جواب: قرآن مجید کا اصل ذریعہ انتقال زبانی روایت ہے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح قرآن پڑھا اسی طرح لوگوں نے اسے یاد کر لیا اور نئے پڑھنے والے بھی انھی لوگوں سے قرآن کی عبارت کوسیکھ کر یاد کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں انھوں نے ابوالاسود الدؤلی کو مقرر کیا کہ وہ پڑھنے کی سہولت کے لیے حروف پرحرکات کی علامتیں بنا دے۔ واضح رہے کہ یہ علامتیں اس متفقہ قرات کے مطابق لگائی گئیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سکھائی تھی۔ ابو الاسود نے اس معاملے میں اپنی رائے پر کچھ نہیں کرنا تھا۔ اگر وہ اس میں اپنی رائے شامل کرتا تو امت اس کے کام کو رد کر دیتی۔ دوسرے مرحلے میں حجاج بن یوسف کو عبد الملک بن مروان نے یہ ذمہ داری دی کہ وہ ج ،ح اورد، ذ وغیرہ میں فرق کی شناخت کو مزید آسان بنائیں ۔حجاج نے اس کام کے لیے نصر بن عاصم اور حیی ین یعمر کو مقرر کیا۔ یہ صرف رسم الخط کی بہتری کا کام تھا ۔ ان دونوں کاموں کے ہونے کے متعین سال معلوم نہیں ہیں۔ ان لوگوں کی ذمہ داری قرآن کی مسلمہ قرأت اور املا کے طریقے کے بہتر کرنا تھا۔ قرآن مجید کے متن کے بارے میں اپنی کسی رائے کو ثبت کرنا نہیں تھا۔ آج کل جن علامات سے اعراب اور حروف میں فرق واضح کیا جا رہا ہے یہ اس کے بعد لیکن اسی زمانے کے ایک بڑے ماہر زبان خلیل بن احمد فراہیدی کی دریافت کردہ ہیں۔ لیکن اس سارے کی حقیقت محض رسم الخط کی بہتری سے ہے۔ اس کا متن قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔متن قرآن اسی طرح محفوظ و مامون ہے۔
(مولانا طالب محسن)