جواب :آپ کے سوالات کے حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
کسی گروہ کو جو قطعی نصوص سے ثابت کسی امر کا منکر ہو، تاویل کی رعایت دیتے ہوئے تکفیر سے بچانے کا اصول بالکل درست ہے، تاہم اس کا عملی اطلاق کرتے ہوئے بہت سے دوسرے پہلووں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ قادیانیوں کے معاملے میں امت نے کم وبیش اجماعی طور پر اس اصول کے اطلاق کو درست نہیں سمجھا جس کے بنیادی وجوہ میرے فہم کے مطابق دو ہیں:
ایک یہ کہ تاویل کی رعایت علمی وعقلی طور پر اسی صورت میں دینی چاہیے جب اس بات کا کافی اطمینان ہو کہ منکر دیانت داری کے ساتھ غور کرتے ہوئے فی الواقع کسی شبہے کی وجہ سے انکار کر رہا ہے۔ مرزا غلام احمد کے معاملے میں یہ صورت نہیں پائی گئی۔ اول تو نبوت اور نزول وحی کا دعویٰ کرنا بذات خود ایک بہت بڑا جھوٹ اور افترا ہے۔ پھر مرزا صاحب کے ہاں کذب اور افترا اور اخلاقی بد دیانتی کی جو مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں ، وہ اس کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتیں کہ ان کے بارے میں کسی حسن ظن سے کام لیا جائے۔ مزید برآں کسی بھی گروہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تاویلات خود اپنی نوعیت کے لحاظ سے بھی یہ بتا دیتی ہیں کہ ان میں شبہے کا پہلوکتنا ہے اور عمداً تحریف کا کتنا۔ صدر اول میں جن گروہوں مثلاً جہمیہ وغیرہ اور بعد میں روافض کی تکفیر کے متعلق سلف نے عمومی طور پر جو احتیاط کی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ نصوص اور واقعات کی تعبیر میں عام انسانی نفسیات اور فہم کے اعتبار سے ایسی گنجائش محسوس کرتے ہیں جو ان گروہوں کے راہ راست سے بھٹکنے کا سبب بنی۔ خود قرآن نے یہود کے لیے'مغضوب علیہم' اور نصاریٰ کے لیے 'ضالین' کے الگ الگ الفاظ استعمال کر کے اس پہلو کو واضح کیا ہے اور کفر وضلالت میں دونوں گروہوں کے اشتراک کے باوجود قرآن کا لب ولہجہ یہود کے بارے میں بدیہی طور پر زیادہ سخت اور بے لچک، جبکہ نصاریٰ کے معاملے میں نسبتاً نرم ہے۔ قادیانی حضرات کی تاویلات کا معاملہ نصاریٰ سے زیادہ یہود سے مشابہت رکھتا ہے۔ مرزاصاحب اور ان کے حواریوں کی پیش کردہ تمام تاویلات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ نصوص کو خارج میں قائم کردہ ایک مفروضے کے اثبات کے لیے توڑنا مروڑنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے واضح ترین دلالتوں کو چھوڑ کر دور از کار تاویلات اور احتمالات کا سہارا لینے میں وہ کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ یہ ساری صورت حال میرے خیال میں اس کا سبب بنی ہے کہ علماے اسلام قادیانی گروہ کے معاملے میں تاویل اور شبہے کی وجہ سے عدم تکفیر کے اصول کا اطلاق کرنے پر مطمئن نہیں ہوئے اور ان کی تکفیر ہی پر امت کا اتفاق ہو گیا۔
دوسری اہم وجہ وہ اصول ہے جسے علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اپنی تحریروں میں واضح کیا ہے۔ کسی گروہ کو تاویل کا فائدہ دینا اس لازمی شرط سے مشروط ہے کہ وہ گروہ امت مسلمہ کے بنیادی مذہبی تشخص سے ہٹ کر اپنے لیے کسی الگ مذہبی تشخص کا مدعی نہ ہو۔ دنیا کے مذاہب میں امت مسلمہ کا بنیادی مذہبی تشخص جو اسے سماجی اورمعاشرتی سطح پر دوسرے گروہوں سے ممتاز کرتا ہے، وہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک دین کا واحد اور حتمی ماخذ ماننا۔ اگر کوئی گروہ ختم نبوت کے عقیدے میں تاویل کر کے ایک نئے مصدر اطاعت اور ماخذ ہدایت کی بنیاد پر اپنا الگ تشخص قائم کرتا ہے تو وہ غیر تشریعی، ظلی اور امتی نبی کی اصطلاحوں کا کتنا ہی سہارا لے، عملاً وہ اپنے آپ کو ایک نئے مرکز اطاعت سے وابستہ کر دیتا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے کے باوجود آپ کی تعلیمات کی تعبیر وتشریح میں وہ اس نئے مرکز اطاعت کو حتمی اتھارٹی کا درجہ دیتا ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی بات عملاً بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود قادیانی حضرات اپنے اس تصور کی رو سے مجبور ہیں کہ ایمان واسلام کے دائرے کو مرزا صاحب کے معتقدین تک محدود رکھتے ہوئے ان پر ایمان نہ رکھنے والی ساری امت مسلمہ کو 'کافر' شمار کریں۔
قادیانی گروہ کو قانونی طور پر مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم گروہ قرار دے دیے جانے سے امت مسلمہ کے تشخص اور اس کی اعتقادی حدود کی حفاظت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے البتہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قادیانی قیادت اور ان کے تاویلاتی جال میں پھنس جانے والے عام سادہ لوح مسلمانوں کو دعوت اور پیار سے واپس لانے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے مسلمان علما اور داعیوں کی ایک پوری جماعت تیار کی جائے
(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)
جواب: فرقے بننے کی بڑی وجہ ضداور ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔ اور یہ بات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے کہ ہم نے سب نبیوں کو ایک ہی دین دیا تھا ، اور اس میں جو بنی اسرائیل اور اہل کتاب نے اختلاف کیا ‘بَغْیْاً بَیْنَہُمْ۔’(البقرۃ ۲:۲۱۳) آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے کیا۔ شریعت کے اندر بنیادی اختلافات کہیں بھی نہیں ہیں۔البتہ چھوٹے چھوٹے Interpretation کے اختلافات ہیں۔ انسان جب تک انسان ہے اس میں علمی اختلاف ہو گا اور وہ قرآن مجید کی تعبیر میں بھی ہو جائے گا۔اس سے کوئی قیامت نہیں آتی۔ اختلافات زندگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسی سے انسانی زندگی میں ایک تنوع، جدت اور ندرت رہتی ہے۔ اختلاف کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے اندر حسن ہے۔ ان کے ذریعے سے آپ چیزوں کے اندر اترتے ہیں۔ ایک ہی چیز کو دیکھنے کا ایک زاویۂ نظر اور دوسرا زاویۂ نظر آپ کو آگے بڑھنے میں، ترقی کرنے میں مدد دیتا ہے۔انسان کواگر آپ بالکل ایسی چیز بنا دیں کہ جو ایک سانچے میں سے نکل کر تیار ہو رہی ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ انسان کے سوچنے کے انداز، اس کی فکر کے انداز، اس کے رد عمل کے انداز،اس کی نفسی صلاحیتیں، اس کی عبقریت،اور اس کی ذہانت، یہ سب چیزیں اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ان کی وجہ سے تھوڑے بہت اختلافات ہوتے ہیں۔ اس طرح کے اختلافات سائنس، طب سب علوم و فنون میں ہوتے ہیں ۔ فرقہ بندی میں اختلافات جو مخالفت میں ڈھل جاتے ہیں، جس سے لوگ ایک دوسرے سے ٹوٹنا شروع ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ ضدم ضدا کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی فرقے کے دوسرے فرقے کے ساتھ اختلافات کا جائزہ لے لیں، ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اس میں کچھ شخصیات کے ساتھ غیر معمولی عقیدت وجود میں آ جاتی ہے۔ پھر اپنی اپنی بھیڑوں کو اپنے باڑے میں جمع کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتاہے۔ پھر اس میں بعض جگہوں کے اوپر تعلیم ناقص ہوتی ہے، اور جہالت در آتی ہے، یہ چیزیں ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑاتی بھڑاتی رہتی ہیں۔ ورنہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ایک چیز کو ایک زاویے سے دیکھ رہا ہوں اور آپ دوسرے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسروں کو جہنمی قرار دینا، ان پر فتوے لگانا، مسلمانوں کی امت کو پھاڑنا، زبان سے یہ کہنا ہے کہ ہم ڈیڑھ ارب کے قریب ہیں، لیکن اپنے گروہ کے سوا کسی کو مسلمان نہیں ماننا اور پھر قتل و قتال تک نوبت پہنچا دینا ، یہ سب چیزیں جہالت سے پیدا ہوتی ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: وہ تمام جماعتیں جو اپنے لیے وہی حقوق طلب کرتی ہیں جو حکومت کے حقوق ہیں(یعنی وہ حقوق جو شریعت نے صرف حکومت کے لیے خاص کیے ہیں) وہ غیر شرعی ہیں۔ البتہ وہ جماعتیں جو مسلمانوں کے علم وعمل کی اصلاح کے لیے کام کر رہی ہیں وہ بالکل شرعی ہیں۔سیاسی تفرقہ اور دینی تفرقہ کے اہداف مختلف ہیں اور دونوں ہی دین میں ممنوع ہیں۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر بننے والی جماعتیں اصلا ًتفرقہ کے تحت نہیں آتیں البتہ بالعموم یہی اختلاف تفرقہ پر منتج ہوتا ہے۔ چنانچہ ان عوامل کے پیدا ہونے پر نظر رکھنی ضروری ہے جو علمی اختلاف کو تفرقہ بنا دیتی ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: مسلمان کے لیے ضروری صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عقیدہ وعمل کی اصلاح کرے اور اپنے ماحول میں اپنی استعداد اوراستطاعت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہے۔ وہ مسلمان جو ان ملکوں میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں ان کے لیے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت کی اصلاح بھی ہونی چاہیے تو وہ تمام وہ طریقے اختیار کر سکتے ہیں جو ان کے ملکی قانون کے مطابق جائز ہیں۔ البتہ جن ملکوں میں سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت نہیں ہے ان میں طویل عرصے تک محض کلمہ حق کہنے تک کام کو محدود رکھنا پڑے گا۔
(مولانا طالب محسن)