گھر سے چلے تو راہ میں کوئی شجر نہ ہو

مصنف : حامد علی سید

سلسلہ : نظم

شمارہ : جنوری 2011

 

گھر سے چلے تو راہ میں کوئی شجر نہ ہو
دشوار اس قدر بھی کسی کا سفر نہ ہو
 
جائیں گے کس کے در پر تیرے بعد اے چراغ
تیرے وجود سے بھی اجالا اگر نہ ہو
 
احسان بھی کرو تو بڑی خوش دلی کے ساتھ
خیرات بھی جو دو تو کسی کو خبر نہ ہو
 
گر فیصلہ سنائے تو اپنا لکھا ہوا
منصف کہ بادشاہ کے زیر اثر نہ ہو
 
رکھتا ہے جو خیال میرا چاہتا ہے یہ
کوئی بھی چیز میری ادھر سے اُدھر نہ ہو