سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، شاہد محمود)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اپریل 2009

ج: اس میں شک نہیں کہ یہ معاملہ بالکل فطرت کے خلاف ہے۔ اس سے انسان کی نفسیات بالکل مجروح ہوجاتی ہے۔ مرد کو مرد بننا چاہیے اور عورت کو عورت بننا چاہیے۔ قرآن مجید نے بڑی خوبی کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس معاملے میں تم کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کرو، یعنی عورتیں عورت کی حیثیت سے اعلیٰ مقام پانے کی کوشش کریں اور مرد مرد کی حیثیت سے۔ یہ چیز ان کے طور اطوار، بولنے، اٹھنے بیٹھنے، اسی طرح لباس وغیرہ میں بھی نمایاں رہنی چاہیے۔ مردوں کا عورت بننے کی کوشش کرنا یا عورتوں کا مرد بننے کی کوشش کرنا یہ احساس کہتری کی علامت ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے لیے یہ لازم نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ ؓنے اس کی وضاحت کر دی تھی، بلکہ بعض صحابہ نے جب اس پر اصرار کیا تو سیدہ عائشہؓ نے اس معاملے میں بہت تنبیہ کے ساتھ توجہ دلائی کہ عورتوں کو اس کی زحمت نہیں دی گئی۔ وہ اپنی چٹیا باندھے ہوئے، اپنے بال بنائے ہوئے، اسی طرح سے پانی بہا لیں تو مقصد پورا ہو جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ بار بار اپنے آپ کو سمجھائیں گے کہ آپ کو دل صاف ہی رکھنا چاہیے تو ان شاء اللہ کچھ وقت گزرے گا کہ آپ کا دل صاف ہو جائے گا۔ یہ دنیا جس اصول پر بنی ہے، اس کا اگر آپ سنجیدگی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ نفرت کرنے، کینہ رکھنے، بغض رکھنے ، دوسروں کی تذلیل کرنے، جزع فزع کرنے کی دنیا نہیں ہے بلکہ صبرکرنے کی جگہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے: ‘وجزاہم بما صبروا جنۃ’ آپ جتنا صبر کر سکتے ہیں، کریں۔ صبر کا امتحان مسلسل رہتا ہے۔ بیوی کو شوہر سے، شوہر کو بیوی سے اوراولاد کو والدین سے یہ معاملہ پیش آتا رہتا ہے۔ آپ اگر اپنے اوپر تھوڑا سا قابو پالیں اور آہستہ آہستہ اپنے آپ کو یہ سمجھا لیں تو آپ کو جنت میں جا کر یہ احساس ہو گا کہ اس موقع پر جو آپ نے صبرکیا، اپنی زبان پر قابو رکھا، اپنا دل صاف کرنے کی کوشش کی، دوسرے کو معاف کر دیا تھا اس چھوٹے سے عمل کا کتنا غیر معمولی اجر آپ کے لیے موجود ہے۔ یہ بات اگر آدمی پر واضح ہو جائے تو پھر وہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بہت ملحوظ رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ‘‘اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو بہت پسند کرتا ہے جو اپنے غصے پر قابو پا لیں’’۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ آدمی کا کسی پہلوان کو پچھاڑ لینا، کون سی بڑی بات ہے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ وہ غصے پر قابو پا لے۔ اس لیے کہ غصے کے موقع پر انسان انسان کم اور شیطان زیادہ ہو تا ہے۔ اس موقع پر اپنے آپ کو کنڑول کر لینا بڑی بہادری کی بات ہے۔

جب آدمی اپنے غصے پر قابو نہیں پاتا، دوسرے پر چڑھ دوڑتا ہے، اس کو رعایت نہیں دیتا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ عطا کیا ہے اس پر اکتفا نہیں کرتا اور ہر موقع پر جزع و فزع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ درحقیت اللہ تعالیٰ کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلہ اس نے کیوں کر ڈالا۔ جب آپ ان ساری باتوں کو سمجھ لیں گے تو آپ کا دل بالکل صاف ہو جائے گا اور آپ مطمئن زندگی بسر کریں گے۔ پھر ایک اچھی بات آپ کو پیش آئے گی تو اتنی خوشی نہیں ہو گی جتنی کہ جذبات پر قابو پالینے سے ہو گی۔ آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ نے بڑی برتری حاصل کر لی ہے۔ اصل میں جو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتے انھیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت کتنے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اے کاش، کوئی ایسا آئینہ ہوتا جو ان کے باطن کی حالت انھیں دکھا سکتا تو وہ دیکھتے کہ وہ اس میں کتنے پست اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتے ہیں اسی لیے انھوں نے اپنے بندوں کو صالح فطرت دی۔ اسی لیے انہوں نے انبیا بھیجے، اسی لیے انہوں نے کتابیں نازل کیں۔لیکن اگر بندے جانتے بوجھتے اللہ کے مقابلے میں سر کشی کریں اور اللہ انھیں عذاب نہ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ ساری آزمایش باطل ہو گئی۔ قیامت کے دن وہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وفاداری کا حق ادا کر دیا وہ بھی جنت میں چلے گئے او روہ جو اللہ کے مقابل میں سرکش ہوئے وہ بھی جنت میں چلے گئے اور وہ وہاں بیٹھ کر اہل ایمان کا ٹھٹھا اڑائیں کہ دیکھو، ایسے ہی تم مشقت اٹھاتے رہے، ہم بھی جنت میں آ گئے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ایسا کرے؟ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ وہ جس طرح محبت کرتا ہے، اسی طرح وہ عدل بھی کرتاہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایاہے ‘کتب علی نفسہ الرحمۃ لیجمعنکم الی یوم القیامۃ’ یہ میری رحمت ہے کہ میں عدل کا وہ دن لاؤں کہ جس دن اپنے بندوں کو جزا و سزا دے کر سرفرازی عطا فرماؤں۔ یہ تووفاکا حق ادا کرنے والوں کے ساتھ بے انصافی ہو گی اور اللہ بے انصافی کیسے کر سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جنات بھی با اختیار قوم ہیں۔ جنات کے جو مکالمے قرآن مجید میں نقل ہوئے ہیں بالخصوص سورۂ جن میں، اس میں خود جنات نے بڑی تفصیل سے یہ بتایا ہے کہ ہم میں صالح بھی ہیں اور شر پسندبھی۔ ہمارے اندر خدا پر جھوٹ باندھنے والے بھی ہیں اور خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے والے بھی۔جس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم یا مخلوق کی حیثیت سے پیدکیا ہے جو خیر و شر کا مادہ رکھتی ہے ایسے ہی ان کو پیدا کیا گیاہے۔ ابلیس کے عمل سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے چنانچہ اس نے یہ نافرمانی کی۔ اور اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو معاملہ ہمارے ساتھ ہو گا، وہی معاملہ ان کے ساتھ ہو گا۔ پھر قرآن نے بتایا ہے کہ جس طرح ہماری طرف اللہ کے نبی آئے ہیں اسی طرح ان کی طرف بھی اللہ نے اپنے پیغمبر اور اپنے نبی بھیجے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ ان پر بھی اتمام حجت کریں گے۔یہ انسانوں سے باعتبار خِلقت افضل ہیں۔ یہ بات تو خود قرآن میں بیان ہو گئی ہے ۔ ابلیس نے اسی سے دلیل پکڑی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ مجھے تو آپ نے آگ سے پیدا کیا ہے۔ مادے کی جو مختلف شکلیں ہیں ،ان میں سب سے لطیف شکل وہ ہے جس سے فرشتے بنے ہیں، اس کے بعد جنات ہیں اور اس کے بعد انسان ہیں۔ اس لحاظ سے جنات بے شک انسانوں سے افضل ہیں، لیکن انسان اگر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا سچا بندہ بنا کر رکھے تو وہ اعلیٰ ترین مقام پانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ خلقت کے لحاظ سے افضل ہونا اور چیز ہے اور اعمال کے لحاظ سے افضل مقام حاصل کر لینا بالکل ایک اور چیز ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ہندوؤں کا تہوار نہیں بلکہ ہمارے ہاں یہ روایت مغربی اقوام سے آئی ہے اور اس روایت میں کوئی چیز دینی لحاظ سے غلط نہیں ہے۔ یعنی ایک بچہ سال ، دو سال کا ہو گیا، خاندان کے لوگوں نے مل بیٹھ کے خوشی منالی ، کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اس کا کوئی دینی پس منظر نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کو غلط نہیں کہا جا سکتا البتہ اس میں اسراف ، نمایش اور اخلاق سے گری ہوئی محافل ممنوع ہیں۔ اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنے تہواروں میں یا روایات میں ہم اپنی تہذیب اور اپنی قوم کے زیادہ قریب رہیں۔ کوئی دوسرا آدمی اس میں مختلف رائے رکھ سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: برائی اور اچھائی انسان کی معلوم تاریخ میں ایک ہی جگہ کھڑی ہیں۔ ان کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ یہ انسان کی فطرت کا فتویٰ ہے اور اس کا الہام اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ جو صورت آپ بیان کرتے ہیں یہ آج پیدا نہیں ہوئی یہ ہمیشہ سے ہے۔ انسان کو آزمایش میں ڈالا گیا ہے اور یہ آزمایش ہمیشہ اس کے ساتھ رہی ہے۔ وہ نوح علیہ السلام کے زمانے میں آزمایش میں ناکام ہوا۔ اللہ کے پیغمبر نے ساڑھے نو سو سال تک اتمام حجت کیا اور آخر میں صرف اتنے لوگ بچے جو ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس وجہ سے اس کے یہ ہر گز معنی نہیں ہوسکتے کہ آج کوئی نیا معاملہ ہو گیا یا ہمارا طریقہ کمزو ر ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی باوجود اس کے کہ میڈیا نے بے شمار ایسی چیزوں کی یلغار کر رکھی ہے جو دین واخلاق کے بالکل خلاف ہیں، لوگ مسجدوں میں آتے ہیں، دین سنتے ہیں، دینی مجالس میں شریک ہوتے ہیں، آخر یہ سب کیا ہے؟ ہمیں اس معاملے میں رجائیت پسند ہونا چاہیے۔ اچھے پہلو کو دیکھیں۔ کیا وجہ ہے کہ برے پہلو پر ہی ہماری نگاہ پڑتی ہے۔ آپ کسی محلے میں جا کر کہیں بھی مسجد بنا دیجیے ، کچھ دنوں کے بعد وہاں نماز بھی ہو رہی ہوگی اور لوگ آ کر جماعت میں شریک بھی ہورہے ہو ں گے۔ جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے کم و بیش تناسب یہی ہے۔ اس وجہ سے اس میں کوئی تردد کی بات نہیں ہے۔ دین کی بات کیجیے، خیر کی بات کیجیے، لوگوں تک پہنچائیے اور اس معاملے میں زیادہ متردد نہ ہوں۔ آدمی کو اپنے اوپر زیادہ نگاہ رکھنی چاہیے۔یہ بھی موجودہ زمانے کا ایک حادثہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل بن گئی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے یا یہ کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ جبکہ اصل میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قسطوں کا کاروبار تو منع نہیں ہے، لیکن اگر آپ اس میں ادھار اور نقد کی قیمت کم و بیش رکھیں گے تو یہ سود ہو جائے گا اور سود دین میں ممنوع ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے ہی مقرر فرمائی ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام کے ہاں نماز ایسے ہی رہی تھی۔ صرف اس کے اذکار میں تھوڑی بہت تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نماز اسی طرح تھی۔ یہود کے ہاں بھی نماز تھی، نصاریٰ کے ہاں بھی نماز تھی۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پیرو بھی نماز پڑھتے تھے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ناخن کتروائیں۔ یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی انبیا نے ایک سنت کے طور پر جاری کی ہے۔ اور اس چیز کو لازماً اختیار کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہر آدمی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ دین سمجھے اور یہ عین ممکن ہے کہ آپ کے اور کسی کے فہم دین میں اختلاف ہو۔ اس میں open dialouge ہوتے رہنا چاہیے تاکہ بات واضح ہوتی رہے ۔ اگر کوئی آدمی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے کچھ لوگوں کو سیاسی جد و جہد کرنی چاہیے تاکہ یہاں ایک اچھی حکومت قائم ہوجائے تو یہ دین میں ممنوع نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ یہ بات ہر ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس کے لیے جدوجہد کرے تویہ ٹھیک نہیں ہے۔دین کا پیغام پہنچانے یادینی ماحول بنانے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایک آدمی اس کے لیے دعوت کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔ کسی میں صلاحیت ہے تو وہ سیاست کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔ یہ تدبیر کے معاملات ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی چیز کو بھی لازم نہیں کیا۔ جو چیز لازم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جائے اور دین کی بات ان پر واضح کی جائے۔اگریہ بات حکمرانوں پر واضح ہو جائے تو آپ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بغیر سیاسی جدوجہد کے حاصل ہو جائے گا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور اسی طریقے سے کام کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ‘اقیموا الدین’ کا مطلب بالکل وہی ہے جو اقامتِ صلاۃ کا ہے یعنی جب قرآن کہتا ہے ‘اقیموا الصلٰوۃ’ یا ‘اقم الصلٰوۃ’ تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کا اہتمام رکھو، نماز پر عمل پیرا ہو جاؤ، نماز کو مضبوطی سے پکڑو اور نماز کو اپنی زندگی کے اندر اختیار کرو۔ اسی طرح جب قرآن کہتا ہے کہ اقم الدین’ یا ‘اقیموا الدین’ تو اس کا مطلب ہے کہ دین پر پوری طرح عمل پیرا ہو جاؤ، دین کو اپنی زندگی بناؤ، دین کو پوری طرح اختیار کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کو زبردستی دوسروں پر نافذ کرو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین کے علم کے تین درجے ہیں۔ ایک درجہ وہ ہے جس پر عوام ہوتے ہیں۔ انہیں دین کا علم والدین، اساتذہ یا قریب کے علماسے ملتا ہے ،اور وہ اسی کو دین سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دین کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے علم کو بڑھاتے رہیں اور اگر کسی دوسرے صاحبِ علم کی بات ان کے سامنے آئے اور وہ ان کو زیادہ معقول لگے تو اس پر ضرور غور کریں۔ حق کے معاملے میں اپنے کان اور آنکھیں بند نہ کریں۔ اس سے زیادہ عام آدمی کر بھی نہیں سکتا۔ یعنی وہ اہل علم سے ضروری باتیں معلوم کرتا رہے ،کیا چیز حرام ہے، کیا حلال ہے، کیا تقاضے ہیں وغیرہ۔اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی مختلف اہل علم کی آرا کو پڑھتا ہے ، علم کے حصول میں محنت کرتا ہے اور خداداد ذہانت کی وجہ سے مختلف آرا میں سے بہتر رائے کا انتخاب کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دیانتداری سے بہتر رائے پر عمل کرنا چاہیے۔ آخری درجہ یہ ہے کہ آدمی اس درجے کا عالم ہو کہ وہ براہِ راست دین کے مآخذ سے رائے قائم کر سکے۔ یہ درجہ کوئی پچیس تیس سال کی شبانہ روز محنت کے بعد حاصل ہوتا ہے لیکن میرے خیا ل میں یہ خدا داد ہے، ہر آدمی کو حاصل نہیں ہو جاتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پاکستان میں رہتے ہوئے ایک انقلاب توآپ ہر وقت برپا کر سکتے ہیں اور وہ آپ کی اپنی ذات میں انقلاب ہے۔ اسی کو زیادہ تر توجہ کا موضوع بنانا چاہیے۔ دوسرا انقلاب آپ یہ برپا کر سکتے ہیں کہ اپنے گرد و پیش کے ماحول میں اللہ کے دین کا شعور پیدا کیجیے۔ اس میں بھی کوئی مانع نہیں ہے ، اگر تھوڑا سا وقت نکالیں گے تو یہ انقلاب بھی برپا ہو جائے گا۔ باقی قوموں کے معاملات اللہ اپنی مشیت سے کرتا ہے۔ جب وہ کر دے گا تو انقلاب برپا ہو جائے گا۔ورنہ یہ دنیا اس نے جنت بنانے کے لیے نہیں بنائی۔ یہ دنیا آزمایش کی دنیا ہے۔ اس میں کوئی اگر اچھی حکومت قائم ہو بھی گئی تو اطمینان رکھیے زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ اس کے بعد اس میں بھی زوال آئے گا اور وہ کچھ سے کچھ ہو جائے گی۔ سوڈان میں کیا ہوا، لیبیا میں کیا ہوا، اس صدی کی پہلی دہائی میں محمد بن عبد الوہاب کے انقلاب کیا ہوا یہ سب آپ کے سامنے ہے ۔اللہ کی دنیا میں آزمایش کے دن بدلتے رہتے ہیں۔ حکومتوں میں بھی خرابیاں آتی رہتی ہیں، عوام میں بھی آتی رہتی ہیں۔ آپ یہ دیکھیے کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اُن ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی حسب استطاعت کوشش کیجیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کی یہ بات بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ گھر کا نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے اسلا م کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ عورتیں قنوت کا رویہ اختیار کریں یعنی اُن کو سوسائٹی میں اپنے شوہروں کے ساتھ adjustment کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، نہ کہ بغاوت کا۔ یہ وہی چیز ہے جو فرق مراتب میں باپ کے مقابلے میں بچوں کو کرنا چاہیے۔اسی طرح شوہر کے مقابلے میں بیوی سے متوقع ہوتا ہے۔مرد اور عورت کی بات نہیں؟ کوئی بھی عورت جب ماں بن جاتی ہے یا بڑی بہن ہوتی ہے تو اس کے معاملے میں مردوں کو بھی یہی رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ماں کی اطاعت کریں گے اور اس کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ اسلام جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے وہ فرق مراتب کے اصول پر قائم ہے۔ یعنی رشتوں کا احترام قائم کیا گیا ہے۔ باپ کے لیے ایک مرتبہ ہے ، ماں کے لیے ایک مرتبہ ہے، بڑی بہن اور بڑے بھائی کے لیے ایک مرتبہ ہے۔ بالکل اسی طرح استاد کے لیے ایک مرتبہ ہے اور اسی طریقے سے شوہر کے لیے بھی ایک مرتبہ ہے۔ اس کا تعلق مرد اور عورت کے فرق سے نہیں ہے ، اس کا تعلق رشتوں اور ان کے احترام سے ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شوہروں پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئیتو حقیقت یہ ہے کہ ساری ذمہ داری ڈالی ہی ان پر گئی ہے۔ نان و نفقہ اور گھر چلانے کی ذمہ داری انھی پر ہے۔ کوئی خاتون اس معاملے میں ادنیٰ درجے میں بھی اس کی مدد نہ کرے تو اسے کوئی پوچھ نہیں۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ نے خاص تلقین کی ہے کہ ‘ ولا تنسوا الفضل بینکم’ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تم کو بیوی پر ایک درجہ فضیلت دی ہے کبھی اس کو فراموش نہ کرنااور اپنے حقوق کو پورا کرنے کے معاملے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرنا۔ اور اگر کوئی غلطی اور کوتاہی ہوتی ہے تو عفو و درگزر اور محبت و شفقت سے کام لینا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے جو نصیحت کی وہ عورتوں کے بارے میں کی۔ اور لوگوں کو خبردار کیا کہ ان کے بارے میں تم سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ولادت کے بعد جب تک خون کی آلایش باقی رہے ، اُس وقت تک نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ جس نوعیت کے پانی کا آپ نے ذکر کیا ہے اس سے غسل لازم نہیں ہوتا۔ پیدایش کے بعد بچوں کو چالیس دن تک گھر سے باہر نہ نکالا جائے ، یہ محض توہمات ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسا اور اعتماد کر کے اپنے بچوں کو باہر لے جائیے۔ یہ ہندوانہ نوعیت کے توہمات ہیں، جن کی وجہ سے لوگ اس طرح کرتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سنت قائم کی ہے، وہ یہ ہے کہ امام مختصر سی ایک تقریر کرے، اس کے بعد چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے پھر اٹھ کر ایک دوسری تقریر کرے جس میں حضور زیادہ تر دعائیں کرتے تھے۔ یہ کل چند منٹ کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ عربی میں ہوتا ہے یعنی عربی زبان میں ایک لکھا لکھایا خطبہ لوگ پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے پہلے آدھ پون گھنٹے کی ایک پوری تقریر ہوتی ہے۔ یہ یہاں برصغیر کی ایجاد ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہی خطبہ دینا چاہیے اور وہ اردو زبان میں دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خطبہ متوجہ الی الناس ہوتا ہے۔ اگر آدمی نے عربی میں کچھ پڑھنا ہے تو اس کو کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھنا چاہیے، ہماری طرف منہ کر کے کیوں کھڑا ہوتا ہے۔ ہماری طرف اگر آدمی منہ کر کے کھڑا ہوا ہے تو پھر اس کو اپنی مقامی زبان میں گفتگو کرنی چاہیے اور نصیحت کرنی چاہیے۔اس میں زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کے جو چند کلمات ہیں، وہ ابتدا میں پڑھ لے۔ اردو میں جو پہلے تقریر کی جاتی ہے یہ بس تقریر ہے، اس کا جمعے کے خطبے کی سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی کے دونوں خطبے ہی اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت ہیں۔ لیکن میرے خیال میں پاکستان میں وہ اردو میں ہونے چاہییں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:اسلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ایسے کام عورت کی فطرت کے خلاف ہیں۔ اسلام نے صرف یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت کے اندر گھر بنانے ، گھر کو چلانے اور بچوں کی پرورش کرنے کے لیے غیر معمولی صلاحیت رکھی ہے۔عورت کی فطرت میں فلاں فلاں چیز نہیں رکھی، ایسی کوئی بات نہ قرآن میں ہے ، نہ حدیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بہت سارے کام کرتی رہی ہیں اور آج کے زمانے میں بھی کر رہی ہیں۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں ہمیشہ سے عورتیں مردوں کے ساتھ معاشی زندگی میں بالکل برابر کی شریک رہی ہیں۔ یہ اشرافیہ کی معاشرت ہے جس میں پالکیوں میں بیٹھ کر عورتیں نکلتی رہی ہیں۔ اس کا اسلام یا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت اس شعبے میں کام کر سکتی ہے کہ جہاں اس کی عزت و عصمت محفوظ رہے اور جہاں کام کرنے کے لیے اس کو اپنادین قربان نہ کرنا پڑے۔بلکہ یہ بات تو مردوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ انہیں ہر وہ شعبہ ترک کر دینا چاہیے جہاں ان کادین او رآخرت محفوظ نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید نے لازم کیا ہے کہ کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا نام نہیں لیا جائے گا۔ تیسری بات یہ کہ جب آپ ذبح کر رہے ہیں تو اس طریقے سے ذبح کریں جو انبیا علیہم السلام نے بتایا ہے۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ جانور کا خون اچھی طرح سے نکل جائے، اس کی فوری موت واقع نہ ہو۔ اور ذبح کرنے والا وہ ہونا چاہیے جو اصلاً توحید کو اپنا دین سمجھتا ہو۔ جو لوگ دینِ شرک کو اپنائے ہوئے ہیں ان کا ذبیحہ جائز نہیں ہے، خواہ وہ اللہ ہی کے نام پر کیوں نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میں آپ لوگوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح نبیوں کا انتخاب کیا ، اسی طرح صحابۂ کرام کا انتخاب کیا ہے۔ جس طرح پیغمبروں کو شہادت کے منصب پر فائز کیا، اُن کو بھی اسی طرح شہادت کے منصب پر فائز کیا۔ جس طرح پیغمبروں کے ذریعے سے اللہ کی حجت تمام ہوئی، اسی طرح ان کے ذریعے سے دنیا کی ساری اقوام پر حجت تمام ہوئی۔ اور بیعت رضوان کے صحابہ کے بارے میں تو قرآن یہ کہتا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ اس وجہ سے اس معاملے میں بہت متنبہ رہنا چاہیے اور کبھی لغو روایات اور قصے اور کہانیوں کی بنیاد پر آرا قائم نہیں کرنی چاہیے۔ آج ہمارے پاس بے شمار ذرائع ہیں، میڈیا ہے، ٹیلی وژن ہے، ریڈیو ہے، اخبارات ہیں اور مواصلات کے دیگر ذرائع ہیں، جگہ جگہ کی خبریں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک واقعے کے بارے میں دس طرح کی رپورٹس ہوتی ہیں اور فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اسی زمانے میں ہوا ہے۔اس کے بارے میں کتنی آرا ہیں۔ بارہ اکتوبر کا واقعہ اسی ملک میں ہوا ہے، کوئی صحیح نتیجے تک پہنچ سکا۔ کارگل کا واقعہ اسی زمانے میں ہوا کیا صحیح بات معلوم ہوئی؟ آج یہ حال ہے تو آپ کاکیا خیال ہے کہ اتنے برسوں پہلے کا ایک واقعہ من وعن پہنچ گیا ہے ۔ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن مجید موجود ہے اور قرآن مجید اس طرح کے تمام واقعات کی لغویت کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ کا مرتبہ، ان کا مقام بہت غیر معمولی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں ‘ہو اجتباکم’ اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس میں ہر آدمی کو زبان کھولتے ہوئے اس کا خیال کرنا چاہیے۔ حدیبیہ میں کوئی نافرمانی نہیں کی گئی بلکہ لوگ ایک سراسیمگی کی کیفیت میں تھے اور پوری توجہ کے ساتھ سن ہی نہیں سکے۔ انھیں باور ہی نہیں آیاکہ کیا واقعی حضورﷺ نے یہ حکم دیا ہے۔ اسی وجہ سے جب ام المومنین نے حضورﷺ کو یہ بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں، لوگ آپ کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتے۔ آپﷺ جا کے قربانی کیجیے، دیکھئے لوگ فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے تو ایسا ہی ہوا۔ صحابہ کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا میرے نزدیک آدمی کا شہد کی مکھی کے بجائے ، گندگی کی مکھی بن جانا ہے کہ وہ چیز کے روشن پہلو کو دیکھنے کے بجائے جہاں غلاظت ہو ،اُس پر بیٹھ جائے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اپنے والد کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔ انھوں نے اگر کوئی نماز جان بوجھ کر قضا کی ہے تو اس کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی جائے ۔ اگر ان کی کوئی نماز کسی غلطی فہمی یا کسی معذوری کی وجہ سے چھوٹ گئی ہے تو اُس پر اللہ مواخذہ نہیں کریں گے۔ آپ کو اِس معاملے میں متردد نہیں ہونا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ آیت شریعت کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے یعنی اللہ نے جو دین اور شریعت دی ہے اور اس کے لحاظ سے جو احکام دیے ہیں، ان میں اتنا ہی بوجھ ڈالا ہے جتنا لوگ اٹھا سکیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں ایک ہی نشانی بیان ہوئی ہے اور وہ یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔یاجو ج و ماجوج سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد ہے ۔ یہ دنیا کے اوپر غلبہ پا لیں گے اور پوری دنیا کے اندر گویا ایک فساد بن کر نکل کھڑے ہوں گے۔ اس کو قیامت کی نشانی بتایا گیا ہے۔ مستند حدیثوں میں جو نشانی بیان ہوئی ہے ،میرے نزدیک سب سے زیادہ قوی وہی ہے جو حدیثِ جبرئیل میں بیان ہوئی ہے کہ غلامی اپنے institution کے طور پر ختم ہو جائے گی اور یہ عرب کے چرواہے اتنی اتنی بڑی عمارتیں بنائیں گے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ تینوں نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا کی قبولیت کا ایک ضابطہ ہے۔ جب آپ دعا کے قبول ہونے کی شرائط پوری کر دیں گے ، تب دعا قبول ہو گی۔ مثال کے طور پر آپ گھر میں بیٹھ جائیں، دروازہ بند کر لیں اور کہیں کہ پروردگار رزق عطا فرما، رزق عطا فرما ۔ یہ وہ بات ہے جس پر سیدنا مسیح علیہ السلام نے شیطان کو ڈانٹا تھا ۔ شیطان نے کہا کہ مسیح تمہیں اللہ تعالیٰ پر بڑا اعتماد ہے، ذرا یہ پہاڑ کے اوپر چڑھ جاؤ اور اپنے آپ کو گرا دو پھر دیکھو تمہارا خدا تم کو بچا لیتا ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح نے کہا کہ دور ہو مردود۔ مجھے خدا نے آزمانا ہے میرا کام خدا کو آزمانا نہیں۔ اس لیے خدا کو آزمانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کیجیے اور اس کے بعد اللہ سے دعا کیجیے پھر وہ اس کو قبول فرماتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قوم کے اجتماعی ضمیر کو بیدار کرنے کا بنیادی طریقہ تعلیم ہے۔تعلیم سے مراد صرف formal تعلیم نہیں ہوتی ۔ بچوں کی تعلیم کا اہتمام کیجیے، قوم کو عمومی طور پر educate کیجیے۔ سیمینار کیجیے، مذاکرے کیجیے، رسائل نکالیے۔ یہی طریقے ہیں جو دنیا میں عام ہوئے ہیں اور اب تو بہت ذرائع پیدا ہو گئے ہیں۔ انٹرنیٹ کی غیر معمولی سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ بہت سے چینلز وجود میں آ گئے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر جن لوگوں کو اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لیے کچھ داعیہ محسوس ہوتا ہے ، وہ لوگ اپنے سب کے سب وسائل مجتمع کر کے ان چیزوں پر لگا دیں اور ان بے ہودگیوں میں نہ پڑیں جن میں وہ پڑے ہوئے ہیں تو اس قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے کی جد و جہد کی جا سکتی ہے۔ لیکن پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ دیکھیں کہ کیا چیزیں ہیں جو قوم کو بتانی ہیں۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ ہر آدمی تشدد، مذہبی منافرت، فرقہ بندی، دوسروں پر چڑھ دوڑنے، خواب دیکھنے ، بغیر تیاری کے دنیا پر پِل پڑھنے کی تعلیم دے رہا ہے۔ پہلے آپ حقیقت پسندانہ طریقے سے یہ طے کیجیے کہ قوم کو بتانا کیا ہے؟ جب وہ باتیں آپ طے کر لیں تو اس کے بعد پھر بتانے کے ذرائع بہت ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عدت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس دوران میں ایک خاتون کو سوگ کی کیفیت میں رہنا ہے اور اس کو کسی سے نکاح نہیں کرنا۔ اگر کسی عورت کو ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ باہر جا سکتی ہے۔ جس چیز کو دین نے نا پسند کیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی سرگرمی اُس کو نہیں کرنی چاہیے ، جس میں اُس پر کسی تہمت لگنے کا اندیشہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی ایک دعا ہے اور کچھ نہیں ہے۔ آپ کو اگر کوئی فیصلہ کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے آپ خیر کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے ساتھ جو قصے کہانیاں وابستہ ہیں، یہ محض افسانہ طرازی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے پاس انبیا علیہم السلام کا دین ہے اور انبیا علیہم السلام کے دین میں ہم کو دنیا کے اندر رہ کر آخرت کی کھیتی کاٹنا ہے۔ اس لیے آپ دنیا کو چھوڑ نہیں سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارے دین میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔ ہم کو بیوی بچوں کے ساتھ رہنا ہے، زندگی کے معاملات انجام دینے ہیں اور اس میں رہتے ہوئے اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)