھی شروعِ سفر ہے ابھی کہاں منزل!  نگاہِ شوق نے دھوکا کوئی دیا ہو گا  ...


  محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں! بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اْداس کتنی تھیں!   فلک سے جن میں اْترتے ہیں قافلے غم کے مری طرح وہ شبیں اْس کو راس کتنی تھیں   غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ہیں وہ ہستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟ ...


  جو ہر دَم سْکھ میں رہتے ہوں وہ دکھ کی مار کو کیا جانیں   نرم صوفوں پر دھنسنے والے تختوں کی سختی کیا جانیں   جو سوتے ہیں سیجوں پر وہ بانوں کی چبھن کو کیا جانیں   جو عادی ہوئے سائے کے وہ تپتی دوپہریں کیا جانیں  ...


  کتنے کم طرف تھے رحمت بھی نہ سنبھلی ہم سے پوچھتی رہتی ہے ڈوبی ہوئی دھرتی ہم سے   بن بتائے ہی چلا آیا ہے گھر پر ملنے جان پہچان ہے دریا کی پرانی ہم سے   جب میسر تھی سرِ عام چھلکنے دی تھی پھر گریزاں ہی رہے جام و صراحی ہم سے ...


  ماں شہر بنے جنگل میرے کہیں قتل ھوئے کہیں آگ لگی    اور بہت سی مائیں روتی ہیں میں چیخ چیخ کر روتا ہوں    ماں آؤ کبھی ان قبروں سے سینے پر رکھ دوہاتھ میرے    ماتھے پہ میرے اک بوسہ دو اور ساتھ ہی اپنے دفنا دو   ...


  لوگوں مجھے سلام کرو، میں وزیر ہوں گردن کے ساتھ خود بھی جھکو، میں وزیر ہوں   گردن میں ہار ڈال دو میں جْھک سکوں اگر نعرے بھی کچھ بلند کرو، میں وزیر ہوں   تم ہاتھوں ہاتھ لو مجھے دورہ پر آؤں جب موٹر کے ساتھ ساتھ چلو، میں وزیر...