ج: نبی سے منسوب اشیا کے بارے میں امت کے دل میں تعظیم اور محبت کے جذبات کا ہونا بالکل ایک فطری امر ہے۔ لیکن خواہ مخواہ کسی چیز کو نبی سے منسوب کر دینا ایسا ہی ہے ، جیسے اس چیز کا خواہ مخواہ انکار کر دینا ، جو آپؐ سے ٹھوس ثبوت کے ساتھ منسوب ہو ۔ یہ دونوں رویے سنگین جرم ہیں۔لہذا ،ان میں شدید احتیاط کرنی چاہیے۔ تاریخی طور پر سوائے ایک موئے مبارک کے جو استنبول میں موجود ہے ، کوئی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا ۔ موئے مبارک کے بارے میں وہ ساری کہانی جو آپ نے بیان کی ہے کہ یہ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی شاخیں بھی نمودار ہوتی ہیں اور باقاعدہ خواب کے ذریعے سے امت کے اندر اسے پھیلایا جا رہا ہے ،ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، یہ سب کچھ ایک من گھڑت افسانہ ہے ۔ مذہب کو بگاڑنے کے لیے شیاطین نے ہمیشہ اس طرح کے افسانے گھڑے ہیں۔ صحیح مذہب انسان کے اندر انتہائی علمی رویہ پیدا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ہر چیز کی دلیل لور اس کا ثبوت دیکھا جاتا ہے ۔ مذہب چاہتا ہے کہ ہم ہر شئے کو دلیل لور اس کے ثبوت کے ساتھ مانیں ۔ اگر ہم مذہب کی اس ہدایت سے گریز کا رویہ اختیار کرتے ہیں ، تو پھر شیطان جس چیز کو چاہے گا، ہمارے سامنے دین بنا کر پیش کر دے گا۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: ہماری رائے میں آپ کو لوگوں کے تبصروں اور ان کے فتووں سے بے نیاز ہو کر نماز بہرحال باجماعت ہی پڑھنی چاہیے۔جن لوگوں کو ہم مسلمان کہتے ہیں ، وہ خواہ کیسی ہی علمی غلطیوں میں مبتلا ہوں ،ان سے ہم اپنی نماز کیسے الگ کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ جب تک خدا کو الہِ واحد ،محمد ﷺ کو اس کا آخری رسول ، قرآن کو اس کی کتاب ، فرشتوں کو اس کی ایک مخلوق اور آخرت کو برحق مانتے ہیں ، اس وقت تک وہ مسلمان ہیں ۔ جب تک وہ مسلمان ہیں ، ان سے علیحدہ ہو کر نماز کیسے پڑھی جا سکتی ہے۔ رہا ان کے ہاں پائی جانے والی غلطیوں کا معاملہ، تو وہ ہمارے نزدیک بنیادی طور پر علمی غلطیاں ہیں ، خواہ وہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔ آپ دیکھیں ! کیا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی آرا اوراپنے تصورات ہی پر قائم رہیں گے ، خواہ وہ قرآن و سنت کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ ظاہر ہے ایسا کوئی بھی نہیں کہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والا کوئی فرقہ اپنے خمیر یا کم از کم اپنے خارج کی وجہ سے ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ باطن کا معاملہ خدا کے حوالے ہے ۔ پس جن لوگوں کا آپ نے ذکر کیا ،نماز میں ان سے علیحدگی درست معلوم نہیں ہوتی۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: مشرک وہ شخص ہے جو توحید کا نہیں، شرک کا عقیدہ رکھتا ہو۔ اس دنیا میں جب تک کوئی شخص خود کو توحید کے عقیدے کا علم بردار کہتا ہے ، اس وقت تک ہم محض اس کے کسی شرکیہ عمل کو اختیار کرنے کی بنا پر اسے مشرک قرار نہیں دے سکتے ۔ کسی کے دل کا معاملہ کیا ہے ؟ یہ اس کا وہ راز ہے جسے خدا ہی جانتا ہے ، ہم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ پس زیر بحث لوگوں کے حوالے سے نکاح اور نماز دونوں ہی درست ہیں ۔
(محمد رفیع مفتی)
ج : ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے کسی خاص گروہ نے اپنے آپ کو شرک کے ساتھ عقیدے کی سطح پر وابستہ کر رکھا ہے اور باقی اُس سے دور ہیں۔ مسلمانوں کا تو کوئی گروہ بھی اپنے آپ کو شعوری طور پر شرک کے ساتھ منسلک کرنا گوارا نہیں کرتا۔ مسلمان فرد ہو یا جماعت شرک کے تصور سے بھی نفر ت اُن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ لہذا، یہ بات واضح رہے کہ مسلمانوں کے ہاں شرک اگر پایا جاتا ہے تو وہ خوبصورت مذہبی تصورات کے لبادے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ سینکڑوں مسلمان اُس سے دھوکہ کھا کر اسے اپنالیتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اُن میں سے کون کون اپنی نفسیات اور اپنی ذہنیت کے اعتبار سے مشرک ہے۔ میں اِس بات کو تھوڑا سا واضح کرنا چاہتا ہوں۔ مشرک کی مثال چھنال عورت سے دی گئی ہے۔ جو خود کو اپنے خاوند تک محدود نہیں رکھتی، حالانکہ وہ اپنے خاوند کے حبالہ عقد میں ہے، اُس سے اپنے نان نفقہ کا مطالبہ کرتی ہے، لیکن وہ خاوند کے خاص حقوق میں دوسروں کو بھی شامل کرنا بالکل صحیح سمجھتی ہے اور پھر شامل کرتی بھی ہے۔ یہ عورت اپنی ذہنیت، اپنی نفسیات اور اپنے عمل میں ایک چھنال عورت ہے۔ اسی طرح مشرک وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی ذہنیت اور اپنی نفسیات میں صرف ایک خدا ہی کو اپنا خدا ماننے پر قانع نہیں رہتا ، بلکہ اوروں کو بھی خدا کے ساتھ شریک کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک، خدا کے خاص حقوق کوئی ضروری ہے کہ صرف خدا ہی کو دیے جائیں۔ اُس کے خیال میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ سجدہ خدا کو بھی کیا جائے اور غیر خدا کو بھی، دل میں جو حیثیت خدا کو دی جائے وہی غیر خدا کو کیوں نہ دی جائے ۔ آخر اِس میں کیا حرج ہے کہ خدا کی اطاعت بھی کر لی جائے اور غیر خدا کی بھی۔ یہ ہے مشرکانہ ذہن۔ الحمد للہ مسلمانوں میں شرک کے اِس طرح کے اقرار کے ساتھ کوئی مشرک نہیں پایا جاتا۔ مسلمانوں کے ہاں جو شرک پایا جاتا ہے، وہ بہرحال، توحید ہی کے لبادے میں ہوتا ہے یا توحید ہی کے واضح اقرار کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص جو مسلمان دکھائی دیتا ہے، وہ درحقیقت، کسی کریہہ شرک میں مبتلا ہو، وہ پوری طرح سے مشرکانہ ذہنیت اور مشرکانہ نفسیات رکھتا ہو اور خدا کے ہاں جب وہ اٹھایا جائے ، تو پکے مشرک کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔ لیکن آپ بتائیے ،اگر بالفرض وہ اِس دنیا میں اپنا عقیدہ جب بھی بیان کرنے بیٹھے، تو اُس کی ابتدا کلمہ طیبہ سے کرے اور انتہا کلمہ شہادت پر کرے، تو ہم اُسے مشرک کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اُس کی فلاں فلاں بات مشرکانہ ہے اور اُس کا فلاں فلاں عمل مشرکانہ ہے۔ لیکن اُس کے عقیدے کے بارے میں آپ بتایئے ہم توحید کے علاوہ اور کیا بیان دیں۔چنانچہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی ایسے گروہ یا شخص کو ہم نہ ‘ مشرک’ کہہ سکتے ہیں، نہ ‘مشرک مسلمان’ ، کیونکہ ہمارے پہلے بیان (مشرک)کے لیے اُس کی زبان سے خالص شرک کا اقرار ضروری ہے اور دوسرے بیان (مسلمان مشرک)کے لیے اُس کا زبان سے شرک اور توحید دونوں کا اقرار ضروری ہے۔ جب تک یہ بیان میسر نہ ہوں اور کلمہ شہادت اور کلمہ توحید کا اقرار موجود ہو، ہم اُسے مسلمانوں ہی میں شمار کریں گے، البتہ اُس کے غلط (شرکیہ)اعمال اور اُس کی غلط (شرکیہ) باتوں سے خود بھی بچیں گے اور اُسے بھی بچنے کو کہیں گے۔
ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، جب تک کہ وہ صحیح نماز پڑھتے ہیں، البتہ اگر اُن کے دوسرے شرکیہ اعمال کی وجہ سے جی نہ چاہے ، تو اُن کے ساتھ نماز پڑھنے سے گریز کیا جا سکتا ہے۔
جو شخص دل سے مسلمان اور موحد ہے ، وہ اُس حقیقی شرک کو ،جومیں نے اوپر بیان کیا ہے ، شعوری طور پر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں اپنا سکتا۔اور جو شخص مشرکانہ ذہنیت رکھتا ہے، وہ اپنی اِس ذہنیت کے ساتھ ایک لمحے کے لیے بھی حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ البتہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ ایک آدمی کسی مشرکانہ بات یا مشرکانہ عمل کو اپنی کم علمی کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک توحید ہی کی بات یا توحید ہی کا عمل سمجھتا رہے، لیکن اِس صورت میں یہ آدمی اپنی ذہنیت ،اپنی نفسیات اور اپنے داخل کے اعتبار سے مشرک شمار نہیں ہو گا، کیونکہ اِس نے کسی شرکیہ عمل کو اگر اپنایا ہے تو محض اِس لیے کہ اُسے وہ عینِ توحید محسوس ہوا ہے، ورنہ وہ اُسے ہرگز نہ اپناتا۔ ہاں عمل کے اعتبار سے بے شک یہ مشرکانہ عمل میں پڑا ہوا ہے۔اِس کی دلیل اور مثال سورۃ جن میں جنوں کا یہ قول ہے :‘‘ اور یہ کہ ہمارا یہ بے وقوف (سردار )اللہ کے بارے میں حق سے ہٹی ہوئی (شرک کی)باتیں کہتا رہا ہے، اور یہ کہ ہم نے گمان کیا کہ انسان اور جن خدا پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتے۔ ’’ (الجن۷۲: ۴،۵)
اللہ کے رسولؐ نے بے شک ہم تک توحید کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا تھا۔اب اگر انسان اِس مسئلے میں ٹھوکر کھاتا ہے تو یہ انسان کا قصور ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: اس سلسلے میں مجھے آپ کے ان دوست سے یہ گزارش کرنا ہے کہ انہیں شادی کی اس آگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ ان کے جو حالات معلوم ہوئے ہیں ،ان سے پتا چلتا ہے کہ اس شادی کی وجہ محض اس خاتون سے تعلق کا قائم ہو جانا ہے۔ دل کا یہ تعلق تو کل کسی تیسری خاتون سے بھی قائم ہو سکتا ہے ، اس کے بھی گوناں گوں مسائل ہو سکتے ہیں اسے بھی اس کی ضرورت ہو سکتی ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ تھامے اور اسے ان مسائل سے نکالے اور اس کے بعد پھر کسی چوتھی خاتون کو بھی اس طرح کی مدد درکار ہو سکتی ہے۔ خیر خواہی کی یہ شکل ورست نہیں کہ آدمی دوسرے کو دلدل سے نکالنے کے لیے خود اس میں جا اتر ے۔ اس صورت میں وہ دلدل دونوں کو نگل جائے گی۔ آپ کے یہ دوست شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں ۔ بیوی اور بچوں کی ضروریات اور ان کے عام مسائل کوئی ایسے کم نہیں ہوتے کہ آدمی ان میں کسی اضافے کا طالب ہو۔ دوسری شادی کے بعد ان کی پہلی بیوی اور اس سے ہونے والے بچے جن مسائل کا شکار ہوں گے، وہ کم دکھائی نہیں دیتے۔ پھر آپ اِن کے دوسری شادی کی طرف بڑھنے کے عمل کی سنگینی کو بھی دیکھیے کہ اس میں پہلا قدم لڑکی کا گھر سے بھاگنا ہے ، کیا اس کے بعد اس کے بھائی ،اس کے رشتے دار اور اس علاقے کی پولیس ، سبھی اس لڑکی کے پیچھے پیچھے اِن صاحب کے گھر کی طرف نہ بھاگ اٹھیں گے۔ بھاگنے والیوں کی مصیبت یہی ہے کہ وہ اکیلی نہیں بھاگتیں، اپنے پیچھے بہت سے لوگوں کو بھگا لاتی ہیں۔اس صورت میں آپ کے اِن دوست کا پہلا گھر الگ سے برباد ہو گا اور نیا گھر الگ سے۔ معاشرے میں جو فتنہ و فساد برپا ہو گا اور جس غلط روی کی یہ مثال بنیں گے ،خدا کے حضور ان سب باتوں کی جواب دہی الگ سے ہو گی۔ معاملہ اگر جنونِ نافہم کا ہے تو خود کشی مقدر ہے، بس اب طریقہ ہی سوچنا ہے۔ لیکن اگر دوسروں کی اصلاح اور خیرخواہی کا دعویٰ ہے، تو پھر پہلے اپنی اصلاح اور اپنی خیرخواہی کر لینی چاہیے ۔ اِنہیں اپنی شادی کا نہیں ، صرف اُس خاتون کی شادی کا سوچنا چاہیے ، جس کی شادی ابھی نہیں ہوئی ، اِن کی شادی تو ہو چکی ہے ۔اُس خاتون کو اِنہیں یہ تلقین کرنی چاہیے کہ وہ مسائل پر جذبات سے نہیں ، عقل کی روشنی میں غور کرے۔ اس واضح موقف کو اپنانے کے بعد انہیں چاہیے کہ صبر سے کام لیں ، اُس خاتون سے رابطہ منقطع کر دیں اور خدا سے بڑے اجر کی توقع رکھیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج : تعویز گنڈے کو نبیﷺ نے مکروہ جانا ہے۔ ابو داؤد کی کتاب الخاتم میں ایک مفصل حدیث بیان ہوئی ہے ، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی ﷺ دس فلاں فلاں چیزوں کو مکروہ جانتے تھے ،ان باتوں کی تفصیل میں سے ایک تعویز باندھنا بھی ہے۔
دین سے اس کے بارے میں ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے۔ لہذا ،اس سے بچنا چاہیے۔اس کے بعد یہ سوال اصلاً بے کار ہے کہ اس کے کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں یا نہیں۔ اثرات مرتب ہوں ،تو بھی اس سے بچنا ہے اور نہ ہوں ،تو بھی اس سے بچنا ہے
(محمد رفیع مفتی)
ج: نماز کے دوران میں اگر ہوا خارج ہو جائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ یہ نماز اگر امام کی ٹوٹی ہو،تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں مقتدیوں کی نماز بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔اگر امام فوراً اپنے پیچھے سے کسی مقتدی کا ہاتھ پکڑے اور اسے اپنی جگہ پر کھڑا کر دے، تو اس صورت میں مقتدیوں کی نماز سلامت رہتی ہے۔ پہلا امام اگر چاہے تو وضو کر کے نماز میں اب مقتدی کی حیثیت سے شامل ہو سکتا ہے۔لیکن اگر امام کا وضو ٹوٹنے کے باوجود وہ نماز پڑھاتا رہتا ہے اور مقتدی یہ صورت حال جاننے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھتے رہتے ہیں تو کسی کی نماز بھی نہیں ہو گی اور یہ نماز کے ساتھ ایک مذاق ہو گا، جو کیا جا رہا ہو گا۔ اس صورت میں مقتدیوں کو اس مذاق میں ہرگز شامل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ نماز ضرور توڑ دیں اور اس کے بعد حالات کی رعایت سے،خواہ اپنی نماز جماعت کراکے پڑھ لیں یافردا ً فردا ًپڑھ لیں۔ نماز خدا کے دربار میں اس کے بندوں کی طرف سے اظہارِ عبودیت ہے۔اس میں اگر امام سے غلطی ہو رہی ہے اور وہ اس پر متنبہ نہیں ہو رہا، تو اس کا یہ حق ہے کہ اسے متنبہ کیا جائے ۔ اگر ہم اسے متنبہ نہیں کرتے ، تو ہمارا یہ رویہ اس کا حق ادا کرنے سے گریز کرنا ہے اور اگر امام نے اپنا تاثر یہ بنا رکھا ہے کہ لوگ اس کے سامنے اس کی غلطی نکالنے سے خوف کھائیں ۔ تو آپ غور کریں کہ اس امام نے یہ کیا کر رکھا ہے، سوائے اس کے کہ اپنی آخرت تباہ کرنے کا سامان کر رکھا ہے۔
خدا کی اس کائنات میں کوئی شخص اتنا بڑا نہیں کہ اس کے لیے خدا کی بات چھوٹی ہو اور اس کے لیے کوئی شخص اس صورت میں بھی چھوٹا ہو ، جب کہ اس کے پاس خدا کی کوئی ایک بات یا خدا کی شریعت کا کوئی ایک حکم موجود ہے، جو وہ اسے بتانا چاہتا ہے۔ خدا کے دربار میں کیا پیر اور کیا مرید سب برابر ہیں ۔ اس کے سامنے سب بے بس و بے کس ہیں،سب حقیر اور سب ہیچ ہیں۔ آپ نے دورِ نبوی کا یہ واقعہ تو سنا ہو گا کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نماز پڑھاتے ہوئے ، چار رکعت کے بجائے غلطی سے دو پڑھا گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو مفتدیوں میں سے ایک نے کہا کہ آپ نماز میں بھول گئے تھے یا نماز کی رکعتیں ہی کم ہو گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے ان دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہوئی۔پھر آپ کو بتایا گیا کہ آپ بھول گئے ہیں۔چنانچہ آپ نے وہ رکعتیں جو رہ گئی تھیں وہ پڑھا دیں۔ صحابہ ؓنے اپنے اس ردیے سے ہمیں یہ درس دیا کہ کوئی شخص اس سے بالا نہیں کہ اس کی غلطی بتائی ہی نہ جائے۔میری رائے ہے کہ آپ کم از کم ایسا ضرور کریں کہ پیر صاحب کو یہ ساری صورت حال لکھ کر دے دیں ،خط میں اپنا نام آپ بے شک ظاہر نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ پیر صاحب اپنی اصلاح کا بھی کوئی مادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔اگر انہیں اپنی اصلاح سے دلچسپی نظر آئے، تو آپ کا مقصود حاصل ہو گیااور اگر ان کے ہاں اس سے بے نیازی ہو ، تو پھر گویا پیر صاحب نے یہ اشارہ دے دیا کہ دین کے احکام ایسے اہم نہیں کہ ان پر لاگو ہوں۔ایسی صورت میں جو فیصلہ آپ کو کرنا چاہیے میرا خیال ہے کہ وہ آپ پر واضح ہی ہو گا۔
(محمد رفیع مفتی)