جواب: اس سوال کے دو پہلوہیں۔ ایک پہلو خود نفس انشورنس سے متعلق ہے۔ یعنی کوئی ایسا نظام وجود میں لانا جس میں جانی یا مالی نقصان اٹھانے والوں کی بروقت مدد کی جائے ۔اس میں کوئی حرج نہیں۔دوسرا پہلو انشورنس کمپنیوں کے طریق کار سے متعلق ہے۔ اگر ان کا نظام سود ی ہے اور وہ انشورنس کرانے والے کو جو اضافی رقم دیتے ہیں یہ سود ہی ہوتا ہے تو یہ اضافی رقم ناجائز ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: ایک ادب قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا منع ہے، الا یہ کہ محض گزر جانا پیش نظر ہو۔ دوسری بات سنت سے معلوم ہوئی ہے اور وہ یہ کہ مسجد میں داخل ہونے پر دو نفل رکعت پڑھی جائیں ۔باقی جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اصل میں اس رویے کا بیان ہے جو ایک بندہ مومن کو خدا کے گھر میں فطری طور پر اختیار کرنا چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن مجید کا لازمی تقاضا ہے کہ اسے سوچ سمجھ کر پڑھا جائے۔ البتہ جو شخص بے سمجھے تلاوت کرتا ہے اس کے لیے کہ یہ بات بڑی اہم ہے کہ وہ انسان خدا کی کتاب سے متعلق رہااس اعتبار سے ثواب کی امیدرکھنی چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: بخاری میں یہ روایت سب سے پہلے کتاب الجنائز کے باب الصلوۃ علی الشہید میں نقل ہوئی ہے۔ بخاری کے ایک شارح بدر الدین عینی نے اس روایت کی سند پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سند کو صحیح ترین اسناد میں گنا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے سیاق وسباق کو سمجھنے کے لیے اس کا پورا متن سامنے رکھنا لیناچاہیے:
عن عقبۃ بن عامر أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم خرج یوما فصلی علی أہل أحدعلی المیت ثم انصرف الی المنبر فقال إنی فرط لکم وأنا شہید علیکم وإنی واﷲ لأنظر إلی حوضی الآن وإنی أعطیت مفاتیح خزائن الأرض أو مفاتیح الأرض وإنی واﷲ ما أخاف علیکم أن تشرکوا بعدی ولکن أخاف علیکم أن تنافسوا فیہا۰
‘‘ عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے ۔ آپ نے اہل احد کے لیے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر آپ منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: میں تم سے آگے ہوں۔ میں تم پر گواہ ہوں۔ بخدا ، میں اس وقت اپنا حوض دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی یا دنیا کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ بخدا اپنے بعد مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ تم شرک کرو گے۔لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم اس (دنیوی )دولت میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے۔’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایک خاص پس منظر رکھتا ہے۔ حضورﷺ نے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تھا تو آخرت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بیان کی تھی کہ انھیں ایک عظیم کامیابی حاصل ہوگی اورقیصر وکسری کی سلطنتیں ان کے زیر نگیں آجائیں گی۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں بڑے بڑے خزانے بھی ہاتھ آئیں گے۔ بدر کی فتح اس کامیابی کا نقطہ آغاز تھا۔ احد کے شہدا کی تعداد اگرچہ زیادہ تھی لیکن کامیابی کا سفر بہرحال جاری تھا۔ وہ وقت قریب نظر آرہا تھا جب مذکو رہ کامیابی واقعتا میں حاصل ہونے والی تھی۔ اسیطرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی دکھایا جا رہا تھا کہ اس دنیا سے جانے کے بعد وہ کیسے اپنے ساتھیوں کی قیادت کرتے ہوئے حوض پر آئیں گے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ کامیابی کے نتیجے میں ان کے ساتھی ایک آزمایش سے دو چار ہوں گے۔ اس جملے میں آپ نے اپنے اسی احساس کو بیان کیا ہے۔ آپ اس حقیقت سے واقف تھے کہ وہ اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو شرک کے بارے میں پوری شدت سے متنبہ کر چکے ہیں اس لیے اس کا امکان تو نہیں کہ یہ لوگ واپس شرک کی طرف چلے جائیں گے لیکن جو(دنیوی) دولت حاصل ہوگی وہ انھیں اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ آپ نے اس خدشے کو بیان کر دیا تاکہ اہل ایمان اس کے بارے میں متنبہ رہیں۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ شرک کی نفی کا تعلق ایک خاص جماعت(یعنی صحابہ) سے ہے۔ عملًا بھی ایسا ہی ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متصل زمانے میں تو شرک راہ نہیں پا سکا لیکن بعد کے زمانوں میں بعض شرکیہ اعمال مسلمانوں کے گمراہ گروہ اختیار کرتے رہے ہیں۔باقی رہا، ہمارے ہاں فتاوی کا چلن تو اس کی وجہ فرقہ وارانہ کشمکش بھی ہے اور دعوت کی حکمت عملی سے نا آگاہی بھی۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ لوگ جو غلط استدلال کی وجہ سے مشرکانہ اعمال میں مبتلا ہیں انھیں اس غلاظت سے نکالا جائے لیکن اس کا راستہ فتوی بازی نہیں بلکہ استدلال ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن مجید جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے انسان کو موت کے بعد کی جوابدہی سے آگاہ کرنے کے لیے نازل کیا گیا تھا۔ اس کا اصل موضوع یہی ہے۔ لہذا اس میں تخلیق کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کی قدرت اور حکمت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے نہ کہ زمین پر انسان کی عمر واضح کرنے کے لیے۔انسان اور کائنات کی عمر کے بارے میں اس میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ سائنس دان اس معاملے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم اس کی تردید یا تصویب کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنسی طریقوں ہی سے ڈیل کرنا چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: قرآن مجید کا اصل ذریعہ انتقال زبانی روایت ہے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح قرآن پڑھا اسی طرح لوگوں نے اسے یاد کر لیا اور نئے پڑھنے والے بھی انھی لوگوں سے قرآن کی عبارت کوسیکھ کر یاد کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں انھوں نے ابوالاسود الدؤلی کو مقرر کیا کہ وہ پڑھنے کی سہولت کے لیے حروف پرحرکات کی علامتیں بنا دے۔ واضح رہے کہ یہ علامتیں اس متفقہ قرات کے مطابق لگائی گئیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سکھائی تھی۔ ابو الاسود نے اس معاملے میں اپنی رائے پر کچھ نہیں کرنا تھا۔ اگر وہ اس میں اپنی رائے شامل کرتا تو امت اس کے کام کو رد کر دیتی۔ دوسرے مرحلے میں حجاج بن یوسف کو عبد الملک بن مروان نے یہ ذمہ داری دی کہ وہ ج ،ح اورد، ذ وغیرہ میں فرق کی شناخت کو مزید آسان بنائیں ۔حجاج نے اس کام کے لیے نصر بن عاصم اور حیی ین یعمر کو مقرر کیا۔ یہ صرف رسم الخط کی بہتری کا کام تھا ۔ ان دونوں کاموں کے ہونے کے متعین سال معلوم نہیں ہیں۔ ان لوگوں کی ذمہ داری قرآن کی مسلمہ قرأت اور املا کے طریقے کے بہتر کرنا تھا۔ قرآن مجید کے متن کے بارے میں اپنی کسی رائے کو ثبت کرنا نہیں تھا۔ آج کل جن علامات سے اعراب اور حروف میں فرق واضح کیا جا رہا ہے یہ اس کے بعد لیکن اسی زمانے کے ایک بڑے ماہر زبان خلیل بن احمد فراہیدی کی دریافت کردہ ہیں۔ لیکن اس سارے کی حقیقت محض رسم الخط کی بہتری سے ہے۔ اس کا متن قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔متن قرآن اسی طرح محفوظ و مامون ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: وہ تمام جماعتیں جو اپنے لیے وہی حقوق طلب کرتی ہیں جو حکومت کے حقوق ہیں(یعنی وہ حقوق جو شریعت نے صرف حکومت کے لیے خاص کیے ہیں) وہ غیر شرعی ہیں۔ البتہ وہ جماعتیں جو مسلمانوں کے علم وعمل کی اصلاح کے لیے کام کر رہی ہیں وہ بالکل شرعی ہیں۔سیاسی تفرقہ اور دینی تفرقہ کے اہداف مختلف ہیں اور دونوں ہی دین میں ممنوع ہیں۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر بننے والی جماعتیں اصلا ًتفرقہ کے تحت نہیں آتیں البتہ بالعموم یہی اختلاف تفرقہ پر منتج ہوتا ہے۔ چنانچہ ان عوامل کے پیدا ہونے پر نظر رکھنی ضروری ہے جو علمی اختلاف کو تفرقہ بنا دیتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: مسلمان کے لیے ضروری صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عقیدہ وعمل کی اصلاح کرے اور اپنے ماحول میں اپنی استعداد اوراستطاعت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہے۔ وہ مسلمان جو ان ملکوں میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں ان کے لیے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت کی اصلاح بھی ہونی چاہیے تو وہ تمام وہ طریقے اختیار کر سکتے ہیں جو ان کے ملکی قانون کے مطابق جائز ہیں۔ البتہ جن ملکوں میں سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت نہیں ہے ان میں طویل عرصے تک محض کلمہ حق کہنے تک کام کو محدود رکھنا پڑے گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: آپ کو قضا روزے رکھنے ہیں۔ فدیہ کی اجازت فقہا صرف اس شخص کو دیتے ہیں جس کے لیے اب بظاہر احوال زندگی بھرروزہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: غیب کا علم کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے اعمال بالعموم جبت سے مشابہت اختیار کر جاتے ہیں ان سے بچنا ہی چاہیے۔
(مولانا طالب محسن)