کیا جانیں

مصنف : عالم آرا

سلسلہ : نظم

شمارہ : جون 2012

 

جو ہر دَم سْکھ میں رہتے ہوں
وہ دکھ کی مار کو کیا جانیں
 
نرم صوفوں پر دھنسنے والے
تختوں کی سختی کیا جانیں
 
جو سوتے ہیں سیجوں پر وہ
بانوں کی چبھن کو کیا جانیں
 
جو عادی ہوئے سائے کے وہ
تپتی دوپہریں کیا جانیں
 
جو چلتے ہوں قالینوں پر
پاؤں کے چھالے کیا جانیں
 
جو سْکھ کی نیندیں سوتے ہوں
خوابوں کی اذیت کیا جانیں
 
جن کے ہاتھوں میں پھول ہی پھول
کانٹوں کی چبھن کو کیا جانیں
 
ہنستے بستے گھر ہوں جن کے
وہ سوُنے آنگن کیا جانیں
 
جن کے رشتے ساتھ ہیں اْن کے
وہ تنہائی کا غم کیا جانیں
 
اونچے گھر میں رہنے والے
جھگی کے دکھ کو کیا جانیں
 
جو سیر ہوں لب ہر شربت سے
وہ کانٹے حلق کے کیا جانیں
 
جو پیٹ بھرے ہوں وہ اْمراء 
 بھوک کی آگ کو کیا جانیں
 
جِن کے تنوں پر پوشاکیں ہوں
وہ ننگے تنوں کو کیا جانیں
 
ہوں جن کے کاروبار رواں
ہڑتال کے دکھ کو کیا جانیں
 
جو بنے ہمارے امیں بھی ہیں
وہ بارِ امانت کیا جانیں
 
بس نعرہ یہ ہے جینے دو
ہم سیاسی چالیں کیا جانیں
 
جب آگ بھری ہو ذہنوں میں
ہوتی ہے محبت کیا جانیں
 
حاکم بن کر ُلوٹنے والے
غریب کے دکھ کو کیا جانیں
 
میری تو بس ہے یہ ہی دعا
آنکھیں کھولیں خود کو جانیں
 
عالم آرا شاید تم کو !
پاگل سمجھیں پاگل جانیں